فكر ونظر
اشرافيہ يا استحصاليہ
نجيبہ عارف
گزشتہ کئی دنوں سے بار بار یہ خیال میرے ذہن سے ٹکرا رہا ہے کہ ہماری زبان میں کچھ ایسی اصطلاحات رائج ہیں جو غیر محسوس طریقے سے ہمارے رویوں اور طرز فکر پر اثر انداز ہوتی ہیں اور بعض صورتوں میں معاشرتی ترجیحات کی سمت نما بھی بن جاتی ہیں۔ اس عمل کا نتیجہ اگر مثبت ہو تو بہت خوب لیکن اگر ان لسانی دھندلکوں کے باعث معاشرے میں افراتفری اور نفسا نفسی پھیلنے کا اندیشہ ہو تو ہمیں ان کے متبادل ڈھونڈنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے۔
ایسی ہی ایک اصطلاح ’’اشرافیہ‘‘ ہے جو اردو میں معاشرے کے ایک خاص طبقے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ خاص طبقہ مارکسزم کی اصطلاح میں بورژوا کہلاتا ہے۔ عام لوگ اسے ’’اونچا‘‘ یا ’’اعلیٰ‘‘ طبقہ کہتے ہیں اور اس کے متضاد کے طور دوسرے طبقے کو ’’نچلا‘‘ یا ’’ادنیٰ‘‘ طبقہ کہا جاتا ہے۔ اب ہم میں سے کون ہے جو نچلے یا ادنیٰ طبقے کو اپنی شناخت بنانا چاہے گا۔ ظاہر ہے کہ ہر فرد کے دل میں پوشیدہ یا علانیہ، یہ خواہش ہو گی کہ کسی نہ کسی طرح اعلیٰ طبقے کا حصہ بن جائے۔ یہ خواہش مختلف صورتوں اور جہتوں میں نمایاں ہوتی ہے۔ لباس، اطوار، طرزِ ندگی، زبان، پیشہ؛ ہر معاملے میں اس نام نہاد اعلیٰ طبقے کی پیروی دیگر تمام انسانوں کا، جو اس طبقے سے باہر ہیں، خواب بن جاتی ہے۔ زندگیاں اسی خواب کی تعبیر دیکھنے میں، مشین کے پرزوں کی طرح، گھس گھسا کر اپنی تمام تر انفرادی چمک دمک سے محروم ہو جاتی ہیں اور انسانیت کا اصلی جوہر کھو کر، محض ایک طبقاتی کل پرزہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ معاصر عہد میں جس طبقے کو اشرافیہ کہا جاتا ہے، وہ کون سا طبقہ ہے، اس کی کیا خصوصیات ہیں اور کیا وہ اس لقب کا اہل ہے؟ پہلے اس لفظ کے معانی پر غور کر لیتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق اشراف سے مراد ہے، ’’اچھے، خوش اطوار، عالی نسب یا ایمان دار لوگ۔ شریف کی جمع۔ ‘‘ اور اسی لغت کے مطابق شریف کے معانی یہ ہیں:
۱۔ مرد بزرگ قدر، بزرگ، نجیب، اصیل، بڑے رتبہ کا، عالی خاندان، اونچے گھرانے کا۔
۲۔ بھلا مانس، مہذب، اشراف، شائستہ، تہذیب یافتہ، اشراف زادہ، فخر خاندان۔
۳۔ سید، آل رسول۔
۴۔ مکہ شریف کے حاکم کا لقب جو سید ہوتا ہے۔
۵۔ پاک، مقدس، پوتر۔
۶۔ ایک تعظیم کا کلمہ، جیسے مزاج شریف، مکہ شریف، اجمیر شریف وغیرہ۔
فرہنگ تلفظ میں درج معانی کے مطابق اشراف کے معنی ہیں:
۱۔ بھلا مانس، عالی خاندان، رئیس، عالی نسب، امیرزادہ، ذی رتبہ، ذی عزت، جنٹلمین۔
۲۔ سیدھا، غریب، نیک۔
۳۔ مہذب، شائستہ۔
فرہنگ آصفیہ ۱۸۸۲۔ ۱۸۸۳ کے دوران میں تالیف کی گئی جب کہ فرہنگ تلفظ ایک سو بارہ سال بعد ۱۹۹۵ میں شائع ہوئی۔ اس ایک صدی کے دوران اشراف کے معنی میں دو جہات کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ان میں سے ایک معنی ہے، ’’امیرزادہ اور ذی رتبہ‘‘ اور دوسرا ہے ’’سیدھا اور غریب۔‘‘ لیکن یہ دوسرا معنی جس تناظر میں استعمال کیا جاتا ہے، اس میں مدح کا پہلو کم اور ذم کا پہلو زیادہ ہے کیوں کہ اس میں بے چارگی اور کمزوری کا مفہوم بھی پوشیدہ ہوتا ہے مثلاً یوں کہ ’’بے چارہ شریف سا ہے۔‘‘ البتہ پہلا معنی یعنی ’’امیر زادہ اور ذی رتبہ‘‘ عملی طور پر خوب رائج ہے۔
اب اگر ہم اپنے گردوپیش میں لفظ اشرافیہ کے محل استعمال پر نظر ڈالیں تو معاملہ کچھ اور گمبھیر نظر آئے گا۔ پچھلے پچاس ساٹھ برس میں بالعموم اور گزشتہ تیس پینتیس برس میں بالخصوص، اشرافیہ میں شامل ہونے کے لیے ان تمام اوصاف کا ہونا لازمی نہیں سمجھا جاتا جن کا ذکر سوا سو برس پہلے مولوی سید احمد دہلوی نے فرہنگ آصفیہ میں کیا تھا۔ نجیب، اصیل اور عالی نسب ہونے کی فضیلت تو یوں گئی کہ اس سے ’’نسل پرستی‘‘ ( racism) کی بو آتی ہے۔ اب اگر سائنس نے ڈی این اے کی اہمیت کے ساتھ ساتھ فضیلت بھی بیان کرنی شروع کر دی تو ہو سکتا ہے کہ اگلے چند برس تک دنیا پھر سے نام و نسب کی پہچان کو نکل کھڑی ہو لیکن فی الحال یہ معاملہ نہیں ہے لہٰذا خاندانی نجابت اور نسب کی بنا پر کسی کے اشرافیہ میں شامل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
تہذیب و شائستگی اور بھلا مانس ہونے کی شرط یوں غائب غلہ ہو گئی کہ گزرے وقتوں میں جب ملوکیت اور جاگیرداری کا زمانہ تھا، صاحبِ ثروت طبقہ نسل در نسل دولت و ثروت کا مالک رہتا تھا جس سے ان کی نسلوں میں ایک طرح کی سیر چشمی پیدا ہو جاتی تھی اور وہ ذاتی مفاد سے متعلق بڑے بڑے معاملات مثلاً خواہش اقتدار یا باہمی رنجش و حسد وغیرہ کو چھوڑ کر عام معاشرتی معاملات میں کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ ان کے ہاں اپنی قدیم روایات اور خاندانی اقدار کی پاس داری بہت اہم تھی اور چوں کہ وہ روزی روٹی کمانے کی فکر سے آزاد تھے تو ان کے پاس یہ موقع بھی موجود تھا کہ اگر چاہیں تو فنون لطیفہ کی سرپرستی کریں، یا خود اپنے وسائل کی بنا پر اپنے جمالیاتی ذوق کا اظہار عالیشان تعمیرات، کتب خانوں، چڑیا گھروں اور نوادر کے ذخائر کے ذریعے کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسی طبقے کے افراد تھے جن کی رسائی علم کے اعلیٰ ذرائع تک تھی اور انھیں ایسی فرصت اور فارغ البالی بھی میسر تھی کہ ان میں سے کئی افراد اپنی زندگیاں تصنیف و تالیف میں بسر کر دیتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے، ظلم و ستم اور استحصال کی روایت پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ، انسانیت کی عمومی فکری و ذوقی نشوونما میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں تہذیب و شائستگی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور معاشرے کے دیگر افراد ان کے طور طریقوں کی پیروی اور تقلید کو باعث فخر سمجھتے تھے۔
ہمارے عہد تک آتے آتے معاملات بہت کچھ بدل چکے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام اس سطح پر باقی نہیں رہا جس پر دو سو سال پہلے تک تھا۔ اشرافیہ کہلانے والا قدیم طبقہ، صنعتی ترقی، نئی تعلیم، کاروباری طبقے کی تیز رفتار معاشی خوش حالی اور دیگر کئی اسباب کی بنا پر غیر اہم ہوتا گیا اور ہر وہ شخص جس نے کسی نہ کسی طرح دولت و طاقت پر قبضہ کر لیا، اشرافیہ کا حصہ بن گیا۔ دولت کمانے کے یہ ذریعے اگر جائز اور محنت پر مبنی ہوں تو کوئی راتوں رات امیر نہیں ہوتا، اس میں کم از کم ایک نسل کی مشقت شامل ہوتی ہے اور امارت کا حصول ایک تدریجی عمل بن جاتا ہے جس کے دوران انسان اپنے تجربات سے بہت کچھ سیکھتا رہتا ہے۔ البتہ سیر چشمی اور کشادہ ظرفی آتے آتے آتی ہے۔ لیکن اگر دولت یا طاقت پر قبضہ ناجائز ذرائع سے کیا جائے اور اسے مزید دولت یا طاقت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا جائے تو ایک ایسی نحوست طاری ہو جاتی ہے جو دوسروں کے دل میں خواہ مخواہ نفرت اور عداوت کو جنم دیتی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر اس سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ ہمارے عہد میں اب وہ طبقۂ اشرافیہ ناپید نہیں تو کم یاب ضرور ہوتا جا رہا ہے جو سیر چشم، کشادہ ظرف، مہذب و شائستہ اور سب نہ سہی، کچھ اعلیٰ انسانی اقدار پر عمل پیرا ہوا کرتا تھا۔
اس خلا کو جس طبقے نے پر کیا ہے، وہ تین قسموں میں تقسیم ہے۔ ایک تو وہ لوگ جنھوں نے تعلیم اور ذہانت کے ذریعے نوکر شاہی یا انتظامیہ میں اعلیٰ مناصب حاصل کر کے اپنی اہمیت کو تسلیم کروا لیا ہے، دوسرے وہ جنھوں نے صنعت کاری یا کاروبار کے ذریعے خوش حالی کی منزلیں طے کی ہیں اور تیسری مگر مقتدر ترین قوت وہ ہے جس نے کئی طرح کے ناجائز ذرائع، مثلاً سمگلنگ، منشیات فروشی، اسلحے کے ناجائز کاروبار، مختلف خفیہ ایجنسیوں کی ایجنٹی، حتیٰ کہ قلم اور ضمیر فروشی کے ذریعے بھی، خود کو معاشرے کا طاقت ور ترین طبقہ ثابت کر دیا ہے۔
ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہر اہم معاملے کا فیصلہ انھی تین گروہوں میں سے کسی ایک یا دونوں تینوں کی مشترکہ پشت پناہی اور حمایت سے ہوتا ہے۔ جمہوریت کی برکات سے ہمارا معاشرہ ہی نہیں، جمہوریت کا مادر معاشرہ، یعنی امریکہ تک اسی لیے محروم ہے کہ دولت کے بغیر کسی جمہوری ادارے کا رکن بننے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور کبھی کوئی ایسا معجزہ ہو بھی جائے تو وہ رکن اپنے ادارے میں ایک عضو معطل سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ جمہوری اداروں کا رکن بننے کے لیے یا تو قوت خرید کا مالک ہونا ضروری ہے، یاخود مالِ فروخت بن جانا۔ جو خود قوت خرید کے مالک ہوتے ہیں، وہ اپنے مفادات کے غلام ہوتے ہیں اور جو محض مال فروخت ہوتے ہیں ان میں اتنی سکت بھی نہیں ہوتی کہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ وہ محض بساط کا ایک مہرہ ہوتے ہیں، جس کی بولی کوئی بھی دے سکتا ہے۔ عوام، جن کے نام پر جمہوری حکومتیں قائم ہوتی ہیں، دونوں صورتوں میں چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پستے ہیں اور کمزور سے کمزور ہوتے جاتے ہیں۔
ہمارے معاصر معاشرے میں دولت اور طاقت لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ جس کے پاس دولت ہے وہ طاقت کو خرید لیتا ہے۔ جس کے پاس طاقت ہے وہ بزور دولت حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ ہم جس بات پر بحث کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ دولت اور طاقت کا حامل یہ طبقہ جو اس وقت کروڑوں افراد کی تقدیر کا ملاک بنا بیٹھا ہے، کیا ’’اشرافیہ‘‘ کہلانے کا حق دار ہے؟ اب جب کہ اشرافیہ میں شامل ہونے کا واحد معیار دولت و طاقت بن چکے ہیں، کیا ہم پر لازم نہیں کہ اس طبقے کو اشرافیہ کہنے سے انکار کر دیں۔ آخر ہم کب تک اس طبقے کو، جو اصل میں اشرافیہ کے بجائے’’استحصالیہ ‘‘ طبقہ ہے، ’’اعلیٰ‘‘ اور ’’اونچا‘‘ اور ’’بالائی‘‘ طبقہ کہتے رہیں گے اور کب تک ان مجبور و مقہور عوام کو، جو اس طبقے کے استحصال کا نشانہ ہیں، ’’ادنیٰ‘‘، ’’نچلا‘‘ یا ’’چھوٹا‘‘ طبقہ پکارتے رہیں گے۔ کیا ہم اپنے معاصر حالات کو پیش نظر رکھ کر ان طبقات کے لیے کچھ اور اصطلاحات وضع نہیں کر سکتے جو ان طبقات کی جھوٹی شناخت کو رد کریں اور ان کا وہ ’’امیج‘‘ توڑ ڈالیں جو خود کو اشرافیہ کہہ کر یہ طبقہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے ذہنوں پر ثبت کرتا رہتا ہے؟
اس طبقے کو ہم، اگر بہت غیر جانب داری سے بھی کام لیں تو، زیادہ سے زیادہ ’’مالدار یا دولت مند طبقہ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یوں کہنے کو تو یہ محض ایک لفظ ہے لیکن اس لفظ کے بدل جانے سے وہ تمام تناظرات ختم ہو جائیں گے جو لفظ اشرافیہ کے اطراف میں موجود ہیں اور اسے ایک مثبت اور قابلِ قدر رتبہ عطا کرتے ہیں۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر میں تو یہ تجویز کروں گی کہ ہمیں لفظ ’’اشرافیہ‘‘ کا اطلاق افراد کے ایسے گروہ پر کرنا چاہیے جو ہمارے نزدیک واقعی شرف و عزت کا باعث ہو۔ ویسے تو حضور اکرمؐ نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے اس بات کا اظہار علی الاعلان کر دیا تھا کہ شرف اور بزرگی کا اصل معیار، دولت ہے، نہ رنگ و نسل بلکہ انسان کا عمل اس کی قدر و قیمت کا تعین کرتا ہے۔ لیکن مذہب کا حوالہ ہمارے ہاں بعض اوقات عجیب و غریب ردعمل پیدا کرتا ہے۔ جو لوگ مذہب سے چڑتے ہیں ان کے لیے ہم ’’سیکولر‘‘ اصطلاحات میں بات کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور اہلِ خدمت کو اشرافیہ کہا جائے جو اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی، انصار برنی، مدر ٹریسا اور ایسے کتنے ہی افراد ہیں جو ایک مثال بن سکتے ہیں۔ یا پھر ان اہل علم کو اشرافیہ کہا جائے جو علم کی ترویج و ترسیل میں مخلصانہ اور بے غرضانہ کوششیں کر رہے ہوں۔ قیمتاً علم دینے والے یا علم کو حصول دولت کا ذریعہ بنانے والے افراد اس لقب کے اہل نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح کے اور کام جو فرد اور معاشرے کی عمومی بھلائی پر منتج ہوں، اشرافیہ کی پہچان قرار دیے جا سکتے ہیں۔
یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس سے کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ فوری طور پر، راتوں رات تو کچھ نہیں ہو گا لیکن جب ہماری نئی نسلیں دل ہی دل میں اپنے مقاصد کا تعین کریں گی تو معاشرے کے اشراف میں شامل ہونے کے لیے صرف پیسہ کمانے کو اپنی منزل مقصود نہیں سمجھیں گی۔ مارکیٹ اکانومی کا پھیلایا ہوا یہ جال، کہ ’’زندگی اسی کی ہے جو روپے کا ہو گیا‘‘، نہ بھی ٹوٹے لیکن کچھ تو کمزور ہو گا۔ جب ہم اپنے بچوں کو ’’بڑا آدمی‘‘ بننے کا سبق سکھائیں گے تو ان کے ذہنوں میں لمبی کار، عالیشان مکان اور بھری ہوئی تجوریوں کے علاوہ بھی کچھ نقش ابھریں گے۔
ہم چاروں طرف سے کرنسی کی یلغار اور منڈی کے شور و شغب میں بری طرح گھر چکے ہیں۔ کیوں نہ ایک لمحے کو رک اپنی قد و قیمت کا تعین کسی اور پیمانے سے کرنے کا سوچیں اور خود کو پہچانیں۔