فكر و نظر
حضرت موسیٰ اور حضرت عمر کی شخصی و فکری مماثلتیں
حریت فکر کے آفتاب و مہتاب
راقم: عرفان شہزاد
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے درمیان بہت سی طبعی اور مزاجی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔دونوں شخصیات غیرت و حمیت، جرأت و بہادری، عقل و بصیرت، حریت فکر، جرأت اظہار اور قائدانہ کردار کا مجسم استعارہ ہیں۔
حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کے قصے میں حضرت خضر کی کارروائیوں پر فطرت انسانی اور دین و شریعت میں گندھے مزاج کے سبب سے حضرت موسیٰ کی گرفت اور دوسری طرف مختلف مواقع پر دین و شریعت کے معاملات میں حضرت عمر کی حمیت کے مظاہرے ایک جیسے مزاج کا پتا دیتے ہیں۔
حضرت موسیٰ خدا کی بارگاہ میں بھی اپنی عقل کے استعمال اور اپنی راےکے اظہار میں جھجکتے نہیں، اسی طرح حضرت عمر، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور ہدایات کے باوجود اپنی عقل و راے کے اظہار سے چوکتے نہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں حضرات کو خدا اور رسول جیسی اتھارٹیز کے سامنے ان کے احکام اور آرا سامنے آ جانے کے بعد بھی اپنی عقل کے استعمال اور اپنی راے کے اظہار پر ان کی طرف سے تائید و پذیرائی ملتی ہے۔مثلاً، خدا نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ فرعون کی طرف جاؤ اور اسے دین کی تبلیغ اورخدا کی طرف سے تنبیہ کرو۔ حضرت موسیٰ نے حکمِ خدا پر سیدھے سیدھے عمل کرنے سے پہلے کچھ معاملات طے کر لینا ضروری سمجھا۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کے ہاتھ سے فرعون کی قوم کا ایک شخص غلطی سے قتل ہو گیا تھا، انھیں ڈر ہے کہ فرعون اس جرم میں انھیں قتل کرا دے گا؛ دوسری یہ فرمایش کی کہ ان کے بھائی، حضرت ہارون کو بھی نبوت عطا کی جائے، اور وجہ بھی خود بیان کی کہ وہ ان سے زیادہ فصیح اللسان ہیں، تبلیغ دین میں وہ ان کی معاونت اچھے سے کر سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول کی اور تسلی بھی دی کہ فرعون ان پر قابو نہ پا سکے گا، اور وہی غالب رہیں گے۔ اس سب کے بعد اللہ تعالی نے پھر فرمایا کہ اب جاؤ فرعون کی طرف۔
غور کیجیے کہ خدا کا حکم ملنے کے بعد بھی حضرت موسیٰ کی حریتِ فکر ان سے کیا کراتی ہے۔ یہ خدا سے ان کی پہلی براہ راست ملاقات تھی اور ایسے میں ان کے طبیعت کا استقلال، ان کے نہایت مضبوط اعصاب اور ناقابلِ تسخیر حریت و خود اعتمادی کی عکاسی کرتا ہے۔ ادھر خدا بھی ان کی اس جرأتِ بیان پر ناراض ہونے کے بجاے اسے قبولیت بخش کر اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ خدا اگر چاہتا تو حضرت موسیٰ کی طلب سے پہلے ہی تمام خدشات دور کر دیتا، لیکن خدا بھی گویا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ، بنا سوچے سمجھے محض حکم کا غلام ہی نہ بن کر رہ جائے۔ خدا کے نزدیک دین میں عقل کو معطل کرناہرگز مقصود نہیں۔
انبیا علیہم السلام حکم کے بندے تھے، لیکن صاحب عقل و اجتہاد بھی تھے۔ انبیا کو اجتہاد کی بھلا کیا ضرورت ہو سکتی تھی جب کہ ان کو خدا کی طرف سے براہ راست ہدایت کا ذریعہ میسر تھا، ان کے لیے ممکن ہو سکتا تھا کہ جو مسئلہ بھی انھیں درپیش ہوتا، اس کے لیے انھیں خدا کی طرف سے براہ راست ہدایات مل جایا کرتیں، اپنی عقل کے استعمال کی آزمایش، جس میں خطا کا امکان رہتا ہے، کی نوبت ہی نہ آتی، خصوصاً دین جیسے نازک معاملے میں، دینی اصولوں کے اطلاق میں امکان خطا کے حامل اس ذریعہ کا استعمال نہ کیا جاتا لیکن خدا نے انبیا کے معاملے میں بھی ایسا نہیں چاہا۔ اس نے انھیں ہر ہر معاملے میں رہنمائی دینے کے بجاے ایک دائرے میں انھیں اپنی راے بنانے اور اجتہاد کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ ہوتا ہے، یعنی اس عمل میں ان سے خطائیں بھی ہوئیں، جس کی اصلاح پھر خدا نے کی، مثلاً آدم علیہ السلام نے ممنوعہ پھل کھا لیا اور جنت سے نکالے گئے، یونس علیہ السلام خدا کا حکم آنے سے پہلےاپنی بستی چھوڑ کر نکل گئے اور بطور سزا مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیے گئے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر منافقین کی جنگ میں عدمِ شرکت کے ان کے اعذار قبول کر لیے، جب کہ خدا کی اسکیم یہ تھی کہ اس موقع پر مومن اور منافق علیحدہ ہو جائیں تاکہ ان منافقین کے بارے میں ان کی تباہی کا آخری فیصلہ نافذ کر دیا جائے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کریم النفسی سے ان کی معذرت قبول کر کے انھیں پیچھے ٹھیرنے کا جواز فراہم کر دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھاعَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ.(التوبہ ۹: ۴۳) ’’اللہ تم کو معاف کرے، (اے پیغمبر)، تم نے (اِس سفر سے) اِنھیں رخصت کیوں دے دی؟ (تمھیں چاہیے تھا کہ ایسا نہ کرتے)،یہاں تک کہ تم پر کھل جاتا کہ کون سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے۔‘‘
ادھر حضرت عمر کے معاملے کو دیکھیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صلح حدیبیہ کے موقع پر ان کو قریش کے پاس مذاکرات کے لیے بھیجنا چاہتے تھے۔ حضرت عمر کا خاندان سفارت کاری میں مشہور چلا آتا تھا، وہ خود بھی اس فن میں طاق تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب درست تھا، لیکن حضرت عمر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر سیدھے سیدھے عمل کرنے کے بجاے ایک تجویز آپ کے سامنے پیش کرنا مناسب سمجھا۔ آپ نے عرض کیا کہ مکہ میں ان کا خاندان کم زور ہے۔ قبائلی عصبیت کی بنا پر جو تحفظ فرد کو اس سماج میں حاصل ہوا کرتا تھا، اس کے لحاظ سے ان کا کم زور قبیلہ، قریش کے دیگر طاقت ور قبیلوں کے مقابلے میں ان کی حفاظت نہیں کر سکتا تھا، بہت ممکن تھا کہ قریش مسلمانوں کے ساتھ موجودہ دشمنی کی وجہ سے ان کی جان کو نقصان پہنچا دیتے، ایسااگر ہو جاتا تو ان کی جان بھی جاتی اور سفارت کا مقصد بھی حاصل نہ ہو پاتا، الٹا حضرت عمر کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے جنگ کی نوبت آ جاتی۔ اس صورتِ حال میں حضرت عمر نے اس سفارت کاری کے لیے حضرت عثمان کا نام تجویز کیا، کیونکہ وہ بنو امیہ سے تھے اور قریش ،مسلمانوں سے دشمنی کے باوجود مکہ میں بنو امیہ کے طاقت ور قبیلے کے ہوتے ہوئے حضرت عثمان کو نقصان پہنچانے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ قبائلی عصبیت کی بنا پر ایک قبیلے کے لوگ ہر حال میں دوسرے قبائل کے مقابلے میں اپنے افراد کا تحفظ کیا کرتے تھے، خصوصاً اس صورت میں، جب کہ یہاں معاملہ جنگ کا بھی نہیں تھا۔
ہم جانتے ہیں کہ صورت حال ایسی ہی تھی۔ قریش کی دشمنی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ انھوں نے حضرت عثمان کو بھی روک لیا تھا، حتیٰ کہ ان کی شہادت کی افواہ اڑی، اسی بنا پر بیعت رضوان ہوئی اور مسلمان ان کا بدلہ لینے کے لیے جنگ کرنے پر تیار ہوگئے، پھر اس کے بعد صلح حدیبیہ ہوئی۔ چنانچہ حضرت عمر کا خدشہ، کہا جا سکتا ہے کہ درست تھا۔ حضرت عثمان کے ساتھ اگر یہ ہوا تھا تو حضرت عمر کے ساتھ اور کیا نہ ہو جاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت عمر کے اس عذر اور تجویز کو منظور کر کے ان کی اس حریتِ فکر کو سند جواز عطا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر قرآن مجید میں فرمایا کہ مصلحت اسی میں تھی کہ اس وقت جنگ نہ ہو۔ اور اللہ نے جنگ ہونے نہیں دی:وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْھُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ م بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْھِمْ وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا.(الفتح ۴۸: ۲۴)
’’وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں اُن کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ اُن سے روک دیے، اِس کے بعد کہ اُس نے تم کو اُن پر غلبہ عطا کر دیا تھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے، اللہ اُسے دیکھ رہا تھا۔‘‘
غور طلب بات یہ ہے کہ خدا کی یہ مرضی پوری کرنے کے لیے حضرت عمر کی فراست کام میں آئی، کیونکہ اگر وہ اپنی راے کا اظہار نہ کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو معقول جان کر قبول نہ کر لیتے اور وہ کفار کے ہاتھوں شہید ہو جاتے تو جنگ ہو کر رہتی۔
اب حضرت موسیٰ کا ایک واقعہ دیکھیے، جب بنی اسرائیل نے گاے کے بچھڑے کی پرستش کے گناہ عظیم کا ارتکاب کیا تو قوم کی اجتماعی توبہ کے لیے بنی اسرائیل کے ۷۰ سرداروں کو لے کر حضرت موسیٰ کوہ طور پہنچے تو خدا نے ایک زلزلہ برپا کیا۔ یہ خدا کے جلال کا ظہور تھا۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ نے جو دعا کی، وہ ایک سادہ دعا ہی نہیں ہے، بلکہ ایک پورا آرگیومنٹ ہے۔ نیچے دیے گئے اس دعا کے ترجمے کے خط کشیدہ الفاظ دیکھیے کہ وہ کس طرح خدا سے اس کے اس فعل کے مضمرات اور نتائج بیان کر کے باقاعدہ دلائل کے ساتھ اس سے اس کی رحمت کی درخواست کرتے ہیں:
وَاخْتَارَ مُوْسٰی قَوْمَہٗ سَبْعِیْنَ رَجُلاً لِّمِیْقَاتِنَا فَلَمَّآ اَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ قَالَ رَبِّ لَوْشِءْتَ اَھْلَکْتَھُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِیَّایَ اَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَھَآءُ مِنَّا اِنْ ھِیَ اِلَّا فِتْنَتُکَ تُضِلُّ بِھَا مَنْ تَشَآءُ وَتَھْدِیْ مَنْ تَشَآءُ اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیۡرُ الْغٰفِرِیْنَ.(الاعراف ۷: ۱۵۵)’’اور موسیٰ نے اپنی قوم کے ستر آدمی منتخب کیے تاکہ وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں۔ پھر جب (وہ حاضر ہوئے اور) اُن کو زلزلے نے آ پکڑا تو موسیٰ نے کہا: پروردگار، اگر تو چاہتا تو پہلے ہی اِن کو اور مجھے ہلاک کر دیتا۔ کیا تو ایک ایسے کام پر ہمیں ہلاک کرے گا جو ہمارے اندر کے احمقوں نے کیا ہے؟ یہ سب تیری آزمایش ہی تھی۔ تو اِس سے جس کو چاہے (اپنے قانون کے مطابق) گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے، ہدایت بخش دے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے۔ سو ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔‘‘
حضرت موسیٰ سے بڑھ کر خدا شناسی کا دعویٰ کون کر سکتا ہے جن کو خدا سے براہ راست کلام کا شرف حاصل رہا؟ اب یہی حضرت موسیٰ، خدا سے سیدھی سادی درخواست نہیں کرتے، کہ جو لوگ توبہ کے لیے آئے ہیں، ان پر رحم فرما، بلکہ یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہلا ک کرنا تھا تو پہلے بھی کر سکتا تھا، اب جب یہ توبہ کے لیے آئے ہیں تو ان کو ان احمقوں کی وجہ سے ہلاک نہ کر جنھوں نے شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ یعنی خدا کے اس جلال کے موقع پر بھی حضرت موسیٰ کی طبعیت کا استقلال برقرار رہتا ہےاور ادب سے، لیکن دلیل کے ساتھ اپنی درخواست پیش کرتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کا معاملہ دیکھیے۔ اپنی قدرت کے اس مظاہرے کے پیچھے خدا کی حکمت یقیناً موجود تھی۔وہ انھیں خدا کی طرف سے محسوس تنبیہ کرانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ اپنےاس جلال میں بھی حضرت موسیٰ کی دلائل پر مبنی درخواست پر کسی ناراضی کا اظہار کرنے کے بجاے، اسے شرف قبولیت بخشتا ہے اور اس کو قرآن میں نقل کر کے حضرت موسیٰ کے طبعی اور فکری استقلال کی گویا پذیرائی کرتا ہے۔
اب حضرت عمر کا معاملہ دیکھیے، صحیحین کی روایت ہے کہ منافقین کے سردار، عبد اللہ بن ابی کا جنازہ پڑھانے پر حضرت عمر نے دامنِ رسول تک پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنازہ پڑھانے سے روکنا چاہا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحمت و شفقت کی وجہ سے نماز جنازہ پڑھا دیا، اس پر وحی نازل ہوئی اور آپ کو آیندہ کے لیے منافقین کے لیے نماز جنازہ پڑھانے سے منع فرمایا گیا:
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ اِنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَاتُوْا وَھُمْ فٰسِقُوْنَ.(التوبہ ۹: ۸۴)
’’اور (آیندہ) اُن میں سے جو مر جائے، اُس (کے جنازے) پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اُس کی قبر پر (دعا کے لیے) کھڑے ہونا، اِس لیے کہ اُنھوں نے اللہ اور اُس کے رسول کا انکار کیا ہے اور اِس حال میں مرے ہیں کہ بد عہد تھے۔‘‘
یہاں وحی سے حضرت عمر کی راے کی تائید حاصل ہوئی، جس پر حضرت عمر خدا کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔
جب فرعون نے حضرت موسیٰ کی دعوت ایمان اور بنی اسرائیل کی غلامی سے رہائی کے مطالبے پر ان سے جب یہ کہا کہ تم تو وہ ہو جس کو ہم نے پالا تھا اور تم نے تو ہمارا ایک آدمی بھی قتل کر دیا تھا، تم تو ہمارے مجرم بھی ہو۔ نمک حلالی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہمارے سامنے تمھاری زبان نہ کھلے، اور تم بجاے احسان مند ہونے، اور اپنے جرم کی وجہ سے بجاے ڈرنے اور شرمندہ ہونے کے ہمیں نیا دین سکھانے آ گئے ہو۔ اس پر حضرت موسیٰ کا جواب حریتِ فکر کا مینارۂ نور ہے، حضرت موسیٰ اور فرعون کا یہ مثالی مکالمہ ملاحظہ کیجیے:قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ. وَفَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ.(الشعراء ۲۶: ۱۸۔۱۹)
’’اُس نے کہا: کیا ہم نے تمھیں بچپن میں اپنے ہاں رکھ کر پالا نہیں تھا اور (تم وہی نہیں ہو کہ) اپنی عمر کے کئی سال تم نے ہمارے اندر بسر کیے۔ اور پھر اپنی وہ حرکت کی جو کی (اور بھاگ گئے)۔ تم بڑے ہی ناشکرے ہو۔‘‘
احسان مندی اور قصور واری، دونوں ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ کسی دوسرے کے لیے حق بات کرنا اور اپنے محسن پر تنقید کرنا تو درکنار، انسان کو اپنی فکر دامن گیر ہو جاتی ہے۔ اس نازک صورت حال میں حضرت موسیٰ کا جواب غور طلب ہے:
قَالَ فَعَلْتُھَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ. فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمَّا خِفْتُکُمْ فَوَھَبَ لِیْ رَبِّیْ حُکْمًا وَّجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ. وَ تِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّھَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ.(الشعراء ۲۶: ۲۰۔۲۲)
’’حضرت موسیٰ نے جواب دیا: میں نے یہ اُس وقت کیا تھا اور (مجھے اعتراف ہے کہ) اُس وقت میں چوک گیا تھا۔ پھر مجھے تم لوگوں سے اندیشہ ہوا (کہ اِس کی پاداش میں تم مجھے قتل کر دو گے) تو میں تم سے بھاگ گیا۔ پھر میرے پروردگار نے مجھے حکمت و دانش سے نوازا اور مجھ کو اپنے پیغمبروں میں سے (ایک پیغمبر) بنا دیا۔ اور یہ احسان ہے جو تم مجھے جتا رہے ہو کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے!‘‘
آخری آیت پر غور کیجیے۔ حضرت موسیٰ نے واضح کیا کہ کسی کی احسان مندی کے باوجود کسی محسن کو اپنے زیراحسان کے استحصال کا لائیسنس نہیں مل جاتا۔ احسان مندی اور نمک حلالی کے نام پر انسانوں کا استحصال ہمیشہ سے عام بات رہی ہے۔ حق بات کہنے سے لوگ اس وجہ سے رک جاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بڑوں کا یا اساتذہ کا یا اپنے اداروں کا نمک کھایا ہوا ہے اور ان پر کوئی درست تنقید کرنا یا ان کے کسی منکر پر نکیر کرنا بھی نمک حرامی کے زمرے میں گنا جاتاہے۔ اور کسی کا قصور وار ہو جانے کے بعد تو جرم کی سزا کے علاوہ بھی قصور وار کے عام حقوق کا استحصال تو بالکل ہی جائز سمجھا جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ کا یہ جواب احسان مندوں کو ان کی احسان مندی کے باوجود، اور قصور واروں کو ان کی تقصیرات کے باوجود حریتِ فکر کے ساتھ حق بات کے لیے کھڑا ہو جانے کا سبق دے رہا ہے۔ خدا کا یہ حکم ایک اور آیت میں اس طرح بیان ہوا ہےیٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ.(النساء ۴: ۱۳۵)’’ایمان والو، انصاف پر قائم رہو، اللہ کے لیے اُس کی گواہی دیتے ہوئے، اگرچہ یہ گواہی خود تمھاری ذات، تمھارے ماں باپ اور تمھارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے۔‘‘
ادھر حضرت عمر کا معاملہ دیکھیے، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنے جوتے بطور نشانی دے کر اور یہ کہہ کر بھیجا کہ جو شخص ملے، اسے خوش خبری سنا دو کہ جس نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا، وہ جنت میں جائے گا۔ حضرت ابو ہریرہ جیسے ہی نکلے، پہلی ملاقات حضرت عمر سے ہو گئی۔ حضرت ابو ہریرہ نے جب ان کو یہ خوش خبری سنائی تو حضرت عمر نے بجاے کوئی خوشی منانے کے، ان کے سینے پر اس زور سے ہاتھ مارا کہ وہ بے چارے گر پڑے اور واپس آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت کی۔ حضرت عمر بھی اتنے میں پہنچ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے عرض کیا کہ لوگوں کو اس طرح خوش خبری سنانا مناسب نہیں۔ لوگ اس بشارت کا غلط فائدہ اٹھا لیں گے اور اس غلط فہمی کے بھروسے پر عمل کرنا ترک کر بیٹھیں گے۔ آپ نے فرمایا: اچھا ٹھیک ہے، رہنے دو، لوگوں کو عمل کرنے دو۔ یہاں بھی دیکھیے کہ حضرت عمر کی راے کو بارگاہ نبوت سے تائید حاصل ہوئی۔ حضرت عمر کو فہم دین اور مزاج نبوت کا کتنا درست اندازہ تھا۔ حضرت عمر کی حریت فکر کا یہ مظاہرہ غیر معمولی نوعیت کا حامل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی راے کو قبول کر لیناایک مقتدا و پیشوا کے لیےمثالی نمونہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ و قلم طلب فرمایا کہ ایسا کچھ لکھوا دیں کہ آپ کے بعد آپ کے پیروکارگم راہ نہ ہوں گے۔ اس موقع پر حضرت عمر نے نہایت جرأت مندانہ راے دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت، کامل طریقے سے قرآن کی صورت میں پہنچا دی ہے تو مزید کسی چیز کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ اس وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت اچھی نہیں، اس حالت میں آپ کو لکھوانے کی زحمت دینا شاید مناسب نہ ہو، مبادا کوئی غلطی ہو جائے۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید ہر طرح سےکافی ہے۔ اس پر صحابہ کے درمیان بحث ہوگئی، کچھ نے حضرت عمر کی مخالفت کی اور کچھ نے ان کی تائید کی۔ آوازیں بلند ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزرا اور آپ نے سب کو باہر چلے جانے کا کہہ دیا۔ اس واقعہ کے بعد بھی رسول اللہ کئی دن حیات رہے، لیکن آپ نے ایسا کچھ نہ لکھوایا جس کا عندیہ آپ نے پہلے دیا تھا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی وقتی کیفیت تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لکھوانا چاہا، مگر جب آپ کی طبیعت بحال ہوگئی تو آپ نے بھی ایسی کوئی بات بتانا ضروری نہیں سمجھا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ایک رسول کی حیثیت سے آپ کی ذمہ داری تھی کہ آپ ہر وہ بات امت کو پہنچاکر دنیا سے رخصت ہوں جو ان کی رسالت کا تقاضا اور امت کی ہدایت کے لیے ضروری تھی۔ یہ چیز قرآن میں واضح طور پر بتائی گئی ہے:یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ.(المائدہ ۵: ۶۷) ’’اے پیغمبر، (اور) جو کچھ تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ (اِنھیں) پہنچا دو اور (یاد رکھو کہ) اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اُس کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اللہ اِن لوگوں سے تمھاری حفاظت کرے گا۔ (تم مطمئن رہو)، اللہ (تمھارے مقابلے میں تمھارے) اِن منکروں کو ہرگز کامیابی کا راستہ نہ دکھائے گا۔‘‘
یہ ممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کی ہدایت کے لیے کوئی ضروری بات بتانے سے محض اس وجہ سے رک گئے کہ کچھ صحابہ نے اس وقت لکھوانا مناسب نہ جانا تھا۔ ممکن ہے وہ ایسی ہی کوئی بات ہوتی جس میں قرآن و سنت کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کی نصیحت ہوتی۔ بہرحال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعد کا طرز عمل بتاتا ہے کہ حضرت عمر کی حریتِ فکر نے یہاں بھی درست طرزِ عمل اختیار کیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے علاوہ کوئی نئی بات نہیں لکھوائی۔
یہی حریتِ فکر تھی جس کی وجہ سے حضرت عمر سے دین کے معاملات میں اجتہادات کا سب سے زیادہ ظہور ہوا۔ آپ کے اجتہادات کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ کئی مواقع پر آپ کی راے کی تائید میں وحی نازل ہوتی رہی۔ مذکورہ بالا امثال کے علاوہ، ایک موقع پر جب منافقین کی اہلِ بیتِ نبی میں سکینڈل بنانے کی مہم عروج پر تھی تو اس کے سدِ باب کے لیے ازواجِ نبی کے لیے پردے کا خصوصی اہتمام حضرت عمر کی خواہش تھی۔ وحی کے ذریعے سے یہ خصوصی احکامات سورۂ احزاب میں نازل ہوئے۔ حضرت عمر کے اجتہادات نے پوری امتِ مسلمہ کا علمی رجحان متعین کیا۔ ان کے اجتہادات پر مستقل تصانیف موجود ہیں۔
حریتِ فکر کا ایک لازمی اظہار مظلوم کی حمایت ہے۔ ایک آزاد ذہن جو اپنا استحصال برداشت نہیں کرتا، وہ دوسروں کے استحصال پر بھی خاموش نہیں رہ پاتا۔ حریت فکر سے پیدا ہونے والی یہ وہ غیرت ہے جو انسانیت کا حسن ہے۔ اسی غیرت کی بنا پر حضرت موسیٰ کے ہاتھ سے اس قبطی کا قتل بھی ہو گیا تھا جو ان کی قوم کے ایک فرد سے جھگڑ رہا تھا۔ چونکہ قبطی کا ظالم ہونا ہی زیادہ قرین قیاس تھا، اس لیے اس قضیے میں آپ کو یہی گمان ہوا ہوگا کہ زیادتی قبطی کر رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ قبطی بھی جھگڑا چھوڑنے پر تیار نہ ہوا تو آپ نے اسے گھونسا مارا جو ایسا بے ڈھب پڑا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ تاہم، بعد میں آپ کو اندازہ ہو گیا کہ جھگڑالو اسرائیلی تھا، کیونکہ اگلے دن وہ پھر کسی سے جھگڑ رہا تھا۔ اس کے باوجود آپ وہ جھگڑا بھی ختم کرنے کے لیے آگے بڑھے تھے۔
مظلوم کی حمایت کا دوسرا واقعہ تب پیش آیا جب حضرت موسیٰ مدین پہنچے تو انھوں نے دو خواتین کو دیکھا کہ ایک کنویں کے پاس اپنی بکریاں پانی سے روکے کھڑی ہیں، جب کہ کنویں پر دوسرے لوگ اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ لڑکیوں کے پاس گئے اور ان کی مجبوری دریافت کی۔ لڑکیوں نے بتایا کہ علاقے کے لوگ ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ یہ جب چلے جائیں گے تو وہ اپنی بکریوں کو پانی پلا پائیں گی، ان کے والد عمر رسیدہ اور ضعیف تھے اور یہ کام انھیں ہی کرنا پڑتا تھا۔ یہ سن کر حضرت موسیٰ نے آگے بڑھ کر ان کی بکریوں کو پانی پلوا دیا۔
مظلوم کی حمایت کے اسی مزاج کا اثر حضرت عمر کے ہاں متعدد واقعات میں ملتا ہے۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے مظلوم کو انصاف کی فراہمی ویسے بھی آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عدلِ عمر ضرب المثل کی طرح مشہور ہو گیا۔ یہ طے تھا کہ چاہے کوئی کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، کسی پر ظلم کرنے کے بعد وہ ان کے انصاف سے بچ نہیں سکتا تھا۔ اس سلسلے میں بہت سے واقعات کتب تاریخ میں مرقوم ہیں۔ مثلاً غسان کا بادشاہ جبلۃ الایھم مسلمان ہو کر مدینہ منورہ حاضر ہوا۔ حضرت عمر خوش ہوئے کہ ایک طاقت ور شخص اسلام کا حصہ بن گیا اور اس کی طاقت اسلام کی خدمت میں استعمال ہو سکے گی۔ پھر اسے مکہ بھیجا گیا ، جہاں خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اُس کے تہ بند کے کنارے پر ایک دیہاتی کا پاؤں آ گیا۔ باد شاہ نے غصے میں آ کر اُس کے منہ پر تھپڑ دے مارا، جس سے اس کی ناک اور سامنے کے دانت بھی ٹوٹ گئے۔ دیہاتی فریاد لے کر مدینہ میں حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے شاہ غسان کو طلب فرمایا، اس نے اعتراف کیا، بلکہ یہ بھی کہا کہ حرم نہ ہوتا تو میں اسے اس حرکت پر قتل کر دیتا۔ حضرت عمر نے فیصلہ دیا کہ بادشاہ اس دیہاتی کو راضی کرے یا قصاص میں منہ پر تھپڑ کھائے۔ بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا آپ کے ہاں شاہ و گدا میں کچھ فرق نہیں؟ آپ نے فرمایا: بالکل نہیں، اسلام نے دونوں کا مرتبہ ایک جیسا کر دیا ہے۔ یہ سن کر اس نے رات کی مہلت مانگی۔ دیہاتی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بادشاہ کو ایک رات کی مہلت دینے پر راضی ہے، اس نے رضامندی دے دی۔ بادشاہ رات کے اندھیرے میں ہی مدینہ منورہ سے بھاگ کر ملک شام کی طرف چلا گیا اور مرتد ہوگیا۔ ایک طاقت ور شخص کی حمایت کھونا بلکہ اس کا اسلام سے نکل جانا بھی گوارا کر لیا گیا، مگردین و انصاف کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا۔
عقل کے استعمال اور اپنی راے رکھنے کے معاملے میں حضرت موسیٰ اور حضرت عمر، دونوں سے غلطی بھی ہوئی۔ حضرت موسیٰ نے خدا کو دیکھنے کی فرمایش کر ڈالی اور حضرت عمر حدیبیہ کا معاہدہ کرنے پر اعتراض کر بیٹھے۔ دونوں اپنی جرأت پر نادم ہوئے۔ خطا کا امکان، عقل کے استعمال کا لازمہ ہے۔ انسان کو خدا نے اس سے مبرا نہیں کیا۔ اسی خطاکوشی کے ساتھ خدا نے عقل و راے کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ انسان کی آزمایش ہی یہی ہے۔ وہ پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ اپنے عقل و فہم کے مطابق دیانت سے جو سمجھے اس پر عمل کرے۔ خطا کرے، لیکن درست بات سامنے آنے پر اَنا اورتسلیمِ حق کی آزمایش میں حق کو تسلیم کر کے کامیابی کا راستہ اختیار کرے۔ اندھی تقلید نہیں، بلکہ عقل کی راہ سے عمل کرنا ہی خدا کا مطلوب ہے اور اس میں خطا کو گوارا کیا گیا ہے۔
ایک طرف خدا اور رسول ہیں جن کے سامنے حضرت موسیٰ اور حضرت عمر کی حریتِ فکر کے یہ مظاہرے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے رویے دیکھیے کہ دینی پیشوا ہوں یا سیاسی رہنما، خاندان کے بزرگ ہوں یا کسی محکمے کے سربراہ، ان کی اندھی تقلید اور غلامانہ فرماں برداری کو مطلوب سمجھا جاتا ہے۔ رہنمائی کے منصب پر بیٹھے افراد بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ان کے پیروکار ان کے ایک اشارے پر بلا سوچے سمجھے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں، بلکہ لٹا بھی دیتے ہیں۔ اپنے رہنماؤں پر تنقید تو دور کی بات ہے، ان کے سامنے سوال کرنا ہی گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔ محکمے کے سربراہ گوارا نہیں کرتے کہ ان کے ماتحت کی کوئی راے ان کی راے سے مختلف ہو، خاندان کے بزرگ اس پر زور دیتے ہیں کہ ان کے غلط کو بھی درست کہنا اصل فرماں برداری ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ انسان کی تذلیل ہے کہ اس کی اپنی کوئی راے نہ ہو۔ جس بات کو وہ درست سمجھتا ہو، اس کے اظہار پر پابندی ناروا جبر ہے۔ ایک طرف خدا اور رسول ہیں جو اپنے بندوں اور پیروکاروں کی راے بھی قبول کرتے ہیں، اور دوسری طرف انسان ہیں جو اپنے جیسے انسانوں کی راے کو اپنی راے سے مختلف پا کر اسے بغاوت اور مخالفت سمجھ لیتے ہیں۔
دین میں عقل کے استعمال اور جرأت اظہار کی جو نازک راہ حضرت موسیٰ اور حضرت عمر کے نمونوں سے کھلتی ہے، اس نے ہمارے لیے دین کے احکام میں سوچ سمجھ کر عمل کرنے کا مطلوبہ نمونہ پیش کیا ہے۔ اگر خدا اور رسول کی بارگاہ میں حریت ِفکر کی پذیرائی کا یہ عالم ہے تو دنیاوی معاملات میں تو اس کو بدرجۂ اولیٰ گنجایش دینا ضروری ہے کہ یہاں ایسی کوئی اتھارٹی نہیں ہو سکتی جس کا علم خدا کے علم کی طرح کامل اور ہدایت رسول کی ہدایت کی طرح قطعی ہو۔