احوال عالم
سنگا پور
محمد عبداللہ
سنگا پور 1965ء تک ملائیشیا کا انتہائی پس ماندہ علاقہ ہوتا تھا-زمین دلدلی، ویران اور بنجر تھی۔ لوگ سست، بےکار اور نالائق تھے، یہ صرف تین کام کرتے تھے ۔۔بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے،
چوری چکاری کرتے تھے، بحری جہازوں سے چوہے نکال کر کھاتے تھے اور بس۔ ملائیشیا ان سے بہت تنگ تھا۔۔بڑا مشہور واقعہ ہے۔۔ تنکو عبدالرحمن کے دورمیں سنگا پور نے آزادی مانگی اور پارلیمنٹ کے کل 126 ارکان نے سنگاپور کے حق میں ووٹ دے دیے۔ بل کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں تھا۔ پارلیمنٹ کا کہنا تھا ہم نے ان بےکار لوگوں اور دلدلی زمین کو اپنے پاس رکھ کر کیا کرنا ہے اور یوں سنگا پور آزاد ہو گیا۔ یہ قدرت کی طرف سے سنگا پور کے لیے پہلا تحفہ تھا۔دوسرا تحفہ اسے 'لی کوآن یو' کی شکل میں دیا‘ لی کو آل سنگا پور کے وزیراعظم بنے اور اس شخص نے ان دلدلی زمینوں کا مقدر بدل کر رکھ دیا
اور بیس سال بعد 42 بائی 23 کلو میٹر کی یہ سٹیٹ دنیا کی کامیاب اور تیزی سے ترقی کرتی ریاست بن چکی تھی، اس میں امن بھی تھا، خوش حالی بھی، روزگار بھی، سرمایہ بھی اور مستقبل بھی۔
سنگا پور دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوام عالم کو بتایا کہ ملکوں کے لیے وسائل نہیں 'قوت ارادی' کی ضروری ہوتی ہے۔ملکوں کو آبادی، ہنر مندی، رقبہ اور تیل بھی درکار نہیں ہوتا۔۔۔ ان میں بس آگے بڑھنے کا ارادہ ہونا چاہیے۔
لی کو آن یو ایک پوری یونیورسٹی تھے، اس شخص نے دو دہائیوں میں پوری قوم بدل کر رکھ دی، کیسے؟
انہوں نے پانچ اہم کام کیے۔
امن امان مذہبی آزادی
وزیراعظم لی نے سب سے پہلے ملک میں امن قائم کر دیا‘ مذہب کو ذاتی مسئلہ بنا دیا‘ آپ مسلمان ہیں یا سکھ‘ عیسائی‘ بدھ یا ہندو کسی کو کوئی غرض نہیں‘ مسجد کے ساتھ چرچ‘ مندر اور ٹمپل بنا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کوئی شخص‘ کسی شخص کے مذہب کے بارے میں سوال نہیں اٹھائے گا اور ایک مذہب کا پیروکار دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں جا سکے گا اور اس پر نہ کوئی اعتراض کرے گا نہ تبلیغ۔قانون کی نظر میں سب کو برابر کر دیا، ملک میں کوئی کلاس کلچر نہیں تھا۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں تھی، سب برابر تھے اور ہیں۔
سیاسی شعور
ملک میں ہر قسم کے احتجاج پر بھی پابندی لگا دی اور سڑکیں، گلیاں اور بازار ہر قیمت پرکھلے رہیں گے اور کوئی شخص کسی کے لیے سیکورٹی رسک نہیں بنے گا۔
بہترین ایماندار دیانتدار لیڈر شپ
لی کو آن یو نے چن چن کر اہل اور ایمان دار لوگ اہم عہدوں پر تعینات کر دیے اور انہیں کام کرنے کا بھرپور موقع دیا۔ لوگ آج بھی تیس تیس سال سے اپنے عہدوں پر بیٹھے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ایمان داری کا یہ عالم تھا لی کوآن یو کے ڈیڑھ درجن منسٹر اور بیوروکریٹس کرپشن کے الزام کے بعد خودکشی کرگئے۔ حکومت اہل لوگوں کو دوسرے ملکوں سے بھی بھرتی کر لیتی تھی۔
سابق صدر ممنون حسین نے ایک بار بتایا، میں 1999ء میں گورنر سندھ تھا، لی کو آن یو دورے پر آئے، میں نے انہیں کھانے پر بلایا، دعوت کے دوران میں نے ان سے کہا، ہم کراچی پورٹ کو بھی سنگا پور پورٹ کی طرح ڈویلپ کرنا چاہتے ہیں آپ ہمیں کوئی ٹپ دیں، میری بات سن کر 'لی کوآن یو' دیر تک ہنستے رہے اور پھر بولے۔۔۔ *"آپ کیپٹن سعید سے رابطہ کریں.. یہ پاکستانی بھی ہیں اور کراچی کے شہری بھی ہیں ہم نے ان کی مدد سے سنگاپور پورٹ ڈویلپ کی تھی"ممنون حسین یہ سن کر شرمندہ ہو گئے اور دیر تک لی کو آن یو کی طرف دیکھتے رہے۔
ہنرمند لوگ + سرمایا کاری
لی کو آن یو نے اپنا ملک پوری دنیا کے بزنس مینوں کے لیے کھول دیا۔ کوئی کہیں سے بھی آ سکتا تھا اور ملک میں کام کر سکتا تھا بس ایک شرط تھی۔ اس کے پاس پیسہ اور تجربہ ہونا چاہیے،مثلاًبھارت کے ایک مسلمان مشتاق احمد نے 1971ء میں سنگاپور میں المصطفیٰ سٹور بنایا یہ اب ایک طویل کمپلیکس بن چکا ہے مشتاق احمد نیک نیت بزنس مین ہے منافع کم اور کوالٹی زیادہ پر یقین رکھتا ہے لہٰذا یہ اب تک کھرب پتی بن چکا ہے اور کسی نے آج تک اسے تنگ نہیں کیا اور یہ یہاں اکیلا نہیں ہے ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں -اور ہر شخص نے مشتاق احمدکی طرح ترقی بھی کی اور یہ دوسروں کے لیے روشن مثال بھی بنا۔
لی کو آن یو نے تعلیم اور ہنر پر خصوصی توجہ دی, سنگا پور کے تعلیمی ادارے محض تعلیمی ادارے نہیں ہیں,یہ ہنر مند اور اہلیت کی لیبارٹریاں ہیں لہٰذا یہاں جہاں ایک طرف 96 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں وہاں یہ ہنر مند بھی ہیں یہ خود بھی کما رہے ہیں اور ملک کو بھی کما کر دے رہے ہیں. لی کو آن یو نے پوری قوم کو تہذیب بھی سکھا دی, اس کا آغاز شخصی صفائی سے کیا گیا.لوگوں کو ٹوائلٹ استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا گیا۔ ملک میں مسلم شاور اور ٹوائلٹ پیپر لازمی قرار دے دیا۔ہاتھوں کی صفائی کو قانون بنا دیا۔ تھوکنے پر پابندی لگا دی۔سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آج بھی آپ اگر کسی سڑک یا عوامی جگہ پر تھوکتے, پان کی پیک گراتے یا ناک صاف کرتے پکڑے جائیں تو آپ سیدھے جیل جائیں گے -لہٰذا آپ کو پورے ملک میں کوئی شخص گلا صاف کرتا یا تھو تھوکرتا دکھائی نہیں دے گا-آپ یہ جان کر بھی حیران ہونگے اس پابندی کے بعد اب سنگا پور کے لوگوں میں تھوکنے کی خواہش ہی ختم ہو گئی ہے۔
مزید لی کو آن یوکا خیال تھا سگریٹ، پان اور چیونگم گند پھیلاتے ہیں لہٰذا اس نے ان پر بھی پابندی لگا دی،
سنگاپور میں سگریٹ بہت مہنگا ہے اور پینے کے لیے جگہیں بھی مختص ہیں اگرکوئی شخص ان کے علاوہ کسی جگہ ہاتھ میں ڈبی یا سگریٹ پکڑ کر کھڑا ہو تو اسے پولیس پکڑ لیتی ہے۔ چیونگم پر آج بھی پابندی ہے۔ آپ ملک میں چیونگم لا بھی نہیں سکتے۔
‘لی کو آن یو نے پورے ملک میں انفراسٹرکچر کا جال بچھا دیا, سنگا پور میں ہائی ویز، میٹروز اور پل اس وقت بنے جب مشرق میں ان کا تصوربھی نہیں تھا، پورے ملک میں پینے کا صاف پانی حکومت سپلائی کرتی ہے، آپ کسی بھی ٹونٹی کا پانی پی سکتے ہیں، میں نے آئی ایل او کی کانفرنس میں شرکت کی، کانفرنس میں 48 ممالک کے وفود آئے تھے لیکن کسی کے میز پر پانی کی بوتل نہیں تھی، پانی کے جگ تھے اور یہ جگ عملہ ٹونٹی سے بھر کر رکھتا تھا، ہوٹلوں کے اندر بھی ٹونٹیاں لگی ہیں ائیرپورٹ کے بزنس لائونجز میں بھی پانی کی بوتلیں نہیں ہوتیں۔
بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا تصور تک نہیں تاہم وسائل کی بچت ضرور کی جاتی ہے۔ فالتو لائیٹ اور جلتا ہوا چولہا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس ملک کو چلانا ہے تو ہمیں لی کو آن یو بننا پڑے گا۔
خدا کی پناہ 683 مربع کلو میٹر کے سنگاپور کے مالیاتی ذخائر اڑھائی سو بلین ڈالر ہیں اور ہم "سونے کی چڑیا" اور ایک "ایٹمی طاقت" ہوتے ہوئے ، ایک ایک بلین کے لیئے "کشکول" لیئے پھر رہے ہیں ۔
آئیے ھم عہد کریں کہ ھم بھی پاکستان کو سنگاپور سے بھی بہترین بنانے کے لیے مثبت سوچ سے اپنا حصہ ڈالیں