دين و دانش
رزق کا وعدہ
رضوان خالد چودھري
اللہ کی جانب سے رزق کے وعدے کے قرآني فرمان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس آیت ( وما من دابة في الارض الا علي اللہ رزقہا----(کا یہی مطلب ہوتا جو عموماً لیا جاتا ہے تو جنگلوں اور ریگستانوں میں کوئی جانور بھی بھوک پیاس سے نہ مرتا جبکہ ہم دنیا بھر میں بیسیوں ایسے قحط زدہ خطوں کے بارے میں جانتے ہیں جہاں ہزاروں انسان خوراک کی کمیابی کا شکار رہ کر بالآخر جان سے جاتے ہیں۔ مذکورہ آیت فقط یہ حقیقت بیان کرتی ہے کہ اللہ ایک نئے جاندار کو بھی اس وقت تک پیدا نہیں کرتا جب تک زمین پر پہلے سے موجود مخلوقات کے ساتھ ساتھ نئے پیدا ہونے والوں کے لیے بھی رزق نہ رکھ دیا گیا ہو۔
انسانوں کی تخلیق کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ کسی بھی خطے یا علاقے یا ملک میں اللہ کی جانب سے انسانوں کے لیے رکھے گئے رزق کی افراد تک آسان ترسیل کے لیے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ عام افراد کا رزق مخصوص افراد نظاموں گروہوں یا اداروں کی دسترس میں جانے سے روکنے کی کوشش کی جائے۔ دنیا میں موجود رزق یا رزق پیدا کرنے والے ذرائع کی تقسیم کے لیے ہی مختلف معاشی نظام وجود میں آئے اور اسلام بھی ہر انسان تک اسکی ضرورت اور اہلیت کے ایک خاص تناسب سے ترسیل کے لیے ایک معاشی نظام کے بنیادی خدوخال بیان کرتا ہے۔ کیپیٹلزم اور اسلام کا نظام ایک بڑے فرق کے ساتھ رزق پیدا کرنے والے ذرائع کی انسانی ملکیت کو جائز سمجھتے ہیں جبکہ سوشلزم اور کمیونزم ذاتی ملکیت پر غیر فطری قدغن لگا کر یہ تصور کرتے ہیں کہ ہر انسان کام تو اپنی اہلیت کے مطابق کرے لیکن اسے رزق برابری کی بنیاد پر ملے۔ ان نظاموں میں سوسائٹی کو رزق کے ذرائع کا مالك مان کر چند افراد کو سوسائٹی کا نگہبان مان لیا جاتا ہے اور یہ ماننا چند افراد کی ڈکٹیٹرشپ پر منتج ہوتا ہے تبھی سوشلزم اور کمیونزم بالآخر ناکام ہوئے۔ کیپیٹلزم کمائی اور رزق کے ذرائع پر افراد یا اداروں کی ملکیت کے حوالے سے کوئی روک نہیں لگاتا نہ ہی غربت کی کوئی حد مقرر کرتا ہے اور نہ ہی رزق سے محروم غربت کے شکار افراد تک دولت کی ترسیل کا کوئی مناسب نظام دیتا ہے تبھی کیپیٹلسٹ نظام میں ہم چند افراد مخصوص گروہوں اور اداروں کو بے پناہ ذرائع رزق پر قابض دیکھتے ہیں جبکہ انکے اردگرد کروڑوں بے گھر اور بے روزگار افراد فاقے کرتے نظر آتے ہیں۔دوسری طرف اسلام ایک ایسے معاشی نظام کے اصول دیتا ہے جس میں سب سے پہلے غربت کو واضخ کیا گیا ہے۔ اسلام کے مطابق ہر وہ شخص غربت کے دائرے میں آتا ہے جس پر زکوة فرض نہیں، اسلام ایسے افراد سے کسی قسم کے ٹیکس کا مطالبہ نہیں کرتا۔ اسلام کے نظام میں صرف وہی افراد ٹیکسز دیں گے جو امیر ہیں اور وہی افراد امیر ہیں جو اپنی تمام بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنے کے بعد ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت سے زیادہ اثاثے رکھتے ہیں۔ اسلام اس بات کو سمجھتا ہے کہ سب انسان ایک ہی جیسی اہلیت، جذبہ، صلاحیتیں، ذہانت اور ایکسپرٹیز کے حامل نہیں ہوتے لہذا سب اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق ذاتی ملکیت تو رکھ سکتے ہیں لیکن جیسے جیسے انکی ملکیت اور آمدنی بڑھتی جاتی ہے معاشرے میں رزق کی ترسیل کے حوالے سے انکی ذمہ داری بڑھتی جاتی ہے۔
زکوة عشر صدقہ فطرانہ اور خیرات اور احسان وغیرہ یہ سب اسلام کے مجوّزہ معاشی نظام کے وہ بنیادی اصول ہیں جو سود پر اسلامی قدغن سے مل کر مزید فائدہ مند ہو جاتے ہیں کیونکہ اگر سود پر پابندی ہو تو زیادہ ذرائع رزق والے افراد کو اپنی اضافی دولت کو ہر حال میں انویسٹ کرنا پڑے گا جس سے اکنامک ایکٹیویٹی تو جنریٹ ہوگی ہی بلاسود قرضوں اور احسان کو بھی رواج ملے گا یعنی دولت ایک ہاتھ میں نہیں رکے گی۔ یہی وہ نظام تھا جس کے کچھ عرصہ نفاذکے بعد اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں کوئی زکوة لینے والا نہیں ملتا تھا۔ جب غربت کی ڈیفینیشن اتنی براڈ ہو جائے کہ ہر وہ شخص جو ساڑھے سات تولے جتنے اضافی اثاثے نہ بنا لے غریب کہلائے گا تو یہ درحقیقت معاشرے کی کپیسٹی ڈیولپمینٹ کا نسخہ تو ہے ہی یہی اس بات کا اعادہ بھی ہے کہ ان غریب افراد تک بنیادی ضروریات کی فراہمی معاشرے کا فرض ہے جو امیر افراد کی دولت کے ایک لازمی اور طے شدہ حصے کے ذریعے ان افراد کو غربت سے نکلنے میں مدد دے گا۔ کیپیٹلزم غریب اسے کہتا ہے جس کی آمدنی ایک سو کچھ روپے روزانہ سے کم ہو اور اسلام غریب اسے کہتا ہے جس کے روز مرہ ضروریات والے اثاثوں اور آمدنی کے بعد اضافی اثاثے تقریبا چار لاکھ روپے سے کم ہوں۔ کیپیٹلزم میں ایک سو کچھ روپے روزانہ آمدنی والا بھی ضروریاتِ زندگی کی خریداری پر اُتنا ہی ٹیکس دیتا ہے جتنا دنیا کا امیر ترین انسان جبکہ اسلامی معاشی نظام ہر اُس فرد کو ٹیکس سے استشنا دے کر اسکی مالی مدد معاشرے کی ذمہ داری قرار دیتا ہے جسکے اثاثے تین ہزار ڈالرز نہ ہوں۔
دنیا میں جب بھی کبھی کوئی اسلامی مملکت قائم ہوگی تو یہی ثابت ہوگا کہ اللہ نے قرآن میں ہر نئے پیدا ہونے والے شخص کے لیے اسکی پیدائش سے پہلے زمین پر رزق رکھے جانے کا جو وعدہ کیا ہےوہ مبنی بر حقیقت ہے -ہم فی الحال مخصوص افراد مخصوص اداروں اور مخصوص گروہوں کے ان ذرائع پر ناجائز قبضے اور ملکیت کے غیر اخلاقی اور لامحدود حقوق کے باعث اللہ کے اس دعوے کو سمجھ نہیں پاتے۔
زندگی اسی بات کا امتحان ہے کہ اسلام کے دیے گئے رہنما اصولوں کی بنیاد پر ایسا نظام زندگی وضع کرنے کی کوشش کی جائے کہ اللہ کی مخلوقات کو انکی کم از کم ضرورت اور اہلیت کے ایک خاص تناسب سے رزق کی آسان ترسیل ممکن ہو سکے۔ لیکن جب تک ایسا ہونا ممکن نہیں اپنے اردگرد کے افراد بالخصوص اپنے چاروں اطراف کے دس دس گھروں پر نظر ڈالتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان میں کوئی بھوکا تو نہیں۔ اپنی زکوة صدقات خیرات عشر اور احسان کا مرکز قریبی عزیزوں کے بعد اسی چالیس کے دائرے کو بنا لینا چاہیے-