فكر و نظر
ہماري اربن مڈ ل كلاس
كامران طفيل
ایک دوست نے پوسٹ کی کہ ہمیں نہایت سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے کہ عمران خان کی سپورٹ بیس کیا ہے اور کیسے بنی ہے؟ اس کا آسان مطلب یہ ہے کہ ہمیں اربن مڈل کلاس کی نفسیات کا جائزہ لینا ہوگا۔کسی نے لکھا تھا کہ کتنا ظلم ہے کہ حماد صافی کے پینتالیس لاکھ فالورز ہیں جبکہ ہود بھائی کے چھ ہزار۔گویا ایک چھوٹا سا بچہ جو اربن مڈل کلاس کی نفسیات سے واقف ہے وہ پینتالیس لاکھ فالورز لے اڑتا ہے جبکہ ایک ایسا شخص جو امریکی یونیورسٹی کا پوسٹ گریجویٹ ہے اس کو صرف چھ ہزار سامعین ہی ملتے ہیں۔ڈان کے پروگرام ذرا ہٹ کے اوسط ویورز چھ ہزار اور عمران ریاض خان کے چار لاکھ باون ہزار ویوز ہوتے ہیں۔میرا تعلق اسی اربن مڈل کلاس سے ہے اس لئے ایک اور مثال سے بات کو واضح کرتا ہوں۔میرے میٹرک کے بیس کلاس فیلوز کا ایک واٹس ایپ گروپ ہے اور ان میں سے سولہ عمران لورز ہیں۔میں نے ایک دن گروپ میں سوال پوچھا کہ کرپشن ختم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ جواب آیا کہ سات سے دس لوگوں کو چوراہے پر پھانسی دے دیں تو کرپشن رک جائے گی اور یہ فل بینچ کا فیصلہ تھا۔میں نے عرض کیا کہ آپ جتنا کیش کا استعمال گھٹائیں گے اتنا ہی کرپشن کم ہوگی اور ہمارے ہاں ایف اے ٹی ایف کے بعد بے نامی اکاؤنٹس ختم ہوئے اور نو یور کسٹمر آنے سے بھی کرپشن کم ہوگی,راست کے استعمال سے بھی کرپشن کم ہوگی۔ان میں سے کسی نے میری تائید نہیں کی کیونکہ ان کو ایک آسان حل دستیاب تھا لہذا سوچنے سمجھنے کی لعنت سے کیوں دوچار ہوں؟ ميں نے ایم بی اے کے دوستوں کے گروپ میں سوال کیا کہ یار سب سے اچھا اسلامی شہد کہاں ملے گا۔سب نے حسب توفیق نشاندھی کی لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ شہد اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتا۔کیونکہ اسلامی ٹچ سے انہیں لگتا ہے کہ چیز پوتر سی ہوگئی ہے۔اپنے گریجوایشن کے کلاس فیلوز سے پوچھا کہ پاکستان ترقی کیوں نہیں کرتا تو انہوں نے عمران خان کے علاوہ سب سیاستدانوں کو گالیاں دیں۔جب میں نے کہا کہ لیکن عوام ان کو ووٹ کیوں دیتے ہیں تو جواب آیا کہ عوام جاہل ہیں۔کسی ایک میں بھی کسی تجزیے کی صلاحیت نہیں تھی۔یہ سب سپر فیشلی چیزوں کو دیکھتے ہیں اور علت و معلول سے ناواقف ہیں۔
ان کی کمزوریاں اسلام, مدینے کی ریاست, قومی حمیت, اپنے معاشرے کی مشرقی روایات, مغربی معاشرے کے فاسد ہونے کا اعلان ہیں۔میں کسی سے پوچھتا ہوں کہ کیا عمران دور میں ہم بھکاری نہیں تھے? وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے والے ہی تھے,ان کو سٹیٹسکس سے کوئی غرض نہیں ہے۔یہ فقط عمران خان کا معاملہ نہیں ہے بلکہ طاہر القادری جنہوں نے عالم رویا میں پندرہ سال داتا گنج بخش سے تعلیم حاصل کی کو سننے والے اور سر دھننے والے بھی اربن مڈل کلاس کے لوگ ہیں, انیس سو نوے میں ابدالی مسجد ملتان میں ایک صاحب مجھے مولانا طارق جمیل کا بیان سننے کے لئے لے گئے اور میں نے ایک گھنٹہ دس منٹ حضورؐ کی بکریوں اور اونٹنیوں کے نام سنے اور حاضرین کی طرف دیکھا تو پن ڈراپ سائلینس تھا جبکہ اس علم کا ایک فیصد بھی عملی زندگی سے تعلق نہیں تھا ,تو کیا طارق جمیل کے معتقدین عمران خان سے تعداد میں کم ہیں? لیکن اربن مڈل کلاس کی سپر فیشل سوچ کی تسکین ہوجاتی ہے ان کو سن کر, کیونکہ وہ تجزیہ کرنے کی تکلیف سے گزرنا ہی نہیں چاہتے۔
اربن مڈل کلاس کے ہیروز دیکھیں-عامر لیاقت-حماد صافی-طارق جمیل-عمران خان۔
جب عمران خان کہتا ہے کہ پندرہ دن میں کرپشن ختم کر دوں گا تو انہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ کرپشن کاز ہے یا ایفیکٹ? اور کیا کرپشن پندرہ دن میں ختم ہوسکتی ہے? جب عمران خان سائیکل پر جانے کی بات کرتا ہے تو انہیں لگتا ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا, انہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ پاکستان میں تین وزرائےآعظم کو سڑک پر مار دیا گیا, وہ ڈنمارک اور پاکستان کے حالات کے مابین تفریق کو سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔انہیں لگتا ہے کہ سترہ رکنی کابینہ کافی ہوتی ہے تبھی تو عمران خان کہہ رہا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ اپر مڈل کلاس کہیں عدم سے وجود میں آگئی ہے،یہ دہائیوں کی ذہن سازی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے،اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ دنیا کی پہلی کلاس ہے جو کسی ٹرانس میں آئی ہوئی ہے۔جرمن اپر مڈل کلاس ہٹلر کے ساتھ اسی قسم کی سپر فیشل رومانس کی قیمت بھر چکی ہے اور یقینی طور پر حقیقت سے آنکھیں چار کرنے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔