فكر ونظر
توہمات اور مغرب
ڈاکٹر ساجد علی
گزشتہ صدی کی اسی کی دہائی کی بات ہے جب پہلی دفعہ یہ خبر آئی کہ ایڈز نام کا کوئی نیا مرض دریافت ہوا ہے۔ اس وقت ہمارے میڈیکل ڈاکٹروں کو بھی اس مرض کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں مگر اگلے دن کے اخبار میں ایک حکیم صاحب کا بیان چھپا ہوا تھا کہ ان کے پاس اس مرض کا علاج موجود ہے۔ یہاں کونسا حکیم ہے جو دل، سرطان، شوگر، ہیپا ٹائٹس کا علاج کرنے کا دعوی نہ رکھتا ہو۔ کتنے پڑھے لکھے ہیں جو عجوہ کھجور کے ذریعے دل کے بائی پاس آپریشن کو کامیابی سے ٹال رہے ہیں۔
اس قسم کی باتوں کو ہماری تعلیمی پس ماندگی کا نتیجہ گردانا جاتا ہے؟ مفروضہ یہ ہے کہ اگر ہمارے ہاں شرح خواندگی بڑھ جائے تو معاشرے میں عقل و خرد پر مبنی سائنسی سوچ رواج پکڑ لے گی اور توہمات و تعصبات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کچھ لوگ ہمارے مذہبی مدارس کے نظام کو اور معاشرے میں ملا کے اثرات کو اس خرابی کا سبب قرار دیتے ہیں۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب ایک وردی پوش حاکم کے دور میں روشن خیالی کا چرچا شروع ہوا اور مسائل کا حل یہ تجویز کیا گیا کہ مدارس میں بھی سائنس پڑھائی جائے۔ اس بات کے پیچھے یہ ایقان کارفرما تھا کہ سائنس پڑھنے والے روشن خیال ہوتے اور شدت پسندی سے نفرت کرتے ہیں۔اگر ذرا تامل سے کام لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ حالات کا انتہائی سطحی تجزیہ ہے جس کا حقائق کی دنیا سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ جدید سائنس نے مغرب میں جنم لیا اور اس کے نتیجے میں ایک مضبوط عقلی روایت بہت مستحکم بنیادوں پر استوار ہو چکی ہے۔ سائنسی انقلاب کو برپا ہوئے چار صدیوں سے زاید عرصہ گزر چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ابتدائی سے لے کر اعلی درجوں تک سائنس کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ کھربوں ڈالر سائنسی تحقیق پر صرف کیے جا رہے ہیں۔ نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں، کائنات کے اسرار سے پردہ ہٹایا جا رہا ہے۔ آج خلائی جہاز زمین کے مدار سے نکل کر مریخ تک جا پہنچے ہیں۔ اس سائنس کے نتیجے میں جنم لینے والی ٹیکنالوجی نے عام انسانوں کو جو آسودگی اور راحت عطا کی ہے وہ پرانے زمانے کے بادشاہوں کو نصیب نہیں تھی۔ شہنشاہ ہند ظل سبحانی حضرت نورالدین جہانگیر کو اپنے من پسند مشروب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے نامعلوم کیا کیا جتن کرنے پڑتے تھے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس تمام تر ترقی کے بعد کیا ان معاشروں میں توہمات کا خاتمہ ہو چکا ہے؟ اگر سبھی نہیں تو کیا بہت بڑی تعداد میں لوگ سائنسی اور عقلی انداز میں سوچنا شروع ہو گئے ہیں؟
اگر امریکی معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تمام تر سائنسی تعلیم کے باوجود معاشرے کی ایک بڑی تعداد توہمات سے اپنا پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ 2001ء میں ایک گیلپ پول کے نتائج حیران کن ہی نہیں بلکہ پریشان کن ہیں۔54 فی صد امریکن شہری روحانی علاج پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی ذہنی قوت اس کی جسمانی بیماریوں کا علاج کر سکتی ہے۔50 فی صد امریکن ESP پر یقین رکھتے ہیں۔ 42 فی صد گھروں کے آسیب زدہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ 36 فی صد ٹیلی پیتھی کو حقیقت قرار دیتے ہیں اور مانتے ہیں کہ حواس خمسہ کے علاوہ دیگر ذرائع سے دور دراز کے لوگوں سے رابطہ کرنا ممکن ہے۔ 33 فی صد کو یقین ہے کہ اس زمین پر خلائی مخلوقات اترتی رہتی ہیں۔
گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی کی بات ہے جب ہم گورنمنٹ کالج میں فلسفے کے طالب علم تھے، ہمارے استاد محترم نے ہمیں بتایا تھا کہ امریکہ میں ایک نوجوان ہے جس کا دعوی ہے کہ وہ محض نظر کی قوت سے لوہے اور سٹیل کی بنی ہوئی چیزوں کو موڑ سکتا ہے۔ اس شخص کا نام یوری گیلر ہے۔ بے شمار دفعہ اس کی جعل سازیوں کا پردہ چاک کیا جا چکا ہے اور یہ کہ وہ عام سی شعبدہ بازی کرتا ہے مگر اس کے ماننے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کتنی کتابیں لکھی جاتی ہیں، کتنے جرائد چھپتے ہیں جن کا مقصد ہی ناقص اور جعلی سائنسی دعووں کا پردہ چاک کرنا ہے مگر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ ایسی کاوشوں کو کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔ لوگوں کے معتقدات چونکہ دلائل و شواہد پر مبنی ہوتے ہی نہیں اس لیے دلائل و شواہد ان پر کم ہی اثر انداز ہوتے ہیں۔ لوگوں کے کسی بات پر یقین کا ایک ہی سبب ہوتا ہے کہ وہ اس پر یقین کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ معتقدات ربڑ کی بنی ہوئی بطخیں ہیں جو ہمیشہ تیرتی رہتی ہیں اور جن کے ڈوبنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔
مغربی یورپ کے دیگر ترقی یافتہ معاشروں کا حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ Horoscope وہیں چھپتے ہیں اور آج بھی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل ہے کہ ستاروں اور سیاروں کے انسانی زندگیوں پر اثرات ہوتے ہیں۔ خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کے بارے میں کتابیں اب تو بڑی اعلی شہرت کے حامل اشاعتی اداروں نے بھی چھاپنا شروع کر دی ہیں کہ ان کی مانگ بہت زیادہ ہے اور وہ بہت آسانی سے بیسٹ سیلر بن جاتی ہیں۔ ان کے بارے میں ہالی وڈ میں بننے والی فلموں کی بھرمار ہے۔
عام لوگوں کی بات تو رہی ایک طرف، امریکہ برطانیہ اور مغربی یورپ کی یونیورسٹیوں میں گزشتہ سو سال سے جو فلسفہ پڑھایا جا رہا ہے اس کا غالب حصہ عقل و خرد کی مذمت پر مشتمل ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ادبیات، بشریات، عمرانیات اور بعض جگہ فلسفے کے شعبوں میں بھی دور تنویر کے فلسفے کا رد یا مابعد جدیدیت کے نام پر جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ ہمارے مولویوں کے لیے بھی لائق عبرت ہو گا۔
مغرب کی تعلیمی درسگاہیں خرد دشمنی کے سیلاب کی زد میں ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں جدید پڑھے لکھے اور بہت ماڈرن دانشوروں میں بھی یہ فلسفے مقبول ہو رہے ہیں۔ پندرہ بیس سال پرانی بات ہے ایک نوجوان دانش ور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں تشریف لائے اور میرے ایک رفیق کار سے سوال پوچھا اور مجھے کہا کہ آپ بھی جواب دے سکتے ہیں۔ پہلا جملہ جو ان کی زبان سے ادا ہوا وہ یہ تھا کہ مغرب میں سائنس ختم ہو چکی ہے۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے انہیں وہیں روک کر سوال پوچھا کہ یہ اطلاع انہیں کن ذرائع سے ملی ہے تو ان کا جواب تھا کہ اڈورنو نے ایسا لکھا ہے۔ میرے لیے یہ بات بہت صدمے کا باعث تھی کہ کسی ایک شخص کی رائے پڑھ کر کوئی اتنا بڑا دعوی اپنی زبان پر لا سکتا ہے۔ مغرب میں سائنس کے ختم ہونے کا فیصلہ اڈورنو یا کسی دریدا کی رائے سے نہیں ہوگا بلکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا وہاں سائنس پڑھنے والے طلبہ کی تعداد کم ہو رہی ہے؟ کیا تجربہ گاہیں بند کی جا رہی ہیں؟ کیا سائنسی تحقیق کا باب بند ہو گیا ہے؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو سائنس ختم ہونے کی بات پر یقین کر لینا خود فریبی کے سوا اور کیا ہے؟
آج سائنس کو بڑا خطرہ مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے لاحق نہیں بلکہ اصل طوفان اس وقت بھی مغرب سے ہماری طرف رخ کر رہا ہے۔ اپنے احمقوں کا مضحکہ اڑانے والے ہائڈیگر، میشل فوکو، ژاک دریدا، لاکاں، اڈورنو ،ہابرماس اور فیرابینڈ کے نام بہت عقیدت و احترام سے لیتے ہیں۔ یہ لوگ پورے بلند آہنگ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں کہ معروضی صداقت کوئی شے نہیں۔ سماجی علوم ہی نہیں بلکہ طبعی علوم ،ریاضی اور منطق بھی سماجی تشکیلات کے سوا کچھ اور نہیں۔ سائنس کے قوانین اور کشش ثقل کا قانون بھی موضوعی اور سماجی تشکیلات کے مظہر ہیں۔ افریقا کے ووڈو اور کوانٹم فزکس میں عقلی اعتبار سے کوئی فرق نہیں ۔ اہل مغرب کوانٹم فزکس کو اس لیے مانتے ہیں کہ وہ اس معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں جہاں اسے ایک حقیقت کے طور پر قبول کیا جاتا ہے اور درسگاہوں میں صداقت کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ افریقا کے لوگ سحر و ساحری پر یقین رکھنے میں اتنے ہی حق بجانب ہیں کیونکہ یہ ان کے سماج کے مسلمات ہیں۔ گویا صداقت صرف وہ ہے جسے کسی سماج کے باشندے صداقت تسلیم کرتے ہوں۔ چنانچہ ہمارے مذہبی طبقات بھی انہی لوگوں کے حوالے دے دے کر یقین دلا رہے ہیں کہ سائنس کو تو اہل مغرب خود رد کر چکے ہیں۔
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ صدی کی نوے کی دہائی میں پیش آنے والے ایک تہلکہ انگیز واقعہ کا ذکر کر دیا جائے۔ مابعد جدیدیت اور اس قبیل کے دیگر افراد نے سائنس کے بارے میں جس طرح کی انٹ شنٹ تحریروں کا انبار لگانا شروع کیا ہوا ہے اس پربالعموم سائنس دانوں کا رد عمل بس خندہء استہزا ہی ہوتا ہے تاہم دو سائنس دانوں نے اس کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے رد میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا:
Higher Superstition: The academic Left and its Quarrels with Science, by Roger R. Gross &Norman Levitt. 1994. 1998
یہ کتاب ایک ماہر طبیعیات، ایلن سوکل [Alan Sokal ] کی نظر سے گزری۔ سوکل کا مزید تعارف یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر خود کو بائیں بازو سے منسوب کرتا ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد اس کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ آیا اس کتاب میں دیے گئے حوالے درست ہیں۔ اس کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل تھا کہ کوئی معقول شخص اس قسم کی جاہلانہ باتیں لکھ کر چھپوا بھی سکتا ہے۔ اس نے لائبریری کا رخ کیا تا کہ وہ حوالوں کی صحت کا تعین کر سکے۔ اس کو یہ جان کر صدمہ ہوا کہ وہ تمام حوالے درست تھے اور ان میں کوئی علمی بددیانتی نہیں تھی۔ اس پر اسے ایک شرارت سوجھی اور اس نے مابعد جدیدیت کے بھاری بھرکم اسلوب میں ایک مقالہ لکھا [ Trangressing the boundries: Toward a Transformative Hermeneutics of Quantum Gravity ]اور امریکہ میں چھپنے والے ایک جریدے Social Text کو بھجوا دیا۔یہ جریدہ اسی مکتب فکر کا ترجمان ہے اور وہ مذکورہ بالاکتاب کے جواب میں اپنا خصوصی نمبر چھاپ رہے تھے جس کا عنوان تھاScience Wars [ 1996] ۔ اس شمارے میں انہوں نے سوکل کا مضمون بھی چھاپ دیا۔ مضمون چھپنے کے بعد سوکل نے ایک اور رسالے Linguafrance میں مضمون لکھا اور وضاحت کی کہ اس کا مضمون قطعاً کوئی سنجیدہ مضمون نہیں تھا بلکہ محض ایک پیروڈی تھی جس کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ ان لوگوں کے کوئی علمی معیارات نہیں ہیں اور یہ محض سیاسی پروپیگنڈے سے کام لے رہے ہیں۔ اس پر بحث مباحثے کا ایک بازار گرم ہو گیا۔ کچھ لوگ سوکل کی حمایت میں لکھ رہے تھے کہ اس نے مابعد جدیدیت والوں کی علمی سطحیت کو بے نقاب کر دیا ہے جبکہ مخالفین اسے گھٹیا فریب کاری قرار دے رہے تھے۔ جو صاحب اس کی مزید تفصیل معلوم کرنا چاہتے ہوں وہ ایلن سوکل کا نام لکھ کر گوگل پر تلاش کر سکتے ہیں۔ سوکل نے اپنی سائٹ پر بہت سا مواد ڈالا ہوا ہے۔
گنجلک اور ژولیدہ نثر ، بھاری بھر کم الفاظ کے بوجھ تلے دبا قاری یہ سوچ کر پریشان ہوتا رہتا ہے کہ لکھنے والا ضرور کوئی گہری اور مشکل بات کر رہا ہے جسے وہ اپنی ذہنی کم مائیگی کے سبب سمجھے سے قاصر ہے۔ یہ لوگ یہی دعوے کر رہے ہیں کہ زمان و مکان کی کوئی معروضی حقیقت نہیں۔ جیومیٹری بھی آفاقی صداقت کی حامل نہیں بلکہ اضافی اور سیاق و سباق کی پابند ہے۔ دلیل اور منطقی قوانین محض بالا دست طبقوں کے حربے ہیں جو وہ مفلوک الحال لوگوں کے استحصال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ نسائی تحریک کی علم بردار ہیں جن کے نزدیک سائنس سفید فام مردوں کی خودسری کا نام ہے اور اس میں عورتوں کی تحقیر و تذلیل کی جاتی ہے۔
اب سوچنے کی بات ہے کہ یہ سب دعاوی ہمارے بابا پوٹھوہاری صاحبان کی بات سے کیوں کر مختلف ہیں۔ لیکن یہ سب اس لیے قابل قبول ہیں کہ ان کے لکھنے والے ترقی یافتہ دنیا کی بڑی بڑی جامعات میں پروفیسروں کی مسند پر براجمان ہیں۔ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ملکوں کی حکومتیں کثیر زر مبادلہ خرچ کرکے ان جامعات میں اپنے طلبہ کو بھیجتے ہیں اور وہ جو کچھ وہاں سے سیکھ کر آتے ہیں وہ ہمارے بابا صاحبان بہت کم خرچ میں سکھا سکتے ہیں۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہماری اعلی تعلیمی درسگاہوں میں بھی سماجی علوم اور ادبیات کے شعبو ں میں اس قسم کے نظریات جڑ پکڑ رہے ہیں۔ مولوی عقل کو شیطان کی کنیز قرار دیتا ہے ، یہ لوگ عقل کو غالب طبقوں کے ہاتھ میں استحصال کا آلہ قرار دیتے ہیں۔ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلے گا۔ جب معاملات کو طے کرنے میں عقل کے استعمال سے انکار کر دیا جائے گا تو پھر تشدد کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہیں رہے گا۔ اگر ہم معاشرے سے متشددانہ رجحانات کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں ملا کی قدامت پرستی کے ساتھ اس جدید خرد دشمنی کے سامنے بھی بند باندھنا ہو گا۔