اصلاح و دعوت
چھوٹي نيكي بڑا اجر
ترجمہ حافظ نصراللہ جاويد مدينہ منورة
داعی ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں:
میرے افریقہ میں دعوتی کام کے دوران، میں ایک دن کھڑا تھا کہ میں نے ایک افریقی عورت کی آہ بکا سنی جو چھوٹے بچوں کے ایک ڈاکٹر سے گریہ کر رہی تھی اور اسے واسطے دے رہی تھی۔میں اُس کے اصرار کی شدت اور اپنے مطلب (کو منوانے ) کی پختگی سے واقعی میں متاثر ہوا، اور میں نے طبیب سے پوچھا (کہ کیا معاملہ ہے)؟ اُس نے کہا: اس کا دودھ پیتا بیٹا جسے ہم نے میت قرار دے دیا ہے، اور یہ نہیں سمجھ رہی، اور چاہتی ہے کہ میں اس کے بیٹے کو اُن بچوں میں رکھوں جن کا علاج کیا جانا ہے۔ اور جو مال ہم اس پر خرچ کریں گے اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔۔۔ اس کا بیٹا گنتی کے چند ایّام جیے گا، یہ مال اس کا زیادہ حق دار ہے کہ کسی اور پر خرچ کیا جائے(جس کا علاج ممکن ہو)...سمیط کہتے ہیں: وہ میری طرف وسیلے اور رحم کی درخواست کی نظروں سے دیکھ رہی تھی جبکہ ڈاکٹر مجھے بتا رہا تھا۔۔۔۔میں نے مترجم سے کہا:
اس سے پوچھو کہ اسے روزانہ کتنا مال درکار ہوگا؟ اُس نے بتایا تو میں نے اسے بہت ہی تھوڑا پایا۔ اتنا، جتنا ہم اپنے ملک میں ایک دفعہ سافٹ ڈرنک پی کر خرچ کر دیتے ہیں۔۔۔!میں نے کہا: کوئی مسلہ نہیں، میں ذاتی مال میں سے یہ دے دوں گا، وہ مطمئن ہو گئی۔۔ اور (خوشی سے) میرا ہاتھ چومنے لگی، میں نے منع کر دیا۔۔۔اسے کہا کہ اپنے بیٹے کے لیے یہ نقدی پورا سال لیتی رہنا۔ اور اگر پیسوں کی کمی ہو تو ( اپنے ایک مددگار کی طرف اشارہ کیا) یہ تمہیں دے دے گا جو تمہیں چاہیے ہو۔۔۔ اور اُسے چیک سائن کر کے دے دیا کہ طے شدہ مال لے سکے۔۔۔مہینے اور سال گزرتے گئے۔ اور واقعی طور پر میں نے اس بچے کو میت ہی سمجھا تھا۔ اور مال تو صرف اُس کی ماں کو تسکین حاصل ہونے کے لیے دیا تھا، اور اس وعدے کے لیے دیا تھا کہ وہ اسلام کے ساتھ اپنا وعدہ مضبوط کر لے( اسلام پر پکی ہو جائے) اور میں یہ معاملہ بھول بھی گیا۔۔۔تقریباً 12 سال سے بھی زیادہ کے بعد میں ایک دن مرکز میں بیٹھا تھا۔ ایک ملازم آیا اور بولا کہ ایک افریقی عورت آپ سے ملنے پر مصر ہے۔ (اُسے ٹالنے کے بعد بھی) بار بار آتی ہے۔ میں نے کہا بھیج دو۔!ایک عورت داخل ہوئی جسے میں پہچانتا نہ تھا، اور اس کے ساتھ ایک خوبصورت اور مطمئن چہرے والا بچہ تھا۔ کہنے لگی: یہ میرا بیٹا عبدالرحمن ہے اور یہ پورا قرآن حفظ کے چکا ہے، اور بہت سی احادیث رسول صلّی اللہ علیہ وسلم بھی یاد کر چکا ہے۔ اور میں چاہتی ھوں کہ یہ آپ کے ساتھ (رہ کر) داعی بن جائے۔۔!میں(اُس کے اصرار پر) حیران ہوا اور بولا: تم اپنی اس درخواست پر مجھ سے اصرار کیوں کر رہی ہو؟!!میں کچھ سمجھ نہیں رہا تھا۔ میں نے بچے کو دیکھا تو وہ بڑے اطمنان سے عربی بول رہا تھا۔ مجھے کہنے لگا:" اگر اسلام اور اس کیا رحمتیں نہ ہوتیں تو میں آج زندہ نہ ہوتا اور آپ کے سامنے کھڑا نہ ہوتا۔۔ میری ماں نے آپ کہ ساتھ بیتا قصہ مجھے سنا رکھا ہے، اور میری صغر سنی میں آپ نے جو مجھ پر خرچ کیا(وہ بھی بتا رکھا ہے)۔۔۔ میں آپکے تحت رہنا چاہتا ہوں۔ میں افریقی زبان پوری جانتا ہوں اور آپ کے تحت اسلام کے داعی کے طور پر کام کرنا چاہتا ہوں۔ اور مجھے کھانے کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے ہوگا۔ اور مجھے اچھا لگے گا اگر آپ میری قرآن کی تلاوت بھی سن لیں۔۔۔۔".اور اس نے بہت ہی سریلی آواز میں سورۃ البقرہ کی آیات پڑھنا شروع کیں۔ اور اس کی خوبصورت آنکھیں مجھے توسل کی نظر سے دیکھ رہی تھیں۔۔اب مجھے یاد آیا تو میں نے کہا:کیا یہ وہی بچہ ہے جس کی دیکھ بھال سے انہوں نے(ڈاکٹر نے) منع کردیا تھا؟ماں نے کہا: ہاں ہاں۔۔۔پھر بولی: میں اسی لیے اسے آپ کے پاس لانے پر مصر تھی، اور میں نے اس کا نام بھی آپکے نام پر عبدالرحمن رکھا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر السمیط کہتے ہیں:میرے قدم مجھ سے اُٹھ نہیں رہے تھے۔ میں زمین پر آ رہا۔۔ میں خوشی اور حیرت سے مفلوج آدمی جیسا ہو چکا تھا۔ میں نے اللہ کے حضور سجدہ شکر کیا۔ میں روتے ہوئے کہہ رہا تھا :سوفٹ ڈرنک جتنا خرچ ایک جان بچا سکتا ہے۔۔۔(اور اس سے بڑھ کر) ہمیں ایک داعی عطا کر سکتا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔۔۔
(اور بعد میں) یہی بچہ افریقی قبائل میں سب سے مشہور داعی بنا اور اسے لوگوں میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔۔۔*کتنے ہی چھوٹے صدقے ایسے ایسے ہوتے ہیں جو اتنے سارے لوگوں کی زندگیاں بدل دیتے ہیں اور انہیں سعادت مند بنا دیتے ہیں۔ اور کتنا ہی مال ہم بغیر کِسی مقصد اور ہدف کے خرچ کر دیتے ہیں جو کہ ہمارے اور امت کے لیے وبال بن جاتا ہے۔۔۔*