فكر ونظر
کیا آپ مالی اعتبار سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں؟
یمین الدین احمد
میں پچھلے بیس پچیس برسوں سے اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک کا سفر کرتا رہتا ہوں۔ صرف کووڈ کے دو سال ایسے گزرے تھے کہ جن میں، میں ملک سے باہر نہیں گیا۔پچھلے ایک سال میں بھی میرے بہت زیادہ اسفار رہے ہیں اور مختلف قومیتوں کے لوگوں سے ملنے اور ان کی سوچ کو جاننے کا موقع ملا۔ایک بات جس کا مجھے بہت زیادہ ادراک ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اکثر ممالک کے معاشی حالات بہت اچھے نہیں ہیں اور خصوصا" پچھلا ایک سال اس حوالے سے بہت مشکل ثابت ہوا ہے۔متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، بحرین کے علاوہ نارتھ امریکہ اور یورپ میں عام لوگ مہنگائی، ٹیکسز، اور بیروزگاری کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان اور فکرمند نظر آتے ہیں۔البتہ ہر جگہ وہ لوگ جو اداروں میں اچھے عہدوں پر ہیں یا اچھی کوالیفیکیشن کے ساتھ ہیں تو ان کے لیے مواقع زیادہ ہیں اور وہ نسبتا" بہتر طور پر سروائیو کر رہے ہیں۔ہم پاکستانیوں اور دیگر قوموں کے لوگوں میں، مجھے ایک بہت واضح فرق نظر آتا ہے۔ یہ فرق پہلے اتنا واضح نہیں تھا یا اس کا اظہار اس طرح سے نہیں تھا جیسے کہ اب ہے۔ایک تو پچھلے دو سالوں میں پاکستان سے بیرون ملک جانے والے بہت سے لوگوں نے پتا نہیں یہ کیوں سمجھ لیا کہ پاکستان سے باہر ہر چیز بہت آسانی سے مل جائے گی اور وہ بہت جلد مالی طور پر خوشحال ہوجائیں گےجبکہ آپ کہیں بھی جائیں گے، آپ کو سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا اور آپ صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکیں گے جبکہ آپ نے اپنی علمی اور عملی استعداد کو بڑھانے کے لیے خاطر خواہ محنت کی ہو ورنہ کوئی اور اس مسابقتی دنیا میں آپ کو پچھاڑ کر آگے بڑھ جائے گا۔اب بہت سے لوگوں کو ان کی غلط توقعات کے مطابق مالی طور پر کامیابی نہیں ملی تو انہوں نے غلط طریقوں سے شارٹ کٹ کی کوشش کرنی شروع کردی۔ کچھ لوگوں کو اس طرح کی دو نمبریوں سے کچھ وقتی کامیابی بھی مل گئی، جس کو دیکھ کر بہت سے اور نوجوانوں نے اس طرح کے غلط طریقوں کا راستہ لینا شروع کر دیا۔نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اکثر لوگ پکڑے جانے لگے اور اس وقت صرف متحدہ عرب امارات میں ہزاروں پاکستانی دھوکہ دہی، بے ایمانی اور لوگوں کو مالی نقصان پہنچانے کے جرم میں جیلوں میں ہیں۔دوسرا نقصان اس کا یہ ہوا ہے کہ اس وقت پاکستان کے تقریبا" 25 کے قریب شہر ایسے ہیں کہ اگر آپ کا شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کا ان شہروں سے اجراء ہوا ہے تو اب متحدہ عرب امارات کا وزٹ ویزہ ملنا تقریبًا نا ممکنات میں سے ہے۔مجھے اس بارے میں ہمارے ایک اماراتی دوست نے پچھلے دورے میں تفصیل سے بتایا اور سخت تاسف اور افسوس کا اظہار کیا۔وہ بار بار مجھ سے ایک ہی سوال پوچھ رہے تھے کہ "آخر آپ پاکستانیوں کو ہو کیا گیا ہے؟ آپ لوگوں کے ہاں تربیت اور ذہن سازی اس قدر کمزور کیونکر ہوگئی ہے؟ آج آپ لوگ ایک اوسط ہندوستانی کے مقابلے میں بھی زیادہ گرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں! آخر پچھلے تین چار سالوں میں ایسا کیا ہوگیا ہے کہ آپ کے نوجوانوں کی اخلاقی حالت اس قدر خراب ہوگئی ہے۔ لالچ، جلدی پیسے کمانے کی خواہش، اور نفس پرستی اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے!"یقین کیجیے، یہ ساری باتیں وہ مجھے بالمشافہ ملاقات میں کہہ رہے تھے۔ ان سے پرانا تعلق ہے اور وہ اپنے کاروباری اور ذاتی معاملات میں مجھ سے مشورے کرتے رہتے ہیں۔دوسری چیز جس کا انہوں نے بھی ذکر کیا اور میں نے بھی ہمیشہ اس بات کو نوٹس کیا ہے اور اب یہ بہت زیادہ واضح نظر آتا ہے کہ کوئی بھی اور قوم اپنے ملک کی اتنی برائیاں اور غیبتیں نہیں کرتی جتنی مجھے ہمارے اپنے لوگ پاکستان کے بارے میں کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ انتہائی افسوسناک رویہ ہے اور اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا کفر کرنے کے مترادف ہے۔ کم از کم میں اسے کفران نعمت ہی سمجھتا ہوں۔میرے بہت سے کلائنٹس ہیں جن کا تعلق مختلف افریقی ممالک مثلا" صومالیہ، ایتھوپیا، مشرقی افریقہ، زیمبیا، کانگو، سوڈان، سیرالیون وغیرہ سے ہے۔ وہ اپنے ملکوں کی غربت کی داستانیں جب سناتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔میرے کئی بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے کلائنٹس جب بنگلہ دیش کی غربت اور استحصال کا نقشہ کھینچتے ہیں تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ان کی پریشانیاں زیادہ ہیں یا ہماری؟ لیکن ان میں سے کوئی بھی شخص مجھے ایسا نہیں ملا جو اپنے ملک کو برا بھلا کہہ رہا ہو۔ اس کو حسینہ واجد سے نفرت ہوگی لیکن وہ کبھی بھی ملک سے باہر اس کا اظہار نہیں کرے گا۔اور ان میں سے کچھ ممالک کا میں سفر کر چکا ہوں اور زمینی حقائق دیکھ چکا ہوں۔ جس کے بعد میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ۔۔۔
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ۔۔۔۔
دیکھیے میرے بھائیو اور بہنو!ہماری معیشت اور مالی حالات کا حل رونے دھونے اور شکوے شکایتیں کرنے میں نہیں ہے بلکہ عزم مصمم کے ساتھ عملی طور پہ کچھ کرنے میں ہے۔
1. علم و تعلیم:
اگر آپ کی تعلیم مکمل ہو چکی ہے تو ابھی بھی آپ کو نئی چیزیں سیکھنے کا موقع نکالنا پڑے گا۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ نے بیچلرز کی ڈگری کر لی ہے بلکہ ماسٹرز بھی کرلیا ہے اور اب آپ کو بہت اچھے پیسوں والی نوکری مل جائے گی تو یقین کیجیے کہ یہ آپ کی بہت ہی بڑی غلط فہمی ہے۔دنیا بدل نہیں رہی بلکہ بالکل بدل چکی ہے۔ اور ہمارے ہاں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو کچھ پڑھایا جارہا ہے، اس میں سے اکثر باتوں کا آج کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہمارے نوجوان ٹرک کی کن کن بتیوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں!اپنے آپ کو بہت تیزی سے اپ گریڈ اور اپ اسکل کریں ورنہ یقین کیجیے، آپ باصلاحیت لوگوں کے سامنے کھڑے ہی نہیں ہوسکیں گے۔
آپ اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ اپنے آپ کو مالی استحکام لحاظ سے کہاں دیکھنا چاہتے ہیں؟ کچھ تو سوچیں؟ رونے دھونے کو چھوڑ کر کوئی منصوبہ بندی تو کریں!
انٹرنیٹ پر بیشمار مفت ریسورسز موجود ہیں جو آپ کو نئی مہارتیں سیکھا سکتی ہیں۔یہ مہارتیں ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیویلپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، فری لانسنگ، ڈیٹا سائنس، اے آئی اور بہت کچھ ہیں۔
آپ ہفتے میں کتنا وقت نئی صلاحیتیں سیکھنے پر لگاتے ہیں؟آپ نے پچھلے 6 ماہ میں کتنے نئے کورسز کیے ہیں؟ کتنی کتابیں پڑھی ہیں؟مجھ سے کتنے ہی لوگ مدد کے لیے رابطہ کرتے ہیں لیکن میں کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ میں کسی کو جاب نہیں دلوا سکتا۔ میں آپ کو پیسے نہیں دے سکتا۔ ہاں میں آپ کو یہ مشورہ دے سکتا ہوں کہ اٹھیے، اپنے آپ پر خود رحم کیجیے۔ ہم دنیا میں سب سے کم کتابیں پڑھنے والی قوموں میں سے ہیں۔تو کیا آپ کے خیال میں اس حالت کے ساتھ اللہ تعالٰی آسمان سے ہمارے لیے فرشتے اتاریں گے؟ کبھی نہیں-
2. صلاحیتوں کا استعمال:
آپ کو اپنی صلاحیتوں کا معلوم ہونا چاہیے اور ان کا استعمال کرنا چاہیے۔ اگر آپ کو لکھنے، پڑھنے، تدریس، خرید و فروخت، گرافک ڈیزائننگ یا کچھ بھی کرنے کا شوق ہے تو آپ اس کو استعمال کر کے اپنی آمدنی کا ذریعہ کیوں نہیں بنا سکتے ہیں؟ دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں اور تھڑوں پر بیٹھنا بند کردیجیے۔ خواتین ٹی وی پر ڈرامے دیکھنا اور سوشل میڈیا کی فضول اسکرولنگ بند کردیں۔ فوکس! میرے دوستو! فوکس کریں!
3. پیسہ بچانے کی عادات:
مالی پریشانی كاایک بڑا سبب ہماری خرچ کرنے کی عادات ہوتی ہیں۔ آپ کو اپنی ضروریات اور خواہشات کی تشخیص کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتا، صرف ضروریات پر خرچ کریں۔ اور سیکھنا آپ کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
4. سائیڈ بزنس:
اگر آپ کا موجودہ کام آپ کو ضرورت کے مطابق آمدنی نہیں دے رہا ہے تو آپ کو کوئی سائیڈ میں کام کرنے کا سوچنا چاہیے۔ لیکن اس سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیجیے کہ آپ کے کور کام کے اندر اپنی صلاحیتوں کو نکھار کر آپ زیادہ ترقی کرسکتے ہیں۔ورنہ ایک ایسا سائیڈ بزنس جو کچھ بچے ہوئے وقت میں کیا جاسکے۔ جیسے کہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق آن لائن فری لانسنگ یا کوئی چھوٹا سا کاروبار جیسے شام کو اپنے گھر کے قریب ہی فرائیز کا ایک اسٹال لگا لینا۔
مشہور امریکی ادیب کرس گیلیبو کی مثال ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کسی بھی عمر میں، کسی بھی حالات میں، آپ کی زندگی کو بہتر بنانے کا کچھ نہ کچھ راستہ ہوتا ہے۔ اس نے اپنی مشہور کتاب "$100 Startup" میں بتایا ہے کہ کیسے اس نے صرف $100 میں ایک نیا کاروبار شروع کیا اور اپنی زندگی کو بہتر بنایا۔ یہ کتاب تو آپ پڑھ ہی سکتے ہیں! یا یہ بھی نہیں کر سکتے؟
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ بڑے کاروبار یا بڑی کامیابی کے لئے بہت سارے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کریس گیلیبو نے اپنی کتاب میں یہ بتایا ہے کہ کم پیسے میں بھی کاروبار کیسے شروع کیا جا سکتا ہے۔
ویسے میں آپ کو ایک بتا رہا ہوں کہ اپنے کام کے لیے پیسوں سے زیادہ شاندار آئیڈیاز اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ آپ کو سیکھے بغیر نہیں آسکتے۔ایک اور مثال ایلون مسک کی ہے، جو اپنی زندگی کی ایک نقطے پر کروڑوں ڈالر کا مقروض ہو گیا تھا۔ لیکن اس نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ ہی ہار مانی۔
لوگوں نے مذاق اڑایا، ناکام کہا لیکن وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے مستقل مزاجی سے لگا رہا، اور آج وہ دنیا کے سب سے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہے۔ممکن ہے کہ ہم اس کے بہت سے خیالات سے اتفاق نہ کرتے ہوں لیکن مثال یہ بتانے کے لیے ہے کہ مالی طور پر مستحکم ہونے کے لیے مستقل مزاجی اور استقامت بہت اہم صفات ہیں۔
مجھے پچھلے ماہ دبئی ہی میں ایک 21 سالہ پاکستانی نوجوان سے ملاقات کا موقع ملا۔ ایک عام پاکستانی فیملی سے تعلق رکھنے والا نوخیز نوجوان۔ یہ نوجوان جب 11 سال کا تھا تو اس نے میری ورکشاپس اٹینڈ کر لی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے والد اسے اپنے ساتھ لے آیا کرتے تھے۔ وہ کبھی کمرے میں بیٹھتا تھا اور کبھی باہر چلا جاتا تھا۔ ایک چھوٹا سا 11 سال کا بچہ!اس کے والد اور وہ خود کہتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ جو باتیں اس وقت کررہے ہیں وہ میرے subconscious میں اس طرح سے پیوست ہوجائیں گی۔
پھر والد صاحب بھی سمجھاتے تھے کہ ورکشاپ میں کیا بات ہوئی۔ آج دس سال بعد ان باتوں کے سننے کا رزلٹ یہ آیا کہ میں نے اس وقت سے سوچنا شروع کردیا تھا کہ مجھے 20 سال کی عمر میں پاؤں پر کھڑا ہونا ہے۔ مجھے 23 یا 24 سال کی عمر میں اپنا خود کا گھر بنا لینا ہے اور والدین کو اپنے پیسوں سے گاڑی خرید کر دینی ہے اور ان کو اس گھر میں رکھنا ہے۔وہ میرے پاس ہوٹل میں اپنے کچھ معاملات میں مشوروں کے لیے آیا تھا۔اس نے کہا کہ 11 سال کی عمر میں جو وژن میں نے دیکھا تھا، اس کی روشنی میں 17 سال کی عمر سے پڑھائی کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کام شروع کردیئے تھے کہ کم از کم اپنے خرچے خود نکال سکے۔ اس کے والد دبئی میں ایک کمپنی میں ملازم ہیں اور کووڈ کے دنوں میں ان کی فیملی مشکل حالات سے گزری تھی۔اس نے رئیل اسٹیٹ کا شعبہ چنا اور اپنی انڈسٹری میں اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو انتہائی اصول پسندی اور ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔ اس کے کمپنی کے مالکان اس 21 سالہ لڑکے سے مشورے کے بغیر کوئی بڑا پروجیکٹ نہیں کرتے۔اگلے دو سالوں میں اس کا ارادہ ہے کہ وہ اپنی کمپنی بنا لے گا اور یہ بات وہ اپنے مالکان کو بتا چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ پارٹنرز بن جائیں گے لیکن تمہیں چھوڑیں گے نہیں۔اب بتائیے! یہ بھی ہمارے ہی ملک کا نوجوان ہے۔ اس سے اتنے عرصے بعد مل کر دل خوش ہوگیا۔ اپنے والد کو وہ پچھلے سال ایک شاندار گاڑی دلا چکا ہے۔ اگلے سال اس نے دبئی میں اپنا گھر خریدنا ہے اور وہ گھر پسند کرچکا ہے۔سبحان اللہ!
یہ کوئی شرمندگی کی بات نہیں ہے کہ آپ نے جن ستاروں پہ کمند ڈالنے کا سوچا تھا، آپ ان پر کمند نہیں ڈال سکے۔ لیکن یہ انتہائی شرمناک ہوگا کہ آپ نے کوئی ستارے ہی نہیں چنے جن پر آپ کو کمند ڈالنی تھی!
مجھے امید ہے کہ یہ پوسٹ آپ کو محنت کرنے، نئی چیزیں سیکھنے، اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی ترغیب دے گی۔
یاد رکھیں، امکانات کی ایک وسیع دنیا ہر وقت موجود ہے۔ ہمیشہ پر امید رہیں، مشکلات کو اپنے لیے آگے سیکھنے کا سبق بنائیں، اور ہر وقت سیکھنے کی کوشش میں لگے رہیں۔ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ "ہر اندھیرے کے ساتھ اللہ ایک راہ روشنی کی بھی رکھتا ہے". ہمیں صرف اس راہ کو پہچان کر اس پر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔محنت، ہمت، اور استقامت ہمیں ہمیشہ کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں۔ آپ کا مستقبل آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے، اور آپ کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ اگر آپ محنت کریں گے، تو آپ کو کامیابی ضرور ملے گی۔کم از کم میری زندگی کا سبق تو یہی ہے اور آج بھی میں اسی پر عمل پیرا ہوں۔