مغرب میں تارکین وطن کے خلاف تحریکوں کا دور

مصنف : سبط حسن

سلسلہ : احوال عالم

شمارہ : اكتوبر 2025

احوال عالم

مغرب میں تارکین وطن کے خلاف تحریکوں کا دور

سبط حسن

میں پچھلے 30 سالوں سے یورپ و انگلستان میں مقیم ہوں ۔ یورپ کے ہر ملک میں آج سے پچیس تیس سال قبل بھی تارکین وطن کے خلاف نفرت موجود تھی لیکن یہ بہت محدود تھی ۔ گزشتہ بیس سالوں میں یہ نفرت و بے زاری باقاعدہ تحریکوں کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ اگلے بیس سالوں کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ چند دن پہلے لندن میں تارکین وطن کے خلاف ڈیڑھ لاکھ کے قریب عوامی اجتماع نے مظاہرہ کیا جس میں ایلن مسک نے بھی خطاب کیا ۔

انگلستان میں تقریباً 16 لاکھ پاکستانی و کشمیری آباد ہیں ۔ انڈین اور بنگالی بھی بیس لاکھ سے زائد ہیں اور بھی دیگر چھوٹی بڑی کمیونٹیز ہیں لیکن جو رنگ ڈھنگ ہماری کمیونٹی کے ہیں وہ کسی اور کے نہیں حالانکہ دوسری کمیونٹیز کے لوگ بھی مسلمان ہیں ۔ یہاں مختلف حوالوں سے جائزہ لیتے ہیں تو ہماری کمیونٹی کا آبادی کے تناسب سے جو حجم بنتا ہے پرابلم اس سے کہیں زیادہ پیدا کر رہی ہے ۔ سماجی حوالے سے پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ سال گزار کر بھی ابھی تک برادری ازم اور فرقہ واریت میں بری طرح گرفتار ہیں ۔ آج سے دس برس پہلے جب میں جنگ لندن میں ہفتہ وار کالم لکھتا تھا اس وقت بھی متعدد بار لکھ چکا ہوں کہ یہاں کی مساجد اور عبادت گاہوں میں بچوں کو جو تعلیم دی جارہی ہے وہ ہمارے اپنے آبائی ممالک میں بھی مشکلات پیدا کر رہی ہے اور ان مغربی ممالک میں تو ہمارے مستقبل کے لئے زہر قاتل ہے ۔ مثلا بچوں کو یہ پڑھایا جا رہا ہے کہ نجاست کی کتنی قسمیں ہیں ۔ جواب میں لکھا ہے نمبر 1 کتا 2 خنزیر 3 قاپر ۔ یعنی کتا خنزیر اور انسان برابر ہوے ۔ عربی برقعوں اور مردانہ بدوی جبوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایک برطانوی مصنفہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں اپنے شہر میں ایسی برقع پوش عورتوں اور جبہ بردار مردوں کو گھومتے پھرتے دیکھتی ہوں جو غیر محرموں سے بات نہیں کرتے تو پریشان ہو جاتی ہوں کہ ہمارے آباو اجداد نے صدیوں کی جدوجہد سے جو انسانی تہذیب پروان چڑھائی تھی وہ یوں برباد ہو رہی ہے ۔ اب تو محرم کے جلوس ذوالجناح کے ساتھ ساتھ عید میلاد النبی کے جلوس بھی برآمد ہو رہے ہیں اور شریعت نافذ کرنے کے مطالبات کے پمفلٹ اور سٹکر تقسیم ہوتے ہیں ۔ میں نے لندن کے سٹوروں میں دیکھا کہ باریش نوجوان کسٹمرز کو خوراک میں شامل غیر شرعی اجزا کی ملاوٹ کی نشاندہی اور تعلیم دیتے ہیں ۔ مساجد سے مختلف عقائد کے لوگوں کی نماز جنازہ کا انکار دیکھ رکھا ہے ۔ مشرقی لندن کی ایک امام بارگاہ کے اندر صحن میں زنجیر زنی دیکھ کر ڈبل ڈیکر بس میں سوار دو بوڑھی انگریز عورتیں بے ہوش ہو گئی تھیں ۔ پھر کہا گیا کہ تم یہ رسم کینوپی کے اندر کرو اور 18 سال سے کم عمر بچے اس سے دور رہیں۔ اب یہ خونی رسم بڑے خیموں کے اندر منائی جاتی ہے. ہر جمعہ کو ہر مسجد کے باہر غیر قانونی پارکنگ پورے محلے اور گردونواح کے لیے پرابلم ہوتی ہے۔ نوجوان نسل میں تعلیم کا رجحان کم اور جرائم کا بڑھ رہا ہے ۔ منشیات فروشی اور گینگز میں ہماری کمیونٹی دوسری کمیونٹیز کو لیڈ کر رہی ہے اس وقت ۔ عید شب برات یا کوئی میچ جیتنے پر ڈھول باجوں کے جلوس پورے علاقے کا سکون غارت کر رہے ہوتے ہیں ۔ راہ چلتے زیبرا کراس اور سرخ بتی کی پرواہ کم ہی کی جاتی ہے۔ جوس کوک اور فاسٹ فوڈ کے ڈبے استعمال کے بعد سڑک پر ہی پھینک دینا ہماری کمیونٹی کا طرہ امتیاز ہے ۔ بیچ سڑک گاڑی پارک کر کے باہر نکل جانا ہمارے نوجوان اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پیچھے سے کوئی ہارن دے یا اعتراض کرے تو غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ انشورنس سے لیکر دیگر حقوق پر فیک کلیم کے ماہرین ہر محلے میں دستیاب ہیں۔ یقین جانیے ہماری اپنی کمیونٹی کے مہذب لوگ اب ان رویوں سے اتنے پریشان ہیں کہ سر پیٹتے ہیں تو گوروں کی کیا فیلنگز ہوں گی ؟ راہ پیدل چلتے ہوئے گاڑی پارک کرتے ہوئے قانون اور دوسرے انسانوں کی پرواہ تو ہماری تعلیم و تربیت میں شامل ہی نہیں ہے۔ میں آپ کو برمنگھم کے پاکستانی و کشمیری محلوں کے گلی کوچوں اور پارکوں میں بکھرے ہوئے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر دکھاؤں تو آپ کو اپنے پاکستان کے گلی کوچے کچھ بہتر دکھائی دیں ۔ گورے پورے پورے محلے چھوڑ کر ہجرت کر گئے ہیں وہاں سے ۔ میں پہلے پہل جس گلی میں آ کر رہا وہاں دو سو گھروں میں صرف دو بزرگ گورے رہ گئے تھے ۔ معمول کے مطابق گلیوں اور چوراہوں کی صفائی کونسل نے چھوڑ دی تھی۔ گوروں کے علاقوں میں چوراہوں پر رنگ برنگے پھول دکھتے ہیں اور ہمارے علاقوں میں چھوٹے چھوٹے شاپروں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ نسل پرستی اور اسلامو فوبیا بڑھ رہا نہ جانے کیوں؟ میں سوچتا ہوں کہ ہمیں جو سماجی و مذہبی حقوق ہمارے آبائی ملکوں میں نصیب نہیں تھے وہ سب ہم نے یہاں کے جمہوری معاشروں میں انجوائے کیے لیکن ہم نے ان معاشروں کا شکر گزار شہری بن کر کبھی نہیں سوچا.