احوال عالم
جاپان اور صفائی
سٹیو جان پاول اور اینجلز میرین کیبلو
اگر آپ جاپان کا پہلی بار دورہ کر رہے ہیں تو سب سے پہلے جو چیز آپ کی توجہ حاصل کرے گی وہ ہے جاپان کی صفائی۔ آپ دیکھیں گے نہ تو جاپان کی گلیوں میں کوڑے دان ہیں اور نہ ہی صفائی کرنے والے نظر آئیں گے۔ آخر جاپان کی صفائی کا راز کیا ہے؟
طالبعلم دن بھر کی پڑھائی کے اختتام پر اپنے بستے ڈیسک پر رکھ کربیٹھے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ دن بھر کی پڑھائی کے بعد چھٹی ملے گی اور وہ گھر جائیں گے۔وہ اپنے استاد کی ہر بات کو دھیان سے سن رہے ہیں جس نے ابھی کچھ اعلانات کرنے ہیں۔ ٹیچر کا اعلان شروع ہوتا ہے: ’آج کا صفائی کا روسٹر کچھ ایسے ہے۔ پہلی اور دوسری لائن کلاس روم کی صفائی کریں گی، تیسری اور چوتھی لائن راہداری اور سیڑھیوں کی صفائی کریں گی اور پانچویں لائن ٹوائلٹ صاف کرے گی۔'پانچویں لائن سے کچھ چوں چراں کی آوازیں آتی ہیں لیکن طالبعلم کلاس روم کی الماری میں سے صفائی کا سامان اٹھا کر ٹوائلٹ کی صفائی کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔یہ منظر کسی ایک سکول کا نہیں ہے بلکہ پورے ملک کے سکولوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔جو لوگ پہلی مرتبہ جاپان آتے ہیں وہ یہاں صفائی کی صورتحال دیکھ کر بہت حیران ہوتے ہیں۔ ان کے مشاہدے میں آتا ہے کہ گلیوں میں نہ تو کوڑے دان ہیں اور نہ ہی صفائی کرنے وا لے جھاڑو لگا رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کے ذہن میں ایک ہی سوال ابھرتا ہے کہ جاپان اتنا صاف ستھرا کیسے ہے؟
اس سوال کا آسان جواب تو یہ ہے کہ جاپان کے رہائشی خود اپنے ملک کو اتنا صاف رکھتے ہیں۔ ہیروشیما پریفیکچر کی حکومت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر مائیکو ایوانے کہتے ہیں کہ 'پرائمری کلاس سے لے کر ہائی سکول تک 12 برسوں میں طالب علموں کے لیے صفائی روز کا معمول ہے۔ ہمارے گھروں میں والدین تلقین کرتے ہیں کہ اپنی اشیا اور اپنی جگہوں کو صاف نہ رکھنا بری بات ہے۔‘
’معاشرتی شعور اور سکول کے نصاب کی وجہ ہمارے بچوں میں صفائی کے بارے میں آگاہی پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے اردگر کے ماحول سے محبت کرتے ہیں۔ کون چاہتا ہے کہ اس کا سکول گندہ ہو جسے انھوں نے خود صاف کرنا ہے۔‘
جاپانی زبان کی ایک مترجم چیکا ہیاشی کہتی ہیں: 'بعض اوقات میں سکول میں صفائی نہیں کرنا چاہتی ہوں لیکن پھر میں اس پر راضی ہو جاتی ہوں کیونکہ یہ ہمارے سکول کا معمول ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ سکول کی صفائی اچھی چیز ہے کیونکہ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم جن چیزوں اور جگہوں کا استعمال کرتے ہیں انھیں صاف رکھنا کتنا ضروری ہے۔‘جب طالبعلم سکول آتے ہیں تو انھیں اپنے جوتے لاکر میں رکھ کر ٹرینر پہننے ہوتے ہیں۔ گھروں میں بھی لوگ گلی میں پہنے جانے والے جوتوں گھر کے سامنے والے حصے میں اتار دیتے ہیں۔حتیٰ کہ گھروں میں جو لوگ کام کے لیے آتے ہیں وہ بھی اپنے جوتے اتار کر جرابوں پر کچھ پہن لیتے ہیں۔ جب سکول کے بچے بڑے ہوتے ہیں ان کا یہ خیال پختہ ہو چکا ہوتا ہے کہ کلاس روم کے علاوہ ان کا پڑوس، ان کا شہر اور ان کا ملک بھی ان کی ذمہ داری ہے۔جاپانیوں کو بچپن سے ہی صفائی کے بارے میں آگاہی حاصل ہو جاتی ہے-
جاپان میں صفائی کی انتہائی مثالیں شوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔ مثلاً شنکسن ٹرین کی صفائی کی سات منٹ کی ویڈیو سیاحوں کے توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ جاپان کی فٹ بال ٹیم جب 2014 میں برازیل میں ہونے والے ورلڈ کپ میں حصہ لینے گئی تو انھوں نے صفائی کے بارے میں جاپانی رویے کی عکاسی کی۔ جب ایک میچ کے بعد جاپانی ٹیم کے کھلاڑی سٹیڈیم میں کوڑا اٹھانے کے لیے رکے تو تماشائی حیران رہ گئے۔جاپانی کھلاڑی اپنے ڈریسنگ روم کو بھی اتنا صاف رکھتے تھے کہ فیفا کے جنرل کواڈنیٹر پریسلا جینسن نے ٹویٹ کیا 'دوسری ٹیموں کے لیے کیا بہترین مثال ہے۔‘مائیکو ایوانے کہتے ہیں کہ ہم جاپانیوں کو اس بات کا بہت خیال رہتا ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور اگر ہم نے صفائی نہ کی تو لوگ کیا کہیں گے۔’ہم نہیں چاہتے کہ لوگ سوچیں کہ ہم برے لوگ ہیں اور ہماری اتنی بھی تعلیم و تربیت نہیں ہے کہ ہم اپنی جگہ کو صاف کر لیں۔‘اسی کے طرح کے مناظر جاپان کے میوزک فیسٹیول میں بھی دیکھے گئے۔فیوجی راک فیسٹیول جاپان کا سب سے بڑا میوزک میلہ ہے۔ اس میلے کے شرکا اپنا کوڑا کرکٹ اس وقت تک اپنے پاس رکھتے ہیں جب تک انہیں کوڑے دان مل نہیں جاتا۔سگریٹ نوشوں سے کہا جاتا ہے کہ اپنی ایش ٹرے ساتھ لے کر آئیں اور ایسی جگہ سگریٹ نوشی کریں جس سے دوسرے متاثر نہ ہوں۔ جاپان کا میوزک فیسٹیول 1969 میں وڈسٹاک فیسٹیول کے بلکل برعکس ہے جہاں جمی ہینڈرکس نے کوڑے کے ایک ڈھیر کےدرمیان اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔جاپانی بچے ہر ماہ ایک بار رضا کارانہ طور پر اپنے سکول کی قریبی گلیوں کی صفائی کرتے ہیں۔جاپان میں صفائی سے متعلق آگاہی ہر طرف ہے۔ صبح آٹھ بجے ہر دفتری ملازم یا دوکاندار اپنے اردگرد صفائی کرتا ہے۔
جاپانی بچے ہر ماہ ایک بار رضاکارانہ طور پر اپنے سکول کی قریبی گلیوں کی صفائی کرتے ہیں۔
محلے دار باقاعدگی سے اپنی گلیوں کی صفائی کے ایونٹ کا انتظام کرتے ہیں حالانکہ جاپان کی گلیاں عام طور پر بہت صاف ہوتی ہیں اور لوگ کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکے کے بجائے گھر لے آتے ہیں۔ حتیٰ کہ جاپان کی اے ٹی ایم مشینوں سے ایسے صاف ستھرے نوٹ نکلتے ہیں جیسے کپڑوں پر کلف لگی ہو۔لیکن نوٹ گندے ہو جاتے ہیں اسی لیے جاپانی نوٹ کسی شخص کے ہاتھ میں نہیں تھماتے۔ دکانوں، ہوٹلوں حتیٰ کے ٹیکسیوں میں بھی جب ادائیگی کی جاتی ہے تو کرنسی نوٹس کو ایک ٹرے میں رکھا جاتا ہے اور وہاں سے دوسرا شخص نوٹ اٹھاتا ہے۔جاپان میں نظر نہ آنے والی گندگی، جراثیم اور بیکٹریا کے بارے میں بہت تشویش پائی جاتی ہے۔جب لوگوں کو زکام ہو جاتا ہے تو وہ سرجیکل ماسک پہنتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ اس سے متاثر نہ ہو سکیں۔ اس طرح نہ صرف دوسرے لوگ زکام سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ علاج پر اٹھنے والے اخراجات اور وقت کا ضیاع بھی بچ جاتا ہے۔
جاپانی اتنے صفائی پسند کیسے بنے؟
جاپان میں یہ صفائی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب برطانوی ملاح ول ایڈم نے پہلی بار 1600 میں جاپان کی سرزمین پر قدم رکھا تو جس چیز اسے متاثر کیا وہ وہاں کی صفائی تھی۔ول ایڈم کے سوانح نگار جائلز ملٹن ’سیمورائی ولیئم‘ میں لکھتے ہیں کہ جاپان کی اشرافیہ انتہائی صفائی پسند تھی اور ان کے گٹر اور لیٹرین انتہائی صاف ستھری تھیں اور وہ اس وقت خوشبودار لکڑی سے بنے سوانہ میں غسل کر رہے تھے جب انگلینڈ کی گلیاں انسانی فضلے سے اٹی ہوتی تھیں۔ جاپانی یورپی لوگوں کی صفائی کی عادات دیکھ دنگ رہ گئے۔
جاپانی معاشرے میں صفائی کی ایک وجہ جاپان کا موسم بھی ہو سکتا ہے۔ جاپان کا موسم گرم اور مرطوب ہوتا ہے اور کھانے کی اشیا بہت جلد خراب ہو جاتی ہیں۔ ایسا ماحول میں کیڑے مکوڑے اور جراثیم خوب پرورش پاتے ہیں۔ لہذا صفائی کا مطلب ہے اچھی صحت۔
صفائی بدھ مذہب کا بنیادی جز ہے
جاپانی معاشرے میں صفائی کے رجحان کی وجوہات اس سے بھی گہری ہے۔ صفائی بدھ مت کا بنیادی جزو ہے۔ بدھ مت چھٹی اور آٹھویں صدی میں چین اور کوریا کے راستے جاپان تک پہنچے۔ بدھ مت کے فرقے زین کے مطابق روزمرہ کی صفائی اور کھانا پکانے کو مراقبے جیسا روحانی عمل تصور کیا جاتا ہے۔
بدھ مت کے زین فرقے کا جاپان میں ظہور بارہویں اور تیرویں صدی میں ہوا۔ زین فرقے کے مطابق روزانہ کھانا کھانے اور رہائش کی جگہ کی صفائی بدھ مت کےاحکامات پر عمل کرنے کا موقع مہیا کرتا ہے۔
ہیروشیما پریفیکچرکے شنشوجی مندر کے ایروکو کواگی کہتے ہیں: 'جسمانی اور روحانی گندگی کی صفائی روزہ مرہ کے معمولات کا اہم جز ہے۔‘اوکاکارا کاکورو کی مشہور زمانہ کتاب 'دی بک آف ٹی' (چائے کی کتاب) میں لکھا ہے کہ جس گھر میں چائے کی تقریب کا انعقاد ہو رہا ہو وہاں ہر چیز کا انتہائی صاف ستھری حالت میں ہونا ضروری ہے۔ اگر کمرے کے کسی تاریک کونے میں بھی گرد کا ایک ذرہ بھی نظر آ جائے اس کا مطلب ہے تقریب کا اہتمام کرنے والا اپنے فن کا ماہر نہیں ہے۔
اوکاکورا نے یہ سب کچھ 1906 میں لکھا لیکن یہ آج بھی صادق ہے۔ چائے کی تقریب سے پہلے کیمونو لبادے میں ملبوس میزبان اپنے زانو کے بل گرد کا ایک ایک ذرہ چنتی نظر آ رہی ہیں۔شنتو مزار میں داخلے سے پہلے عبادت گذاروں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اور منہ کو صاف کریں-لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بدھ مت کو ماننے والی تمام قومیں جاپان کی طرح صفائی پسند کیوں نہیں ہیں۔ جاپان میں بدھ مت کے ظہور سے پہلے شنتو مذہب پروان چڑھ چکا تھا اور صفائی شنتو مذہب کا مرکزی جزو تھا۔مغرب میں ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ خدا کے بعد صفائی ہے جبکہ شنتو میں صفائی ہی خدائی صفت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدھ مت نے جاپان میں پہلے سے موجود صفائی ستھرائی کے رجحان کو تقویت پہنچائی ہے۔شنتو مذہب میں کیگاری (گندگی) کے نظریے کو مرکزی حیثت حاصل ہے اور کیگاری موت اور بیماری سے جڑی ہوئی ہے۔ کیگاری سے بچاؤ کے لیے مختلف رسومات ادا کی جاتی ہے۔اگر کوئی فرد کیگاری سے متاثر ہے تو وہ معاشرے کےلیے نیک شگون نہیں ہے اور وہ معاشرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔نوریکا ایکیدا کہتے ہیں ’یہ ضروری ہے کہ صفائی کا خیال رکھا جائے۔ یہ آپ کے لیے بھی فائدہ مند ہے اور معاشرے کو بھی مصیبتوں سے بچاتی ہے۔‘اسی وجہ سے جاپان بہت صاف ستھرا ملک ہے۔
مائیکو ایوانے کہتے ہیں کہ کسی شخص کا دوسروں کو بیماریوں سے بچاؤ کےلیے فکرمند ہونا تو سمجھ آتا ہے لیکن اس کا اطلاق اپنے پر بھی ہوتا ہے جیسے اپنا کوڑا کرکٹ خود اٹھانا۔
کئی جاپانی نئی کار کو پاک کرانے کے لیے مزار پر لے کر جاتے ہیں اور ان کا پادری ایک دسٹر سے اس کا 'انوسا' کرتا ہے’ہم جاپانی یقین کرتے ہیں کہ ہم اپنی سستی اور کاہلی سے دوسروں کو پریشان نہ کریں۔ کیگاری سے بچاؤ کے لیے بے تحاشا رسومات ہیں۔ ان میں ایک شنتو مزار میں داخلے سے پہلے عبادت گذاروں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اور منہ کو پتھر کے حوض میں صاف کریں۔کئی جاپانی نئی کار کو پاک کرانے کے لیے مزار پر لے کر جاتے ہیں اور ان کا پادری ایک دسٹر سے اس کا 'انوسا' کرتا ہے اور پھر وہ گاڑی کو اندر سے، اس کے بوٹ اور بونٹ کو پاک کرنے کے لیے لگڑی پر لگا ڈسٹر گھماتا ہے۔ پادری لوگوں کو پاک کرنے کے لیے بھی انوسا لہراتا ہے۔ وہ ایسی زمین کو بھی پاک کرتا ہے جس پر کوئی عمارت تعمیر کی جانی ہو۔اگر آپ جاپان میں رہتے ہیں تو آپ بہت جلد صفائی کا لائف سٹائل اپنا لیں گے۔ آپ لوگوں کی موجودگی میں ناک صاف نہیں کریں گے اور نہ ہی چھینکیں گے، اپنے ہاتھ صاف رکھنے کے لیے آپ سینیٹائزز کا استعمال کریں گے اور گھر کے کوڑے کرکٹ کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے دس قسم کے ری سائکلنگ کے ڈبوں میں ڈالیں گے۔اور ویل ایڈمز اور اس کے عملے کے انداز زندگی میں تبدیلی دیکھیں گے اور جب وہ واپس وطن آئیں گے تو انھیں وہ شخص وحشی لگے گا جو آپ کے منھ کے پاس کے آ کر چھینکے گا یا گندے پاؤں کے ساتھ ہی آپ کے گھر میں داخل ہو جائے گا۔ جاپان میں ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔لیکن اب بھی امید کی کرن باقی ہے۔ آخر پوکومین، سوشی اور کیمرا فون بھی تو دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔(بشكريہ بي بي سي 16 ، اكتوبر 2019(