فكر ونظر
نظریے سے وابستگی اور اسکی خاطر جنگ
رضوان اسد خان
1973 میں امریکی ریاست ٹیکساس کی کاؤنٹی ڈیلاس کی ایک غیر شادی شدہ خاتون "جین رو" (Jane Roe) حاملہ ہو گئی۔ اس نے اسقاط حمل کی کوشش کی تو اسے انکار کر دیا گیا کیونکہ اسوقت ٹیکساس میں ابارشن ایک جرم تھا، الا یہ کہ ماں کی جان کو خطرہ ہو۔جین نے اس قانون کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا اور پلی یہ لی کہ امریکی آئین میں شخصی آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست پر ہے۔ اور آئین کی عدالتی تشریح اور سابقہ فیصلوں کے مطابق ذاتی پرائیویسی بھی شخصی آزادی کا حصہ ہے۔ اور حمل کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے کا تعلق چونکہ ایک عورت کا ذاتی (پرائیویٹ) معاملہ ہے، لہٰذا اسے ابارشن کا حق ہونا چاہیے۔ معاملہ سپریم کورٹ تک چلا گیا۔ ٹیکساس کی ریاست کی طرف سے ڈسٹرکٹ اٹارنی ہنری ویڈ (Henry Wade) نے جو دلائل دئیے انکی بنیاد یہ تھی کہ آئین کے مطابق ریاست اپنے شہری، ہر "شخص/پرسن" کی جان کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ اور چونکہ ماں کے رحم میں موجود بچہ بھی ایک پرسن ہے، لہٰذا اسکی جان کو بغیر کسی طبی وجہ کے تلف کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ اسقاط حمل کا تعلق ذاتی پرائیویسی سے ہے، لہٰذا یہ عورت کا حق ہے اور ریاست اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اسکے علاوہ چونکہ پیدائش سے پہلےFetus میں زندگی کے آغاز اور اسکے "پرسن" ہونے پر کافی اختلاف ہے، لہٰذا جین کا مؤقف درست ہے اور ریاست اسکے حق میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ البتہ اس کو منظم طریقے سے جاری کرنے کیلئے اصول و ضوابط ترتیب دئیے جا سکتے ہیں۔ عدالت نے حمل کو بارہ، بارہ ہفتوں کے تین حصوں میں تقسیم کر کے فیصلہ دیا کہ پہلے 12 ہفتوں میں عورت کو اسقاط کی مکمل آزادی ہے اور ریاست اسے "ریگولیٹ" نہیں کر سکتی۔ درمیانی 12 ہفتوں میں ریاست اسے "ریگولیٹ" کرنے کیلئے قوانین بنا سکتی ہے۔ اور آخری 12 ہفتوں میں اسقاط کی اجازت نہیں ہو گی الا یہ کہ ماں کی جان کو خطرہ ہو۔۔۔۔ اس مشہور زمانہ اور متنازعہ کیس کو امریکی قانون کی تاریخ میں "رو بمقابلہ ویڈ" (Roe vs Wade) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ (جین رو اس مدعی خاتون کا فرضی نام ہے جو اسکی شناخت چھپانے کیلئے رکھا گیا)
اس تاریخ ساز فیصلے کے ستائیس سال بعد، سنہ 2000 میں، 15 سالہ کرسٹن ہاکنز (Kristan Hawkins) نے ویسٹ ورجینیا میں مقامی کلینک میں بطور رضاکار کام شروع کیا۔ یہاں ابارشن کے کیسز بھی ہوتے تھے۔ ایک دن کسی نے کرسٹن کو ابارشن پر بنائی گئی ایک ویڈیو دکھا دی جس میں رحم میں موجود بچے کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے، نہایت بے رحمی سے نکالتے دکھایا گیا تھا۔ اس ویڈیو نے کرسٹن کی دنیا بدل دی اور اسکی راتوں کی نیندیں اڑا دیں۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ معاشرے میں اس گھناؤنے فعل کے خلاف چلنے والی مہمات کا حصہ بنے گی اور لوگوں میں اس کے خلاف شعور بیدار کرے گی۔۔۔
اس نے کلینک سے فارغ ہوتے ہی "Teens for Life" کے نام سے ایک اینٹی ابارشن گروپ بنایا اور پہلے سے موجود اس قسم کی دو تنظیموں میں بھی شامل ہو گئی۔ 2006 میں گریجویشن سے فارغ ہونے تک وہ "Students for Life" نامی تنظیم کی سربراہ بن چکی تھی۔ اس تنظیم کی شاخیں 180 تعلیمی اداروں میں کام کر رہی تھیں۔ کرسٹن نے انتھک محنت سے تنظیم کے دائرہ کار کو وسیع کیا اور ممبرز کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کیا۔
پچھلے سال امریکی ریاست مسسپی نے ایک قانون پاس کیا جس کے مطابق 15 ہفتے سے اوپر کے حمل میں ابارشن پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔ ریاست کے واحد ابارشن کلینک نے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور 1973 کے "رو بمقابلہ ویڈ" کا سہارا لیا اور کہا کہ "stare decisis" کے اصول کے مطابق سپریم کورٹ کو اپنی سابقہ رولنگ برقرار رکھنی چاہیے۔ اس اصول کے تحت کورٹس کی کوشش ہوتی ہے کہ ماضی میں کئیے گئے فیصلوں کے خلاف فیصلہ نہ دیا جائے۔ لیکن یہ کوئی قانون نہیں کہ جسکی خلاف ورزی نہ کی جا سکتی ہو۔ اسکے مقابلے میں مسسپی کی ریاست نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ "رو بمقابلہ ویڈ" شروع سے ہی ایک متنازعہ فیصلہ ہے اور چونکہ ابارشن کے بارے میں طبی تحقیقات اور معلومات بدلتی چلی آ رہی ہیں، لہذٰا عدالت کو stare decisis کی فکر نہیں کرنی چاہیے
یہ دور کرسٹن کا امتحان تھا۔ اسے اپنی تنظیم کے ہیڈ کوارٹر میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا تھا۔۔۔ لیکن اس دفتر کے قریب ترین گھر جو وہ افورڈ کر سکتے تھے، وہ بھی 90 منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ بہرحال وہ اپنی فیملی کے ساتھ وہاں شفٹ ہو گئی۔ صبح 5 بجے گھر سے نکلتی اور رات 8 بجے واپس آتی۔ جب پٹرول کا خرچہ بڑھا تو اس نے ایک ikea کا کاؤچ خریدا اور دفتر میں ہی ڈیرے جما لئیے۔ وہ 30 گھنٹے دفتر میں رہتی، وہیں پر سوتی، قریبی جم میں شاور لیتی اور پھر ایک رات کیلئے گھر آتی۔ جب اس نے دیکھا کہ دفتر میں لال بیگ بھی ہیں تو اس نے آنکھوں کا ایک ماسک خریدا اور رات کو بتیاں جلا کر سونا شروع کر دیا تاکہ کاکروچز دور رہیں۔اور بالآخر 2 مئی، 2022 میں اسکی محنت رنگ لائی اور سپریم کورٹ نے مسسپی کی ریاست کے حق میں فیصلہ دے دیا اور قرار دیا کہ اسقاط حمل کا ذاتی پرائیویسی کے حق سے کوئی تعلق نہیں، سو اب ریاستیں اس مسئلے کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون سازی کر سکتی ہیں۔ اس فیصلے کے فوراً بعد 13 ریاستوں نے ابارشن پر پابندی کے قوانین پاس کر لئیے، 6 اس تیاری میں ہیں، 18 میں کوئی فرق نہیں پڑا اور 7 ریاستوں میں ابھی بھی ابارشن کی غیر مشروط اجازت ہے۔
اس ساری کہانی کا مقصد یہ ہے کہ ایک غیر مسلم عورت اگر اپنے مذہبی اور نظریاتی مؤقف کیلئے ایسی لازوال جدوجہد کر سکتی ہے تو مجھے کیا تکلیف ہے؟ میں کیوں گھر بیٹھا، فیس بک پر پوسٹس کر کے سمجھتا ہوں کہ بہت بڑا تیر مار لیا ہے؟ میں تو مسلمان ہوں اور اللہ سے وہ امید رکھتا ہوں جس کے حقدار اسکے دین کو نہ ماننے والے نہیں ہیں۔ تو مجھے تو ان سے کہیں زیادہ جانفشانی سے دین کی ترویج کا کام کرنا چاہیے۔ مجھے شرم کیوں نہیں آتی؟!!
نوٹ: البتہ مجھے فخر ہے کہ میرے بھائی، ایڈووکیٹ عبدالرحمن نے بھی، اپنی بیماری کے باوجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر، ٹرانزجینڈر بل کے خلاف ایسی ہی جدوجہد کی تھی اور اللہ نے انہیں سرخرو کیا۔۔۔ الحمدللہ۔۔۔!!!