دين و دانش
موت اور زندگی
رضوان خالد چودھري
موت جسم روح اور نفس کی عارضی علیحدگی کا نام ہے۔ نفس ہی درحقیقت ہماری حقیقت ہے۔ یعنی اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ میں یہ جسم ہوں یا مجھ میں موجود روح تو میرا جواب یہ ہو گا کہ نہ تو میرا جسم میں ہوں نہ میری روح کا میری شخصیت سے کوئی لینا دینا ہے۔ روح تو مجھے دنیاوی زندگی دینے کے لیے اللہ کا ایک امر ہے جیسے ایک پنکھے کو بجلی کا کنکشن ملتے ہی وہ ہوا دینے لگتا ہے۔ ایسے ہی میرا جسم دنیا کی چیز ہے۔ ہر تیرہ سال بعد انسانی جسم میں ایک بھی پرانا خلیہ باقی نہیں رہتا۔ نئے خلیے پرانے خلیوں کی جگہ لے لیتے ہیں اور پرانے مر جاتے ہیں۔ جسم کو ایک ایسا لباس سمجھا جا سکتا ہےجسے نفس یعنی ہم نے پہنا ہوا ہے۔ یہ لباس یعنی جسم موت کے بعد دنیا میں ہی گل سڑ کر ختم ہوجائے گا۔جسے اللہ روز حشر دوبارہ پہلی حالت میں لوٹا کر نفس اور روح کو دوبارہ اس جسم میں لوٹا کر جسم کے اعضاء کو ہمارے نفس پر گواہ بنائے گا تاکہ ہم خود اپنی سزا و جزا کو انصاف قرار دیں۔ نفس کو موت کے بعد ایک دوسرا لباس یعنی برزخی جسم دیا جائے گا جو قیامت کے دن تک آپکے پاس رہے گا اور قیامت کے ساتھ ہی اللہ آپکے نفس کو برزخی جسم سے دُنیاوی جسم میں مُنتقل کرے گا پھر جنت یا دوزخ کا فیصلہ ہونے پر جنتی اور دوزخی نفوس کو نئے لباس یعنی نئے جسم دئیے جائیں گے۔دوزخیوں کے نئے جسم موٹے، سخت اورکثیف ہوں گے جبکہ جنتیوں کے جسم ہلکے اور لطیف ہوں گے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اللہ قرآن میں ہر جگہ جنت کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کرتا ہے جبکہ دوزخ کے لئے واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ یعنی ہر جنتی کی ایک الگ جنت ہوگی۔ جنتی ایک دوسرے کی جنت یا سیارے پر اسے ملنے جا سکیں گے لیکن بہرحال ہر ایک اپنی جنت اور وہاں کے نظام کا مالک بنا دیا جائے گا۔دوزخ البتہ ایک ہی ہوگی اور اس کے مختلف درجات ہوں گے۔ کچھ درجوں میں عذاب شدید ہوگا، کچھ میں سخت اور کچھ میں نسبتاً کم شدید۔ بُرے لوگ اپنے بُرے اعمال کی کمی یا زیادتی کے مُطابق دوزخ کے مختلف درجوں میں رہیں گے۔ جیسے ہماری زمین پر گلیشئیر اور برفیلے پہاڑوں والے خطے بھی ہیں، انتہائی گرم صحرا بھی اورپانیوں میں گھرے جزیرے بھی، بالکل ایسے ہی دوزخ جس سیارے پرواقع ہو گی وہاں مختلف قسم کے سخت، شدید، شدید ترین اور کم عذاب والے خطے ہوں گےلیکن دوزخ بہرحال ہوگی ایک ہی ورنہ اللہ جنت کی طرح اس کے لئے بھی قرآن میں جمع کا صیغہ استعمال کرتا۔روح کو موت آتی ہی نہیں قرآن میں جہاں بھی موت کا ذکر آیا ہے وہ نفس کے لئے ہے۔ آپ کو شاید قُرآن کے اردو ترجموں میں روح کے لیے موت کا لفظ یا روح کی جمع ارواح بھی نظر آئے لیکن ساتھ آپ اگر عربی عبارت دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ برّصغیر پاک و ہند کے عُلماء نفس کا ترجمہ روح کرنے کی غلطی کرتے ہیں اور نفس کا ترجمہ بھی نفس کرتے ہیں۔ اس غلطی نے دیوبند اور بریلوی عُلماء کو روح کے تصور کو ہی سمجھنے نہ دیا جبکہ قُرآن اس بارے میں بالکل واضع ہے۔
البتہ موت اور وفات میں بھی فرق ہے۔ قرآن دونوں کا الگ الگ ذکر کرتا ہے۔ قُرآن کے اردو تراجم یہاں بھی قُرآن کے ان الفاظ کا ترجمہ غلط کرتے ہیں کیونکہ ان تصورات کا تعلُق بھی روح سے ہے۔
نیند یا بے ہوشی کی حالت میں قرآن کے مطابق ہمارے نفسوں کو قبض کر لیا جاتا ہے اورپھر لوٹا دیا جاتا ہے البتہ موت کے وقت نفس کو موت کا ذائقہ چکھایا جاتا ہے یعنی یہ کیفیّت اُس وقت تک کے لیے رہتی ہے جب تک نفس کو برزخی جسم میں مُنتقل نہ کیا جائے۔قُرآن میں موت کی اس کیفیّت کا دورانیہ پتا نہیں چلتا البتہ ایک حدیث نبویﷺ کے مُطابق فرشتے موت سے اتنی دیربعد آتے ہیں جتنی دیر ایک اونٹ کی قُربانی اور سارا گوشت تقسیم کرنے میں لگتی ہے۔ یاد رہے کہ فرشتے نفس کی برزخی جسم میں مُنتقلی کے بعد ہی آتے ہیں۔ یعنی نفس کی موت بس چند گھنٹوں کی ہوتی ہے اور پھر اسے ایک ایسے عالم میں پہنچا دیا جاتا ہے جسے برزخ کہتے ہیں۔ دنیامیں نفس میں شعوری کیفیت روح اور جسم کے ساتھ ملنے سے پیدا ہوتی ہے، بالکل ایسے ہی برزخ جو ایک دوسرا عالم ہےوہاں نفس کو ایک الگ جسم دیا جاتا ہے اور اللہ کے اس عالم میں روح کی طرح کے کسی اور امر یعنی ایک مُختلف انرجی سے انسان دوبارہ شعوری کیفیت میں آجاتا ہے۔جب نفس برزخ میں شعوری کیفیت میں لوٹتا ہےتو جس مقام پر اسکی دوبارہ آنکھ کھلتی ہے وہی دراصل اسکی قبر ہے۔ یہ دُنیاوی قبر ہرگز نہیں قرآن ان مقامات کوعليين اور سجین کہتا ہے۔ علییّن برزخ کا وہ مقام ہے جہاں اچھے لوگوں کی برزخی قبریں یا کمرے یا گھر ہیں اور سجین وہ مقام ہے جہاں بُرے لوگوں کی برزخی قبریں ہیں ۔ ورنہ سارے انسانوں کو دنیاوی قبر نہیں ملتی، بہت سے جلائے جاتے ہیں، کچھ پرانے معاشروں میں مُردوں کو پانی میں بہایا جاتاتھا۔ جہاں بھی قبر کا ذکر ہے وہ دراصل عالمِ برزخ کی قبر ہے۔ دنیاوی قبر تو انسانی جسم کے دنیا سے باعزت اختتام کے لئے اللہ کا بتایا ہوا ایک عمدہ طریقہ ہے اس دنیاوی قبر میں دنیاوي جسم کے لئے نہ عذاب ہے نہ انعام اور نہ ہی یہ جسم جنت یا دوزخ میں جانے والا ہے۔
آپ یا مجھ سے مراد ہمارا نفس ہے اور عذاب یا انعام اسی کے لئے ہے۔ روح اللہ کا امراورایک توانائی ہے جو پاکیزہ ہے اس پر کوئی عذاب یا عُزر نہیں۔ جب فرشتے برزخ کا جسم دے کر ہمارے نفس کو دوبارہ جگائیں گے تو وہ چند بنیادی سوالات کریں گے۔ یہاں انسان تین کیٹگریز میں تقسیم ہو جائیں گے۔
1) انبیا، شہدااور صالحین
2) ملے جلے اعمال والے لوگ
3) قاتل، مشرکین جن پر دنیا میں حق کی اتمام حجت دلیل کے ساتھ ہوگئی تھی اور ایسے ظالم لوگ جو اللہ کی زمین میں فساد کرتے تھے۔
دوسرے طبقے کے بارے میں قیامت کے دِن ان کے اعمال تولے جانے اور سوال جواب کے بعد کوئی بھی فیصلہ ہو سکتا ہوگا لہذا انہیں گہری نیند سلا دیا جائے گا۔ (اُن میں جن کے اچھے اعمال بُرے اعمال کی نسبت زیادہ ہونگے وہ اس نیند میں اچھے خواب دیکھیں گے اور جن کے بُرے اعمال زیادہ ہوں گے وہ اکثر بُرے خواب دیکھیں گے) یہ لوگ قیامت تک سوتے رہیں گے اور انکی کیفیت نہ شعوری ہو گی اور نہ لا شعوری، یہ درمیانی کیفیت میں رہیں گے جیسے ہم اچھے خواب میں خوشی کی نیند سوتے ہیں اور بُرے خواب میں ڈرے رہتے ہیں۔تیسری کیٹیگری کے لوگوں پر آگ صُبح شام اُتاری جائے گی جس کی تپش یہ ایک عذاب کی طرح محسوس کریں گے اور یہ نیند کی کیفیّت میں نہیں ہونگے بلکہ شعوری کیفیّت میں ہونگے البتہ باقائدہ جہنم کا عذاب ان پر بھی روزحشرکے بعد شروع ہو گا لیکن یہ تب تک بھی عذاب سختیاں قریبی جہنم کی کھڑکی سے محسوس کر کے شدید تکلیف میں رہیں گے۔
پہلی کیٹیگری کے لوگ اپنے برزخی جسم کے ساتھ شعوری کیفیّت میں زندہ رہیں گے۔ ایک خاص قسم کا رزق اللہ سے پائیں گے اور جنت کی نعمتوں کا ایک حصّہ بھی حاصل کریں گے جنکا ایک برزخی جسم مُتحمل ہو سکتا ہے۔ انہیں عام آنکھ نہیں دیکھ سکتی البتہ نیند کی حالت میں انسانی نفس ان سے اللہ کی مہربانی سے مل سکتا ہے جو زندہ انسان کے لیے خواب کی حالت ہوگی جبکہ اس کیٹیگری کے لوگوں کی شعوری مُلاقات ہو گی۔