بچوں كي تربيت

مصنف : جويريہ ساجد

سلسلہ : تعلیم و تربیت

شمارہ : جون 2023

تعليم و تربيت

بچوں كي تربيت

جويريہ ساجد

تربیت:0

آج سے پچیس ستائيس سال پہلے نئے بننے والے والدین کی ایک ایسی قسم پروان چڑھی جن کا کہنا تھا کہ بچوں کو کسی بھی بات پہ روکنے ٹوکنے سے ان کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں، ان میں خود اعتمادی پیدا نہیں ہوتی۔ اس لیے بچے جو کرتے ہیں انہیں کرنے دیا جائے جو بولتے ہیں بولنے دیا جائے تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو اور ان کی صلاحیتیں نکھریں۔

آج اتنے سالوں بعد جب وہ آزاد منش نسل جوان ہو چکی ہے ان میں سے کئی پریکٹیکل لائف میں بھی آ چکے پیں ان کو دیکھ کے لگتا ھے کہ نہ روکنے ٹوکنے کی وجہ سے ان میں سوائے بدتمیزی, اوور کاانفیڈینس، زبان درازی،بد لحاظی، ہیجان اور گنوار پن کے اور کوئی صلاحیت نہیں ابھری۔ان میں سے اکثریت اپنی عادات کے غلام اور اپنا اچھا برا سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ان کی قوت فیصلہ بھی کمزور ہے کیونکہ ان کے پاس دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں ہے ان کو آپشن بتائے ہی نہیں گئے۔یہ جو سوچتے ہیں اسی کو صحیح سمجھتے ہیں غلط فیصلے لیتے اور ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ ان کی اکثریت کھانے پینے سونے جاگنے کی غیر صحت مندانہ روٹین کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ھے اور اب یہ اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ کسی کی بات مان سکیں سننے کا ٹمپرامننٹ ہی نہیں۔بچوں کو غلط عادات، عمل، رویوں پہ روکنا ٹوکنا، سمجھانا، اور ان کو متبادل دینا،ان کے ایگریشن کو چینلائز کرنا،ان کے سونے جاگنے، کھانے پینے، رہنے سہنے اور رویوں کے معمولات پہ نظر رکھنا اور سختی کرنا، ناصرف ان کی زندگی میں ڈسپلن لا کے ان کو مثبت توانائی دیتا ھے بلکہ ان کو معاشرے کا مثبت فرد بنا کے شاندار معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

مغرب ميں جھوٹ،منافقت اور فراڈ جیسے رویے بہت کم ہیں سو بچوں کو آزاد چھوڑا جاتا ہے کہ اپنی شخصیت کی تعمیر کریں ۔یہاں یہ سارے لوازمات گھر سے لے کر معاشرے تک قدم بقدم موجود ہیں ۔لہذا بچے کو آزاد چھوڑا جائے تو یہی چیزیں اس کی شخصیت کا حصہ بنیں گی جو اسے دستیاب ہیں۔

آپ پکی اور صاف ستھری سڑک پر تو بچے کی انگلی چھوڑ سکتے ہیں۔کیچڑ بھری گلی میں تو کہیں کہیں پر اسے اٹھا کر بھی چلنا پڑے گا۔

تربیت: 1

بچوں کی تربیت میں کچھ اصول بنائیں اور اپنے اصول کبھی نہ توڑیں۔بچوں کی نشو و نما ، صحت اور ذہنی کارکردگی کے لیے بنیادی چیزیں دو ہیں۔

1.متناسب نیند.

2.صحت بخش خوراک.

1 ابتداء ہی سے بچوں کی سونے جاگنے کی روٹین سیٹ کریں بچوں کو جلدی سونے اور جلدی اٹھنے کا عادی بنائیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بچوں کے جسم میں گروتھ ہارمونز رات کو ریلیز ہوتے ہیں۔ رات کو دیر سے سونے والے بچوں کی قوت مدافعت immune system کمزور ہوتا ھے اور وہ جلد بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔رات کو جلد سلانے کے لیے بچوں کو "سو جاؤ" کہنا کافی نہیں ہوتا ان کو نیند کا ماحول دینا ضروری ھے۔مثلاً»» کمرے کی لائٹس مدھم کر دی جائیں بے حد مدھم۔خیال رکھیں کہ بچوں کی آنکھوں پہ ڈائریکٹ روشنی نہ پڑے۔»» ٹی وی گیجٹس بند کر دیے جائیں ( کچھ والدین موبائل ہاتھ میں دے کے سونے لٹاتے ہیں کہ دیکھتے دیکھتے سو جائے گا یہ بلکل غلط ہے۔)

»» کوشش کریں گھر میں بھی شور شرابے کو بچوں کے کمرے تک نہ آنے دیا جائے جیسے کسی اور کمرے میں ٹی وی کی آواز، گھر میں دیگر افراد کی آمد و رفت کی وجہ سے ڈسٹربینس وغیرہ۔

»» جوائنٹ فیملیز میں باہر کا شور کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تو بہتر ہے بچوں کو سلانے کے لیے لٹا کے کمرے میں ہلکی آواز میں سورہ رحمن یا کوئی بھی سورہ یا رقیہ الشریعہ چلا دی جائے۔

»» بچوں کو سلانے کے لیے ڈھیلے ڈھالے آرام دہ لباس پہنائیں۔

»» سونے سے پہلے دانت برش کرنے کی عادت ڈالیں.

»» ممکن ہو تو مائیں کچھ دیر ساتھ لیٹ کے ان کو سیکھنے کے لیے مختصراً کچھ اچھی باتیں شئیر کریں یہ باتیں کہانی کی صورت بھی ہو سکتی ہیں یا بچوں کے اپنے طرز عمل پہ ڈائریکٹ بات چیت ہو سکتی ہے سونے سے پہلے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت تیز ہوتی ھے۔

»» سکول جانے والے بچے چھٹیوں میں کچھ ریلیکسیشن relaxations چاہتے ہیں چھٹیوں میں بھی بچوں کو رات دیر تک جاگنے کی اجازت نہ دیں جاگنے اور سونے کی ایک حد مقرر کریں یہ نہیں کہ رات بھر جاگیں اور دن بھر سوئیں۔

2 دوسری اہم چیز خوراک ہے ہم جو خوراک کھاتے ہیں اس کا براہ راست اثر ہماری جسمانی اور ذہنی صحت پہ پڑتا ہے اس کے لیے بھی کچھ اصول بنائیں.

»» بچوں کو اچھے ناشتے کا عادی کریں. ایسا ناشتہ جس میں پروٹین بھی ہو کیلشیم بھی اور کاربوہائیڈریٹس بھی انڈہ+ پراٹھا+ دودھ

»» ڈبل روٹی میں میدہ استعمال ہوتا ھے کوشش کریں میدے کے بجائے گندم استعمال کی جائے اس میں فائبر شامل ہوتا ھو جو پیٹ کو صاف رکھتا ھے اور پیٹ کی تکالیف سے بچاتا ہے۔

»» کسی کسی دن ناشتے میں پراٹھے انڈے اور دودھ الگ الگ کے بجائے پین کیک بنا دیں۔

تین چمچ گندم کا آٹا-ایک انڈہ -تھوڑا سا دودھ-چینی

ان سب کو اچھی طرح مکس کر لیں اور پتلا لیکوئڈ بنا لیں بہت زیادہ پتلا بھی نہیں ہونا چاہیے اس آمیزے کو فرائی پین میں دیسی گھی یا مکھن یا آئل ڈال کے پھیلا دیں ایک طرف سے سک جائے تو سائڈ بدل دیں چینی کے بجائے نمک اور کالی مرچ بھی شامل کی جا سکتی ھے۔

»» بچوں کو سنیکس کے طور پہ فرائڈ چیزوں کے بجائے فروٹس اور نٹس دیں سکول میں بھی لنچ باکس میں فروٹس اور نٹس دیے جا سکتے پیں۔فرائڈ ائٹم ہفتے میں ایک یا دو دن زیادہ نہیں۔ ( فروٹس کا خرچہ فرائڈ ائٹم کے خرچے کے برابر بھی ہو تو افادیت کہیں زیادہ ھے۔)

»» بچوں کو ہر چیز کھانے کا عادی کریں جو سالن گھر میں پکے وہی کھائیں چاہے ابتداء میں دو لقمے ہی کھانے پہ آمادہ کریں بچوں کو آپشن مت دیں کہ چلو یہ نہیں کھانا تو وہ کھا لو۔اس طرح بچے بہت محدود چیزوں پہ جا کے رک جاتے ہیں۔

»» بچوں کو جنک فوڈز ہر گز ہرگز ہرگز مت کھلائیں چپس سلانٹیز، کرکرے وغیرہ-اس کے بجائے بسکٹس دلوائے جا سکتے ہیں ( میرے بچے پیکٹ والے چپس سلانٹیز تو شاید چھ آٹھ ماہ بعد کھاتے ہیں)

»» کولڈ ڈرنکس کے بجائے دودھ، شیکس، شربت کا عادی کریں ( میرے بچے کولڈ ڈرنکس کہیں جانے پہ شادی فنکشنز میں ہی پیتے ہیں وہ بھی پانچ سال کا ہونے کے بعد)

»» اس کے علاوہ برگر پیزے بھی ایک دو ماہ میں ایک بار پہ ہی رکھیں۔

( میں بچوں کو سکول لنچ باکس میں برگر،پیزے، پراٹھا رول، فرنچ فرائز، وغیرہ خود بنا کے دیتی ہوں اس لیے گھر سے باہر جا کے یہی سب کھانے کی فرمائشیں کم ہی ہوتی ہیں سب کچھ گھر میں ملتا ہے۔)

»» کھانوں میں دیسی گھی، مکھن، چیز کا استعمال کریں اب یہ تمام چیزیں آن لائن دستیاب ہیں۔

میدے کے بجائے گندم-چکن کے بجائے گوشت

دوستوں اپنی مثال خود نمائی کے لیے نہیں بلکہ اس لیے دی کہ یہ سب قابل عمل اقدامات ہیں ایسا نہیں کہ ماورائے دنیا ماورائے فطرت ہوں۔ اور یہ سب اس ماحول میں کیا جس میں سب روٹین اس روٹین کے بلکل مخالف سمت تھی۔ان سب باتوں کے لیے ماں کا determind ہونا اور باپ کا تعاون درکار ہوتا ھے اور بس۔

تربیت:2

بچوں کو اچھا صحت بخش کھانا اور بہترین نیند دینے کے بعد جو چیز سیکھانے کی ہے وہ ہے تمیز اور تہذیب۔ جن میں شامل ہے-

1. کھانا کھانے کا طریقہ سلیقہ۔

2. واش روم استعمال کرنے کی عادات۔

3. گفتگو کے آداب۔

4. کسی کے گھر جانے کے اصول۔

5. بڑوں سے بات کرنے کی تہذیب۔

6. عبادات کی عادت وغیرہ

آئیے اس پہ کچھ گفتگو کرتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ بات جان لیں کہ خالی احکامات جاری کرنے سے بچوں کی تربیت نہیں ھوتی اس کے لیے ابتداء ہی سے ان کی ٹریننگ کی جاتی ھے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی بچے ہیں بڑے ہو کے سیکھ جائیں گے وہ غلطی پہ ہیں۔ بڑے ہو کے سبکی اٹھا کے سیکھا تو کیا سیکھا۔

1. کھانا کھانے کا طریقہ سلیقہ ۔

»» بچوں کو ابتداء ہی سے ڈائننگ ٹیبل یا دسترخوان پہ سب کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھانے کی عادت ڈالیں بڑوں کی روٹین الگ ہو تب بھی کم از کم بچے ایک ساتھ بیٹھ کے کھانا کھائیں۔

»» بچوں کو الگ الگ وقت میں یہاں وہاں بیٹھ کے کھانا کھانے پہ روکیں -

»» کھانے کی اشیاء بیڈ رومز میں نہ لانے دیں۔

»» اکثر دیکھا ھے چھوٹے بچے فیڈر منہ سے لگا کے پورے گھر میں پھر رہے ہوتے ہیں بچوں کو فیڈر کا کانسپٹ یہ دیں کہ وہ بستر پہ لیٹیں گے تو انہیں فیڈر ملے گی اور فیڈر ختم کرنے کے بعد ہی وہ بستر سے اتریں گے اور اگر وہ بستر سے اتریں گے تو انہیں فیڈر چھوڑنی ہو گی۔ فیڈر کے استعمال کو بستر سے جوڑیں۔

»» میں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ شیشے کی فیڈرز استعمال کروائیں جو پلاسٹک کی فیڈرز سے ہر لحاظ سے زیادہ مفید ہیں کیونکہ ان کو صاف کرنا آسان ہے جب بچے فیڈر لے کے نہیں گھومیں گے تو ان کے ٹوٹنے کا ڈر بھی نہیں ھوگا۔ہاں لمبے سفر میں پلاسٹک کی فیڈرز استعمال کرتی تھی تاکہ گر کے ٹوٹنے کا خظرہ نہ ہو۔

»» ہمیشہ بچوں کو دودھ پینے کی دعا پڑھ کے دودھ تھمائیں۔"اللھم بارک لنا فیہ و زدنا منہ۔"

اسی طرح کھانا شروع کرنے کی دعا با آواز بلند پڑھ کے کھانا شروع کروائیں۔"بسم اللہ وعلی بارکة اللہ."

کھانا مکمل کرنے کی دعا پہ کھانا مکمل کروائیں۔"الحمد للہ الذي اطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمین"

اس طرح ان کو یہ دعائیں خود بخود یاد ہو جائیں گی اور تمام عمر دودھ پینے, کھانا کھاتے وقت کی یہ تمام دعائیں ان کے ذہن میں رہیں گی۔بچوں کو ہر عمل کے ساتھ دعاؤں کی گرہ شروع ہی سے باندھیں۔

»» بچوں کو ہمیشہ انہی برتنوں میں کھانا دیں جو گھر میں عام استعمال ہوتے ہیں بچوں کے برتن الگ مت کریں انہیں شیشے کے گلاس اور چینی کی پلیٹ میں ہی کھانے کی تمیز سیکھائیں انہیں پلیٹ اور گلاس سنبھالنا شروع سے ہی آجائے گا۔ اس میں شروع کا کچھ عرصہ تھوڑی سی برداشت اور بہادری دکھانے کی ضرورت ہو گی۔

»» کھانا کھاتے ہوئے بچوں کو گجیٹس استعمال کرنے مت دیں ان کے سامنے موبائل رکھ کے انہیں کھانا نہ کھلائیں بچوں کا پیٹ بھرنا ہی نہیں مائنڈ فل نیس بھی بے حد ضروری ہے ورنہ پیٹ بھر جاتا ھے نیت نہیں بھرتی ذہن تسکین نہیں پاتا تو ندیدہ پن رہ جاتا ھے۔

»» بچے بڑے ہونے لگیں تو انہیں لقمہ بنانا، سالن پلیٹ میں اتارنا سیکھائیں، ان کو سمجھائیں کہ اتنا نکالیں جتنا کھا سکیں، بہتر ہے تھوڑا تھوڑا کر کے نکالیں ضرورت پڑے تو دوبارہ لے لیں۔ ھم اکثر بڑے بڑے بچوں کو دیکھتے ہیں ماؤں کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں کہ پلیٹ میں کھانا نکال دیں اور اگر کبھی خود نکالنا پڑ جائے تو بے ڈھنگا پن چھلکتا ھے۔

»» بچوں کو سمجھائیں کہ کھانے کی میز پہ کھانا بڑوں سے شروع ہوتا ھے بچوں سے نہیں یہ تہذیب ہے۔

»» بچوں کو اس کے بہن بھائیوں اور گھر کے افراد کا جھوٹا گلاس یا کھانا کھانے سے کراہیت مت دلوائیں بچوں کے برتن فکس مت کریں ہاں اگر کوئی بچہ یا بڑا بیمار ہے تو اور بات ھے۔

»» بچوں کے سامنے کھانے پہ ریمارکس مت دیں عیب مت نکالیں ناک بھوں مت چڑھائیں۔ بچے فورا ًاپناتے ہیں۔

»» بچوں کو عادت ڈالیں کہ پلیٹ مکمل صاف کریں پلیٹ میں ایک دانہ بھی نہ چھوڑیں کھانا دسترخوان پہ نہ گرائیں یہ سنت ھے اور ایسا کرنے سے برکت والے حصے سے محرومی ہو سکتی ھے۔

»» سب کے ساتھ کھانا کھائیں تو کوشش کریں جب تک سب کھا نا لیں دستر خوان سے نہ اٹھیں۔ یہ آداب ہیں۔

»» کھانا کھا کے برتن سنک میں رکھیں کرسی واپس اندر کریں آپ کے پاس دس ملازم ہوں تب بھی۔

»» آخری بات اکثر بچے گھر کے باقی افراد کے طرز عمل پہ عادات اپناتے ہیں خاص طور پہ جوائنٹ فیملی میں رہنے والی مائیں یہ کہتی پائی جاتی ہیں کہ ہم کیا کریں ہمارے بچے نے فلاں سے سیکھا۔

»» یاد رکھیں آپ ماں ہیں بچوں پہ ان کی ماؤں کی چھاپ گہری ہوتی ھے اگر ماں کے بجائے کسی اور کا غلط اثر زیادہ ہونے لگے تو اس کا مطلب ھے ماں کی شخصیت کمزور ہے۔ کبھی بچوں کے معاملات میں ان کو سمجھانے اور سیکھانے میں دل برداشتہ نہ ہوں۔ہار نہ مانیں۔

اچھے گھرانوں میں کھانے کے آداب سے ہی لوگوں کی پہچان کی جاتی ہے اس پہ خصوصی توجہ دیں۔

تربیت:3

. واش روم استعمال کرنے کی عادات:

»» سب سے پہلے تو بچوں کو سمجھائیں کہ واش روم شیاطین کے مسکن ہیں ہمارے نہیں -اس لیے جلد سے جلد اپنا کام نمٹائیں اور باہر نکلیں۔

»» کیونکہ واش روم میں شیاطین پناہ لیتے ہیں اس لیے جب بھی واش روم جائیں دعا لازمی پڑھیں

اللھم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث

»» واش روم داخل ہوتے ہمیشہ باياں پاؤں پہلے اندر رکھیں۔

»» بیٹھ کے نہائیں، شاور سے بھی نہائیں تو اونچا اسٹول رکھ لیں۔

»» پانی ضائع مت کریں۔

»» واش روم میں بولنے اور گانے گانے سے مکمل احتراز کریں۔

»» واش روم سے باہر نکلیں تو داياں پاؤں پہلے باہر رکھیں اور کہیں غفرانک

»» شاور لے کے واش روم میں وائپر لگائیں۔

»» تمام اشیاء صابن، شیمپو، پیسٹ استعمال کے بعد ڈھکنے بند کر کے واپس اپنی جگہ پہ رکھیں۔

»» شاور لینے سے پہلے اپنا لباس اور تولیہ ساتھ رکھیں بہت سے بچے باتھ روم سے آوازیں لگا لگا کے چیزیں مانگتے ہیں یہ بہت خراب عادت ہے۔

»» اپنے میلے کپڑے باتھ روم میں چھوڑ کے آنے کے بجائے لانڈری میں لا کے رکھیں

»» گیلا تولیہ ہوا میں پھیلائیں۔

»» سب بچوں بڑوں کے تولیے الگ الگ رکھیں۔بچوں کو سمجھائیں کہ کسی بھی دوسرے کا تولیہ استعمال نہیں کرنا

»» منہ پونچھنے کے لیے چھوٹا سا رومال نما تولیہ الگ رکھیں۔ جسم پونچھنے کا الگ یہ سب ایک بار خریدنا پڑے گا کافی عرصہ چل جاتی ہیں یہ چیزیں-

»» منہ دھونے کا صابن الگ رکھیں اور نہانے کا الگ۔

»» مشترکہ واش روم میں ہاتھ دھونے کے لیے سنک پہ صابن کے بجائے ہینڈ واش رکھیں۔

»» بچے استعمال کے بعد فلش لازمی چلائیں۔

»» بچوں کو طہارت اور پاکیزگی کا کانسپٹ دیں۔

میرے تینوں بچے اوپر تلے کے ہیں چھوٹے ہوتے سے لے کے آج تک ایسا نہیں ھوا کہ میرے واش روم میں سمیل ہو یا کموڈ پہ یا باہر یورین کا ایک قطرہ بھی ہو۔

»» بچوں کی ٹریننگ کریں انہیں روز نہانے کا عادی کریں وہ خود روٹین سے نہائیں گے ورنہ بڑے ہو کے اکثر لوگ دیکھا جاتا ھے پسینہ آنے کے باوجود دو تین دن نہیں نہاتے۔

»» جب بچوں کی پوٹی ٹریننگ کریں تو پاٹ کے بجائے کموڈ رنگ commode ring یا seat استعمال کریں کموڈ رنگ کموڈ پہ ہی رکھا جاتا ھے کموڈ اونچا ہو تو بچوں کے پاؤں پہنچنے کے لیے سٹول رکھا جا سکتا ھے یہ سیف بھی ہے ہائی جین بھی ڈرین کرنا بھی آسان ہے۔

»» چھوٹے بچوں کا لباس بھی کسی کے سامنے تبدیل مت کریں۔

»» لباس تبدیل کرتے ہوئے بسم اللہ لازمی پڑھیں۔

تربیت: 4

اکثر دوست پریشان ہو کے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ بچوں کی پرفیکٹ ٹریننگ کے باوجود جب وہ بڑے ہوتے ہیں یا ٹین ایج میں جاتے ہیں توسب تربیت اصول چھوڑ دیتے ہیں۔اپنی مرضی کرتے ہیں۔

بات نہیں مانتے۔جو سکھایا اس کا الٹ کرتے ہیں۔وغیرہ

دوستو! یہ ہمارے "بچے" ہیں ربوٹ نہیں. -ہم نے انہیں اچھا برا سمجھانا ہے جب تک ہمارا کنٹرول ہے ان کو اچھائی پہ چلانا ہے اور بس۔جب یہ بڑے ہوں گے تو یہ اچھائی برائی کی تمیز خود کرنا چاہیں گے اچھائی برائی کو اپنے طریقے سے پرکھیں گے۔ اکثر برائی کی طرف لپکیں گے، متاثر ہوں گے، لیکن اب ان کے سامنے اچھائی بھی موجود ہو گی برائی بھی اس میں سے یہ خود فیصلہ کریں گے کہ کس کو اپنانا ہے۔

دوستو! جو حق ہے وہ حق ھے۔ جو سچ ھے وہ روز روشن کی طرح عیاں رہتا ھے۔اللہ پہ بھروسہ کریں۔

تربیت کا رنگ پکا ہوتا ھے۔والدین کی تربیت اور محنت رائیگاں نہیں جاتی۔مسئلہ وہاں ہوتا ھے جہاں تربیت نہیں ہوتی۔برائی تو نظر آتی ھے اس کے مقابلے میں اچھائی کی ٹریننگ نہیں ہوئی ہوتی۔بچوں کو جو نظر آتا ھے اسی پہ چل پڑتے ہیں دوسرا راستہ تو بتایا ہی نہیں گیا۔دوستو! ہم اچھی تربیت پہ محنت کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے بچے افلاطون ہیں۔وہ بہت سلجھے ہوئے، سمجھدار، تمیز دار، نیک اور شریف ہیں۔نہیں وہ "بچے" ہیں۔لیکن یاد رکھیں کہ "ہم بچے نہیں ہیں"۔وہ بیوقوفیاں کر سکتے ہیں ہمیں سمجھداری دیکھانی ھے۔وہ بھٹک سکتے ہیں ہمیں راہ راست پہ ہی رہنا ھے۔

»» ان کو آف اینڈ آن سمجھاتے رہیں روکتے ٹوکتے رہیں۔

»» ماں باپ میں سے کوئی ایک اپنا رعب لازمی رکھے اچھا ہو کہ باپ رعب رکھے وہ زیادہ پر اثر ھے مگر آج کل فرینڈلی باپ اور سخت ماؤں کا رواج ہے۔ بچے باپ سے نہیں ماں سے ڈرتے ہیں۔

»» دوسرا یہ کہ تحمل سے ان کو وقت دیں کہ وہ خود فیصلہ کریں اچھائی اور برائی کا، حق اور باطل کا۔

»» تب تک ان کے لیے دعا کریں دعا مومن کا ہتھیار ہے۔

»» سوچیں کہ ان کی عمر میں ہم کون سا افلاطون تھے۔ یا پرفیکٹ تھے۔ تربیت تو ہماری بھی ہوئی تھی۔ تب اثر اتنا نہیں دکھتا تھا جتنا اب ہے۔

»» اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم سمجھدار ہوئے تو ہمیں وہ سب یاد آگیا جو سیکھایا گیا تھا جس کی ٹریننگ کی گئی تھی۔ آج ہم بلکل ویسے ہیں جیسی ہماری تربیت ہوئی تھی۔

»» تو دوستو ! تربیت اہم ھے-

ٹریننگ پہ دھیان دیں یاد رکھیں ٹریننگ کے بنا بھاشن دینے سے کچھ نہیں ہونے والا۔

»» جو عادت ہڈیوں میں بیٹھ گئی ہو وہ کچھ عرصے کے لیے فراموش تو ہو سکتی ھے مستقل نہیں۔

پریشان ہونے کے بجائے بچوں کو ٹیکل کریں۔ اور اس ٹائم پیریڈ کو سہولت سے گزار دیں۔

تربیت: 5

"با ادب با نصیب"

گفتگو کے آداب۔بڑوں سے بات کرنے کی تمیز۔محفل کے آداب۔بچوں کو out spoken بنانا،

منہ پھٹ بنانا،ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی،بات کرنے کی تمیز نہ سیکھانا،کیا بولنا ہے کیا نہیں،

کیسے بولنا ہے کیسے نہیں،یہ سب توجہ طلب مسائل ہیں۔

آج کل والدین کی اکثریت بچوں کو اپنا باپ بنا کے پال رہی ہے۔ باپ فرینڈلی ہو گئے ہیں کنٹرول ماں کے ہاتھ میں ہے ماں نے لڑکوں کو گھر میں باندھ کے بٹھا دیا ہے باپ نے لڑکیوں کو شہ دے دے کے اوور کردیا ھے۔مائیں اپنے جوان جہان بچوں کی خدمت گزار ہو گئی ہیں۔باپ صاحبان نے جوتوں سمیت سر پہ چڑھا لیا ھے۔فیشن ہے باپ کو مذاق میں کچھ بھی بول دو۔کسی بڑے کو تڑاخ تڑاخ جواب پکڑا دو۔ فیشن ہے۔سب سے پہلے تو بچے کو یہ سیکھائیں کہ وہ بڑے کو بڑا سمجھے۔باپ گھر میں آئے تو نوٹس لے، سلام کرئے، پانی کا پوچھے، جوتے پیش کرئے،کتنا ٹائم لگتا ھے اس سب میں صرف پانچ منٹ۔یہ نہیں کہ باپ آئے یا جائے کوئی نوٹس نہیں کمپیوٹر اور موبائل پہ ٹکٹی فکس ہے تو فکس ہے، جیسے اوندھے پڑے ہیں ویسے ہی پڑے ہیں۔جو ادھم مچ رہا ہے سو مچ رہا ھے-بڑی بڑی بچیوں کو دیکھا ماں کو کہتے پانی پلا دیں۔باپ بائیک دھو رہے ہیں گاڑی صاف کر رہے ہیں جوان جہان لڑکے کمروں میں گھسے پتا نہں کون سا مستقبل بنا رہے ہیں۔مائیں کام کر کر کے گھس گئی ہیں لڑکیاں صرف سجنے سنورنے تک ہیں مجال نہیں ہاتھ بٹا لیں۔پھر مائیں فخر سے کہتی ہیں ہم نے کبھی بچی سے پانی نہیں مانگا اس کو تو کام کرنے کی عادت ہی نہیں ھے بھئی یہ کون سی فخریہ بات ہے پانی نہیں مانگا آپ نے اپنے بچے کو ثواب سے محروم کیا۔ باپ فخر سے کہتے ہیں جو منہ سے بات نکالتے ہیں پوری کرتے ہیں۔ ہر فرمائش پوری کرتے ہیں۔آپ نے کبھی نوٹ کیا بچوں کا والدین سے صرف فرمائش کا رشتہ رہ گیا ہے بچوں کی ماں باپ سے بات چیت کا ریکارڈ چیک کر لیں 75٪ فرمائشیں ہیں یہ دلا دیں وہ لا دیں۔یہ اور بات منہ سے نکلی بات پوری کرنے والے انہی بچوں کی شادی کرتے ہوئے اپنی پسند تھوپیں گے بچوں کی نہیں سنیں گے۔ نہ ان کی پسند کو کبھی اپنائیں گے ان کی زندگیاں اجیرن کریں گے یہ پتا نہیں کون سی منافقت ہے۔بچوں کو سیکھائیں کہ وہ

1. بڑوں کو بڑا سمجھیں۔2. گھر میں باپ یا کوئی مہمان یا کوئی بھی بڑا داخل ہو تو سب کام چھوڑ کے سلام کریں ادب سے ملیں۔3. کسی کمرے میں جہاں بچے پہلے سے بیٹھے ہیں کوئی بھی بڑا داخل ہو کھڑے ہو جائیں، جگہ خالی کریں- اکثر تو بڑے خود ہی جگہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں کہ کہاں بیٹھیں چھوٹے ٹس سے مس نہیں ہوتے.4-بڑوں کی طرف متوجہ ہوں ان کی بات دھیان سے سنیں موبائل فون استعمال نہ کریں۔5. بڑوں کے سامنے کمپوز ہو کے بیٹھیں، ٹانگ پہ ٹانگ نہ چڑھائیں، پاوں پھیلا کے بھی نہ بیٹھیں،بازو اور ٹانگیں بھی یہاں وہاں بکھیر کے نہ بیٹھیں۔6. بڑوں کی بات مت کاٹیں۔

7. ڈائننگ ٹیبل پہ اب بچے پہلے بیٹھتے ہیں بڑے پیچھے کھڑے رہتے ہیں بچوں کے کھانا مکمل ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ ایسا سسٹم بنائیں کہ بچے بڑے سب بیٹھ سکیں-8. تمیز یہ ہے کہ ڈائننگ ٹیبل پہ کھانا پہلے گھر کے بڑے نکالیں گے پھر بچے۔اچھے بھلے بڑے بچوں کو سب سے پہلے جلدی جلدی پلیٹیں بھرتے دیکھا۔9. بڑوں کو کھانا سرو کریں پانی کا گلاس بھر دیں، سالن کا ڈونگہ قریب کر دیں روٹی پلیٹ میں رکھ دیں۔10. بچے بڑوں کی آواز پہ سنی ان سنی نہ کریں۔

پڑھائیوں کے ہوئے بنائے ہوئے ہیں مجھے بتائیں کس کے بچوں نے سارے مینرز، تمیز، تہذیب چھوڑ کے پڑھ پڑھ کے گولڈ میڈل لے کے کون سے کمال کیے ہوئے ہیں ہسپتالوں میں چلے جاؤ ڈھنگ کا ڈاکٹر نہیں ملتا کسی بھی شعبے میں ایکسٹرا آرڈینری لوگ نہیں ہی آخر یہ 99٪ والا ٹیلنٹ جا کہاں رہا ھے۔بہتر ھے بچوں کو تمیز تہذیب بھی ساتھ ساتھ سیکھائیں۔ اس سے وقت ضائع نہیں ہوتا تقدیر سنورتی ھے۔

لاکھوں روپے کی فیس دے کے بڑے بڑے سکولز میں پڑھنے والے اکثر بچے محفل میں بیٹھ کے چار لفظ نہیں بول سکتے۔ بڑوں کو چاہیے بچوں کو محفلوں سے اٹھا دینے کے بجائے ان کو محفلوں میں شامل کریں وقت بدل گیا ھے ان سے رائے طلب کریں بات چیت کریں۔بچوں سے مختلف موضوعات پہ تبادلہ خیال کی غرض سے سوال جواب کریں۔جب بھی کوئی بڑا فیصلہ کریں بچوں کو مکمل سیاق و سباق سمجھائیں ان کی رائے لیں اپنے فیصلے کی وجوہات اور نقطہ نظر کی وضاحت کریں۔بچہ جس بھی عمر میں ہے اسے اپنے ساتھ محفلوں میں بٹھائیں وہ آپ کے تجربات سے، گفتگو سے، طرز عمل سے، سیکھے۔بچے کو گفتگو میں شامل کریں۔آج کل بچے کمرے اور موبائل فون تک کیوں محدود ہیں اس ٹرینڈ کو ختم کریں۔

تربیت: 6

سوال-بیشتر بچے اب ہاتھ سے نکل چکے ہیں-تمیز و تہذیب کی راہ راست پہ واپس کیسے لائیں

 یہی ملین ڈالر سوال ہے۔ ایسی بیشتر باتیں دقیانوسی سمجھتے ہیں۔

جواب-بات چیت کر کے -پہلے تو والدین کا مائنڈ کلئیر ہو کہ وہ واپس لانا بھی چاہتے ہیں یا وہ بھی اسی سوچ کے ہیں اور اگر والدین کا مائنڈ بدل گیا ھے تو وہ صرف اتنا کریں کہ بچوں کے سامنے اعتراف کریں کہ کیا ہونا چاہیے تھا اور جو ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا اس کی وجوہات اور نتائج سب بتائیں اور ڈسکس کرنے کے وے میں بتائیں اس سے یہ بلکل نہیں ھو گا کہ یہ بچے سدھر جائیں گے فوری ٹھیک ہو جائیں گے لیکن اس سے یہ ضرور ہو گا جب یہ نسل اپنے بچوں کی تربیت کرئے گی تو یہ سب باتیں جو صرف باتیں ہیں وہ ان کے دماغ میں کلک کریں گی اور امید کی جا سکتی ھے کہ بہتری آئے گی۔

تربیت: 7

لاجک-یہ لاجک کا دور ہے. بچے ہر چیز کو جانچنا چاہتے ہیں۔ پرکھنا چاہتے ہیں خود تجزیہ کرنا چاہتے ہیں۔

ہم میں سے اکثر لوگ تربیت کرنے کا مطلب صرف حکم دینے اور عمل کروانے کو سمجھتے ہیں۔وقت کا تقاضاہے اب اس حکم کے ساتھ دلیل کو بھی شامل کیا جائے۔کون سا کام کیوں کرنا چاہیے یہ بھی ساتھ سمجھائیں۔ بچوں کو لاجک کی گرہ ميں باندھیں۔یہ ذہن سازی کہلاتی ہے جب ایک چیز پہ ذہن بن گیا تو اسے بدلنا مشکل ہوتا ھے جبکہ بڑی سے بڑی عادت وقت کے ساتھ بدل جاتی ہے اور حکم تو بس تب تک کارگر ہے جب تک بچے والدین پہ انحصار کرتے ہیں جیسے ہی خود انحصاری آئی حکم نامے پھاڑ دیے جاتے ہیں۔اب لاجک کیا ھے مثال سے سمجھاتی ہوں-

حکم : ناخن بڑے ہو گئے ناخن کاٹ لو۔

عادت: جب تک بچوں کو اپنے ناخن کاٹنے نہیں آئے ماں نے روٹین سے ناخن کاٹ دیے۔

لاجک: بیٹا ناخن کاٹ لو، لمبے ناخن میں شیاطین پناہ لیتے ہیں یہ شیاطین ہمارے اسقدر قریب رہ کے ہمیں ڈراتے ہیں ہم پہ حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔شیاطین کیا ہیں bad forces ہیں جو ہمیں برائی پہ اکساتی ہیں۔اس کے علاوہ جتنا بھی خیال رکھ لو ان ناخنوں میں میل پھنستا ہے جراثیم پلتے ہیں جو کھانے میں شامل ہو کے ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں بیمار کرتے ہیں۔اور اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ایک ایک عمل ہمارے پیارے نبی نے سیکھایا ہے۔پیارے بچو! ہمارے پیارے نبی کا ایک ایک اسوہ ان کی ذاتی پسند نا پسند پہ نہیں بلکہ ہماری بھلائی کے لیے ہے۔سنت پہ عمل کرنے سے بھلائی بھی ملتی ھے ثواب بھی اور یہ پیاری نبی سے محبت کا اظہار بھی ہے۔یہ سب بتاتے بتاتے ناخن کاٹیں اب بچوں کو عادت بھی ہو جائے گی اور افادیت بھی پتہ ہوگی۔ہم نے کیا کیا عادت کے ساتھ لاجک کی گرہ بھی باندھ دی۔ساتھ اللہ سے دعا کر دی کہ توفیق اور ہدایت دینا تیرا ذمہ ھے مالک۔اب جو بات گھٹی میں ڈال دی ہڈیوں میں رچ بس گئی اسے چھوڑنا اتنا آسان نہیں ھے۔ اور دعا کا مضبوط حصار بھی ہے-اسی طرح بچوں کو جو بات بھی کرنے کا کہیں یا روکیں اس کی وضاحت کریں اس کا نفع نقصان سمجھائیں۔ہر بار سمجھائیں۔ کبھی ہار نہ مانیں۔ایک ایک بات کے پیچھے لاجک ہے خود بھی سیکھیں بچوں کو بھی سیکھائیں۔

تربیت: 8

سوشلائزیشن 23 نکات

1 »» بچوں کو سوشلائز کرنا لوگوں سے ملوانا ان کی تربیت کا اہم جز ھے.

2 »» قریبی رشتے داروں، دوستوں کے گھروں میں ابتداء ہی سے بچوں کو ساتھ لے کے جائیں۔ بچے جب بڑے ہونے لگتے ہے تو پڑھائی کي مصروفیات کی وجہ سے شاید ملنا جلنا اتنا آسان نہیں رہتا اس لیے بچوں کو چھوٹے ہوتے ہی سوشلائز کریں۔

3 »» بچوں کو لوگوں سے ملوائیں جب آپ کے گھر کوئی آئے تمام بچوں کو پابند کریں کہ وہ سلام دعا لازمی کریں۔مہمانوں کو اٹینڈ کرنا سیکھائیں۔

4 »» جب خود مہمان بن کے جائیں تو اس کے مینرز سمجھائیں۔ مثلاً سلام کرنا،گرم جوشی سے ہاتھ ملاتا

نظر ملا کے بات کرنا ،سب سے پہلے جا کےدھپ سے نہ یٹھ جانا بلکہ بڑوں کے بیٹھنے کا انتظار کرنا۔جہاں میزبان کہے وہیں بیٹھنا یہ نہیں کہ یہاں وہاں کمروں میں گھسا جائے۔میزبان کے گھر کے فریج، الماری، درازیں نہ کھولنا یہ بہت بڑی بد تہذیبی ھے۔میزبان بچوں کے کھلونے ، کلرز ، کتابیں ان کی آفر کے بنا یا ان کے پوچھے بنا اٹھانا۔میزبان کے گھر سے کوئی چیز اٹھا کے ساتھ گھر لے آنا۔ناشتے کے لوازمات کو ندیدوں کی طرح دیکھنا۔سب سے پہلے پلیٹ بھر لینا۔پوری کی پوری سرونگ ڈش چٹ کر جانا۔

کھانے پہ کمنٹ کرنا کہ مرچیں ہے اچھا نہیں ھے( بہتر ہے چھوٹے بچوں کو مائیں اپنی پلیٹ میں سے پہلے چکھائیں اگر وہ پسند کریں تو ان کی پلیٹ میں نکال دیں)یہاں وہاں چلتے ہوئے کھانا یا پینا۔ وغیرہ

5 »» بچوں کو "بچہ ہے" کہ کے اگنور مت کریں اچھا برا ساتھ ساتھ بتائیں ہاں وہ بچہ ھے کبھی عمل کرئے گا کبھی نہیں عادت آہستہ آہستہ ہی بنے گی مگر سمجھانا والدین کی ذمہ داری ہے سمجھاتے رہیں سمجھانے کی ذمہ داری وقت پہ نہ چھوڑیں۔

6 »» بچوں کو وقتاً فوقتاً اپنے ساتھ شاپنگ پہ لے جائیں خاص طور پہ گروسری کرتے ہوئے ساتھ رکھیں ان سے رائے لیں ان کو چلتے چلتے بتاتے رہیں کہ آپ کے لیے کیا چیز کیوں اچھی ہے۔۔؟ آپ کو یہی چیز کیوں سوٹ کرتی ھے۔۔؟ کیا چیز کیوں سوٹ نہیں کرتی۔۔مہنگی ہے،معیاری نہیں، آپ کی ضرورت کے حساب سے نہیں وغیرہ-معیاری چیز کی پہچان کیا ہے، کس طرح کی چیز خریدنے سے بچنا چاہیے۔بچوں کو ٹیگ پڑھنے اور اشیاء پہ لکھے اجزاء پڑھنے کی عادت ڈالیں بچوں کی ذہن سازی ہوتی رہے گی ان کو شروع ہی سے چیزوں کی پہچان ہو گی۔

7 »» اکثر بچوں کو انکی اپنی شاپنگ پہ ساتھ لے جائیں ان کی پسند پوچھیں کون سا رنگ پسند ھے کون سا ڈیزائن اس سے آپ کو بچوں کی پسند نا پسند پتا چلے گی بلکہ بچوں کو خود بھی اپنی پسند نا پسند کا ادراک ہو گا۔ یہاں بھی بچوں کو ساتھ ساتھ بتاتے رہیں لباس کے کون سے رنگ اور چیزوں کے کون سے فیچرز پہلے سے موجود ہیں دوبارہ نہیں لینے کیونکہ ورائیٹی ہونی چاہیں۔ کیسا لباس کس موقع پہ کیسے موسم میں منتخب کرنا چاہیے یہ سب گائیڈینس دیتے رہیں۔

8 »» بچوں کے ساتھ ڈرائیو پہ جائیں تو انہیں جگہوں، سڑکوں، چوکوں کے نام بتاتے جائیں۔ مشہور عمارات کا بتاتے جائیں۔ اس کے ساتھ ٹریفک کے قوانین سمجھاتے جائیں۔ روڈ سینس کیا ہوتی ھے بتائیں۔

9 »» جب بچے کچھ سمجھدار ہو جائیں تو ان سے بجٹ بنوائیں کسی ٹور یا کسی شادی فنکشن اٹینڈ کرنے کا بجٹ،تحائف کا بجٹ، کسی دعوت کا بجٹ اور دعوت کا مینیو سیٹ کروائیں۔

10 »» یہ بہت اہم ہے کہ بچوں کے دوستوں سے رابطے میں رہیں آپ کو پتا ہونا چاہیے بچوں کے دوست کون ہیں۔ اور آپ کے بچوں کا دوستوں سے رویہ کیسا ہے۔

11 »» نا محسوس انداز سے کبھی بچوں کی آپس میں ہونے والی گفتگو سنیں اس سے پتا چلتا ھے آپکا بچہ کیا سوچتا ہے کیا دیکھتا ھے کیا کرتا ھے۔ بچوں کے وہ پہلو بھی سامنے آتے ہیں جو آپ کو معلوم نہیں ( اس کا مطلب ان کی کالز ریکارڈ کرنا یا ان کی سی ائی ڈی کرنا نہیں ہے)

12 »» تھوڑے بڑے بچوں کو ڈائریکٹ کے بجائے ان ڈائریکٹ سمجھائیں کسی اور پہ بات رکھ کے اس تک اپنا پیغام پہنچائیں۔

13 »» شخصیات، ان کے طرز عمل اورحالات و واقعات کو کیس سٹڈی کے طور پہ بچوں سے ڈسکس کریں۔ بدخوئی اور گوسپ کے بجائے سبق حاصل کرنے کے لیے۔ کون اپنی کس خوبی کی وجہ سے کامیاب ہوا کون کس خامی پہ قابو نہ پانے کی وجہ سے ناکام ہوا وغیرہ

15 »» اپنے معاملات کھلی کتاب کی طرح بچوں کے سامنے رکھیں ان سے حقائق کبھی مت چھپائیں آپ نے زندگی میں جو قدم اٹھائے جو فیصلے لیے ان پہ بچوں کو اعتماد میں لیں۔

15 »» اصولوں پہ سختی کریں رویہ دوستانہ رکھیں کہ بچہ کبھی اپنی بات آپ سے چھپائے نہیں۔

16 »» بچوں کے ساتھ بیر مت باندھیں سرزنش کریں اور نارمل ہو جائیں۔

17 »» بچوں کو اینگر مینیجمنٹ سیكھائیں جب ان کو غصہ آئے تو وہ کیا کریں۔ بچوں کو بتائیں کہ غصہ آنا نارمل ہے غصے میں انتہائی قدم اٹھانا غلط ہے۔

18 »» بچوں کو دنیا سے خوف دلانے کے بجائے دنیا میں موو کرنا سیکھائیں کوئی غلطی ہو جائے تو حالات و واقعات سے سبق لے کے آگے بڑھ جانا سیکھائیں۔

19 »» بچوں کو مثبت مقابلہ کرنا سیکھائیں جس میں مقابلہ کرنے والے کی ٹانگ نہیں کھینچی جاتی بلکہ سپورٹ کی جاتی ہے -

آج کل بچوں میں دوسرے بچوں سے پڑھائی اور مارکس میں حسد اور مقابلہ ہوتا ہے - بچے دوسرے بچوں کو مس گائڈ کرتے دیکھے۔ یہ بہت غلط رویہ ہے یہ چیزیں شروع سے کنٹرول کریں اپنے بچے کی شخصیت داغ دار میلی کچیلی نہ ہونے دیں۔

20 »» جوائنٹ فیملی والے بچے زیادہ سمارٹ موو کرتے ہیں اگر صحیح گائیڈ کیا گیا ھو تو۔۔۔۔ ان کو مختلف مزاج کے لوگوں کے ساتھ رہنا سہنا برتنا بہتر طور پہ آتا ھے۔

21 »» ہر بچہ یونیک ہے ہر بچہ اہم ھے کبھی کسی بچے کا دوسرے بچے سے موازنہ نہ کریں۔

22 »» دوسرے بچوں کی خوبیاں ماننا اور سراہنا سیکھائیں-

23 »» سب سے اہم بچوں کو سیکھائیں دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں اچھے اور برے،اچھے لوگوں سے ہم نے اچھائی سیکھنی ہے اور برے لوگوں سے ہم نے سیکھنا ھے کہ ہمیں ان جیسا نہیں بننا۔

تربیت : 9

معیاری لائف سٹائل-ہم میں سے اکثر لوگ "معیاری" کا مطلب "مہنگی" لیتے ہیں۔اور "لائف سٹائل" کا مطلب صرف شاندار گھروں میں رہنا، آئے دن کی ہوٹلنگ، برینڈڈ شاپنگ، مہنگی سکولنگ، کھلونوں کی فراوانی لیتے ہیں.»» ہم اکثر لوگوں سے سنتے ہیں فلاں کے بچے اتنے بڑے سکول میں پڑھتے ہیں نہ کھانے کی تمیز ہے نہ بات کرنے کی۔

یاد رکھیں تمیز گھر سے سیکھی جاتی ھے جو گھر سے بد تہذیب ہیں وہ باہر بھی بد تہذیب ہیں۔

»» اکثر لوگ کہتے ہیں ہم بچوں کے منہ سے نکلی ہر بات پوری کرتے ہیں۔جس چیز کی فرمائش کریں وہ لے کے دیتے ہیں۔ یہ بھی کوئی قابل فخر بات نہیں ہے بچے نا سمجھ ہیں آپ تو نہیں۔

»» کچھ بے فکر ہیں کہ ابھی تو یہ چھوٹے ہیں بڑے ہوں گے تو خود سیکھ جائیں گے۔ یاد رکھیں زمانہ مار کے سیکھاتا ھے ماں  باپ پیار سے۔

»» کچھ لوگ بچوں کو ہوٹلنگ کروانا اور مہنگے لباس پہنانے کو تربیت کرنا سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ والدین کو سوجھتا ہی نہیں بچوں کے لیے کیا کریں۔

محترم والدین اگر آپ کے پاس وسائل ہیں تو بچوں کی شخصیت سازی کے لیے یہ اقدامات کر سکتے ہیں۔

سیاحت

بچوں کو ایکسپوژر دینے کے لیے سیاحت پہ پیسہ لگائیں اس سے ان کے ذہن کھلتے ہیں۔ ان کا وژن بڑا ہوتا ھے۔ یہ بڑے کینوس پہ لوگوں اور چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں۔خدا کی بنائی ہوئی دنیا کا حق ہے کہ اسے دیکھا جائے اور سراہا جائے۔پھر جب بچے سفر کرتے ہیں تو نئی جگہوں کی مختلف تہذیب سیکھتے ہیں دوسروں کے طرز عمل سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ انہیں رہنا سہنا ، بات چیت کرنا، مختلف کو قبول کرنا، ماحول کو اپنانے اور اجنبیوں میں اپنا تاثر بنانے کا فن آتا ھے۔ان کو تجزیہ کرنا آجاتا ھے کہ ہم میں اور ان میں کیا فرق ھے اور کیوں ہے اور کس طرح اچھی عادات کو اپنا کے ترقی کی جا سکتی ھے۔ بچے ایک وسیع کینوس پہ دنیا کو دیکھتے ہیں تو تنگ نظری اور تنگ دلی دور ہوتی ھے۔سیاحت میں بچوں کو مالز کے بجائے فطرت کے قریب لے کے جائیں پاکستان میں پہاڑ آپ کی دسترس میں ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو قومی ورثہ دیکھائیں تاریخی مقامات دیکھائیں۔بچوں کو ٹرین ، جہاز ، بس سب پہ سفر کا ایکسپوژر دیں۔

دوسری اہم بات ہر بار مہنگے کھلونوں اور آئے روز کی ہوٹلنگ سے کئی درجے بہتر بچوں کو صحت بخش سرگرمیوں کی طرف راغب کریں جیسے اپنے شہر میں سوئمنگ کلب جوائن کروا دیں رائڈنگ سیکھوائیں، مارشل آرٹ، سیلف ڈیفنس، سکاؤٹس تربیت، شوٹنگ وغیرہ کی کلاسز جوائن کروائیں۔اس کے علاوہ ان کے انٹرسٹ کے کھیل جیسے کرکٹ ، فٹ بال، سکوائش، ٹینس ، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس، والی بال وغیرہ کے باقائدہ کوچنگ کلب جوائن کروا کے سیکھائیں۔بچوں کو شطرنج کھیلنا سیکھائیں نشانہ بازی سیکھائیں یہ ذہنی ورزش کے لیے شاندار گیمز ھیں۔

کورسز-اس کے علاوہ لینگویج کورسز کروائیں دنیا کی مختلف زبانیں سیکھنا ایک بے حد مفید سرگرمی ہے

عربی، انگلش، فارسی ، فرنچ، جرمن،چینی اور دیگر زبانیں سیکھائی جا سکتی ہیں۔اس کے علاوہ فوٹو گرافی، پینٹنگ، ہینڈی کرافٹ، بیکنگ، DIY کورسز وغیرہ کروائے جا سکتے ہیں۔بچوں کو جیوگرافی کے کورسز کروائیں۔کوئک میتھ پڑھوائیں-

سوشل میڈیا-بچوں کو موبائل گیمز کے بجائے موبائل سے کمانا سیکھائیں مختلف سکلز سیکھیں اور کمائیں۔بچوں کو گولز اور ٹارگٹس دیں اور ہر تحفے کو کسی ٹارگٹ سے جوڑیں اس سے ان میں موٹیویشن بھی پیدا ہوگی اور تحفہ ملنے پہ سینس آف اچومنٹ بھی۔

لائف سٹائل یہ بھی ہے کہ ہمیشہ دینے والوں میں رہیں بچوں کو خرچ کرنا سیکھائیں لوگوں کی مدد کرنا سیکھائیں چیریٹی اور سوشل ورک کروائیں۔ آپ کروڑ پتی ہیں تب بھی بچوں کو اپنا مقام بنانے اور پیسہ کمانے کے لیے محنت کا راستہ دیکھائیں ان کو سمجھائیں کہ باپ کے مال پہ فخر کرنے کے بجائے خود کما کے کھائیں۔اگر اللہ نے آپ کو چار پیسے زیادہ دے کے باقیوں سے ممتاز کیا ہے تو آپ اپنی اعلی ظرفی، مہربانی اور اچھے اسلوب سے خود کو اس کا اہل ثابت کریں اپ کا کردار و اخلاق بھی باقیوں سے ممتاز ہونا چاہیے -یہی معیاری لائف سٹائل ہے-

تربیت : 10

خود انحصاری اور خود پہ قابو

Self- dependency & self- control

ہمارے یہاں باپ اپنی پوری زندگی حرام کر کے زمین اور جائیداد بناتا ہے تاکہ بعد میں اس کی اولاد عیش کرئے انہیں کوئی پریشانی نا ہو۔اور اولاد باپ کے مرتے ہی اسی زمین اور جائیداد پہ لڑ لڑ کے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے کی روادار بھی نہیں رہتی وہی جائیداد اور اس کے جھگڑے ان کی زندگی حرام کیے رکھتے ہیں۔بعض والدین خود پہ اور بچوں پہ مناسب خرچ کرنے کے بجائے پیسہ جوڑ جوڑ کے مال بناتے ہیں بچوں کو تنگی میں پالتے ہیں کہ زمین خرید لیں ان کے کام آئے گی بچوں میں احساس کمتری، ندیدہ پن اور حرص بیٹھ جاتی ہے پھر والدین کے جانے کے بعد وہ اس جائیداد کو اس بے دردی سے اڑاتے ہیں کہ رہے رب کا نام۔ تھوڑے عرصے میں سب کچھ اڑا کے وہ بلکل تہی دست ہو کے بیٹھ جاتے ہیں۔ایک رہائشی گھر تک تو ٹھیک ہے کہ اپنے لیے چھت بنا لی جائے لیکن ہمارا مائنڈ سیٹ ہے كہ اوقات سے بڑا گھر بنائیں گے چار آنے جیب میں ہیں تو قرض لے کے آٹھ آنے خرچ کریں گے اور پھر ساری عمر قرضے اتارتے رہیں گے اس کی مین ٹینس پہ پیسہ لگاتے رہے ہیں اس سے فارغ ہوں گے تو مزید پلاٹ دکانیں زمینیں خریدتے رہیں گے۔

محترم والدین: 1»» اولاد "کے لیے" جائیداد بنانے کے بجائے اولاد " کو" اپنی جائیداد بنائیں۔

2»» بچوں کو دولت کو برتنا سیکھائیں بچوں پہ خرچ کر کے انہیں صحیح طور پہ خرچ کرنا سیکھائیں ان کے لیے جائدادیں بنانے سے بہتر ہے انہیں اچھا لائف سٹائل دیں۔

3»» آپ انہیں انسان بنائیں اپنی ضرورت کے لیے جائیداد یہ خود بنا لیں گے اولاد کے لیے مال چھوڑ کے جانے کا کانسپٹ ختم کريں مال کے بجائے اچھی صلاحیت و کردار والی نیک اولاد چھوڑ کے جائیں۔

4»» اپنے بچوں کو اپنی جائیداد سمجھیں ان کی تعلیم اور تربیت پہ پیسہ اور وقت صرف کریں ۔

5»» جائیدادیں بنانے سے بہتر ھے بچوں کے قوت بازو مضبوط کریں ان کو اس قابل بنائیں کہ وہ اپنے لیے خود کما کے عیش کر سکیں۔

6»» بچوں کو ان کی عمر کے حساب سے خود انحصاری کی طرف لے کے جائیں ہمارے یہاں بچوں کو کبھی بڑا ہونے نہیں دیا جاتا۔

7»» بچوں کو اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالیں۔ شروع میں ان کی مدد کریں پھر کام ان پہ چھوڑ کے صرف راہنمائی کریں آخر میں صرف مانیٹر کریں کہ وہ کچھ غلط تو نہیں کر رہے۔

8»» بچوں کو عمر کے حساب سے اپنے کھلونے سمیٹنا احتیاط سے رکھنا سیکھائیں۔

9»» سکول جانے لگیں تو اپنے بیگ مینیج کرنا کتابیں ترتیب سے رکھنا پنسل, اریزر، شارپنر سنبھالنا سیکھائیں۔

10»» بچوں کی الماری یا دراز فکس کردیں جس میں وہ اپنی چیزیں رکھ سکیں اپنی الماری سے اپنے لیے کپڑے خود سلیکٹ کرنا سیکھائیں انہیں بتائیں کہ کون سے ڈریس روزمرّہ کے استعمال کے ہیں کون سے شادیوں فنکشنز کے کون سے کہیں آنے جانے کے۔ ان کو کلرز کی ترتیب سمجھائیں کہ کیسے روز مختلف رنگوں کا انتخاب کرنا ہے۔

11»» بچوں کو اپنے ہر کام کے لیے ابتداء ہی سے عادی کریں کھانا خود کھانے دیں، سالن پلیٹ میں نکالنے دیں، کھانے کے برتن سمیٹنا، میز صاف کرنا، میلے کپڑے میلے کپڑے کی باسکٹ میں، تولیہ الگنی پہ رکھنا، گھر کو صاف رکھنا، بیڈ کی چادر سیدھی کرنا ، اپنے کمبل طے کر کے رکھنا وغیرہ

12»» بچے کچھ بڑے ہو جائیں تو اپنے لیے چھوٹی چھوٹی چیزیں خود بنانے دیں آپ سپروژن کریں چولہے کا کام 12,13 سال کی عمر کے بعد سیکھائیں۔

13»» بچوں کو موبائل میں سکلز سیکھائیں اور چھوٹے موٹے کام پہ لگائیں جس سے وہ کما سکیں۔ گریجویشن والے بچے اپنے لیے کم از کم اتنا کمائیں کہ پاکٹ منی بنا سکیں اور زیادہ سے زیادہ اتنا کہ پڑھائی کا خرچہ اٹھا سکیں۔

14»» جائیداد سے بہتر سے بچوں کی تعلیم پہ خرچ کریں اچھے معیاری اداروں سے پڑھائیں۔

15»» ان کو ایکسپوژر دیں ان کی تربیت کے لیے ان کو دنیا دیکھائیں۔

16»» ان میں بچپن ہی سے احساس ذمہ داری پیدا کریں اپنے بہن بھائیوں کا احساس، خیال رکھنا، والدین کا خیال رکھنا، دوستوں رشتے داروں کی کئیر اور اس سب سے پہلے اپنی کئیر اور احساس کرنا۔

ہمارے یہاں ایک انتہا یہ ہے کہ والدین اپنی پرواہ ہی نہیں کرتے کہ ان کی اپنی بھی ضروریات ہیں، خواہشات ہیں، اان کو بھی تفریح کی ضرورت ہے، اچھا کھانے اور پہننے کی ضرورت ہے۔ ان کو بھی آرام سکون چاہیے۔ دوسری انتہا پہ ان کے بچے پہنچ جاتے ہیں صرف اپنے بارے میں سوچنے والے کہ مجھے اس وقت کیا چاہیے کیا پسند آرہا ہے کیا نا پسند ہے سب میری ہی سیوا کریں میرا ہی خیال رکھیں یہ دونوں رویے غلط ہیں -اپنے اور اپنے بچوں کے لیے درمیانی راستہ منتخب کریں نہ خود ضرورت سے زیادہ قربانیاں دیں نہ اولاد سے قربانیاں مانگیں۔

17»» بچوں کو اپنی پسند سے شاپنگ کرنے دیں چھوٹے ہوتے ہی چیزیں سلیکٹ کروائیں۔ لیکن گائیڈنس جاری رکھیں برا بھلا سمجھاتے رہیں۔

18»» بچوں کو محنت کا عادی کریں۔

19»» بچوں کو زیادہ دیر فضول میں فارغ لیٹنے یا بیٹھنے نہ دیں۔

20»» بچوں کو ان کی پسند کی تعلیم حاصل کرنے دیں اپنی مرضی کے سبجیکٹ لینے دیں اور اگر ان کو کسی سبجیکٹ کی طرف رجحان دلوانا ہو تو اس کا بہت آسان اور سادہ طریقہ ہے کہ اس سبجیکٹ کا استاد اچھا ہو جو انہیں پیار محبت سے گھول کے پلا دے۔اکثر بچوں کو بہت سے سبجیکٹ استاد کی وجہ سے پسند اور نا پسند ہوتے ہیں اس پہ نظر رکھیں۔

21»» بچوں کو کالج پہنچتے کے بعد اچھے اور برے لوگوں کے بارے میں تفصیل سے سمجھائیں اور ان کو بتائیں کہ دوست کیسے ہونے چاہیں اور جو دوست نہ ہوں ان کے ساتھ رہنا سہنا بھی سیکھائیں۔

22»» بچوں سے ان کے لائف پارٹنر کے بارے میں ڈسکس کرتے رہیں ان کا مائنڈ بناتے رہیں لیکن اپنی پسند نہ تھوپیں کچھ معیار سیٹ کر کے باونڈریز بنا کے ان کو ان کی پسند پہ چھوڑ دیں اپنی پسند مسلط نہ کریں.

23»» بچوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ خود کمائیں ان کو اپنے ساتھ باندھیں مت۔

24»» بچوں کو ان کی شادیوں کے بعد ان کی اپنی زندگی کے معاملات اور فیصلوں میں آزاد کر دیں۔

25»» خود انحصاری صرف معاملات اور معاش کی نہیں ہوتی بلکہ موڈز اور جذبات کی بھی ہوتی ھے۔

26»» اپنی خوشی خود بنیں۔

27»» دوسروں میں اپنی خوشیاں، اطمینان، سکون تلاش مت کریں۔

28»» دوسروں کے خراب رویوں سے خود کو ڈسٹرب نہ کریں پر سکون رہیں.

29»» دوسروں کو اپنے موڈ کنٹرول نہ کرنے دیں وہ جب چاہیں آپ کو غصہ دلا دیں جب چاہیں جذباتی کر دیں جب چاہیں چڑائیں وغير ہ (لیکن لا ابالی پن، خود غرضی، لا پروائی، ڈھٹائی، خود غرضی یہ سب منفی ترین چیزیں ہیں ان کو کبھی اپنے اندر پنپنے نہ دیں(

خود پہ قابو:Self control

1»» أپ کتنے ہی صاحب استطاعت کیوں نہ ہوں اعتدال سے رہیں بچوں کے لیے ہر چیز میں ایک حد مقرر کریں ہوٹلنگ، جنک فوڈ(چاکلیٹ، پیزا، برگر، کولڈ ڈرنک)۔

2»» ان کی ہر خواہش پوری نہ کریں۔

3»» انہیں انتظار اور صبر کرنا سیکھائیں۔

4»» انہیں اپنی خواہشات پہ قابو پانا سیکھائیں۔

5»» انہیں اپنے جذبات اور غصے پہ قابو پانا سیکھائیں۔

6»» انہیں اینگر مینجمنٹ سیکھائیں۔

7»» انہیں غصے اور ناراضگی ( anger) کو چینلائز کرنا سیکھائیں۔

8»» ان کو مختلف کو برداشت کرنا سیکھائیں۔

9»» دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سیکھائیں۔

10»» دوسروں سے اختلاف کے باوجود ان کے ساتھ چلنا سیکھائیں۔

11»» ان کو بتائیں دنیا میں سب کچھ ہماری پسند کا نہیں ہوتا ہماری فیور میں نہیں ہوتا ہمیں اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا آنا چاہیے۔

12»» اس کے ساتھ ہی ہمیں کسی بھی شخص کو، حالات کو خود پہ حاوی نہیں کرنا ہمیں اپنی زندگی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے۔

13»» بچوں کو بتائیں کہ اگر آج کا دن خراب ہے تو یہ قسمت خراب نہیں ھے کل کا دن اچھا ہو گا اس اچھے دن کا انتظار صبر و استقامت سے کریں اس برے دن کو ہمت و حوصلے سے گزاریں مثبت رہیں اور اچھے دن کے لیے محنت کریں۔