سماجيات
جنسی ہراسانی میں لڑکیوں کا کردار —
محمود فیاض
عصرِ حاضر کی ہر ماں ، بہن اور بیٹی کو یہ تحریر ضرور پڑھنی چاہیے
مانچسٹر یونیورسٹی میں جاب فیئر تھا، ہم پانچ کلاس فیلوز لیسٹر سے وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ انسٹیزیاؔ ہمارے گروپ کو لیڈ کر رہی تھی۔ پال، صوفیا، رودوپی اور میں “چرواہے کی بھیڑیں” بنے ادھر کو چل دیتے جدھر کو لیڈر کا رخ ہوتا۔دوپہر کو تھکے ماندے ایک سستے ریسٹورنٹ کے سامنے رکے اور فیصلہ کیا کہ دو پاؤنڈ والی بریانی کی “عیاشی” کی جائے۔ گروپ کے باقی لوگ خالص یورپین تھے، اور مصالحے والی بریانی کے لیے زرا مشکل سے راضی ہوئے۔ مگر میں نے انکو قائل کرنے کے لیے بریانی کو مسلم ورلڈ کی کلچرل ڈش بنا کر کچھ ایسے پیش کیا کہ ماس کمیونیکیشنز کے وہ اسٹوڈنٹس اپنے سی وی میں یہ صلاحیت (بریانی کھانے والی) شامل کرنے کے لیے بے چین ہو گئے۔بانچ پاؤنڈ کے سستے برگر والے شہر میں دو پاؤنڈ کی بریانی کیسی ہوگی، لاہور اور کراچی کے روڈ سائیڈ بریانی کھانے والے دوست جانتے ہی ہونگے۔ خیر کھانے کے بعد میں نے سب کی طرف سے اکٹھی ادائیگی کر دی۔ بیرے کے جانے کے بعد پال نے خاموشی سے دو پاؤنڈ میری طرف بڑھا دیے۔ اس کی دیکھا دیکھی صوفیا اور رودوپی نے بھی وہیں کے وہیں حساب چکتا کر دیا۔ انیسٹیزیا البتہ اپنے چھوٹے سے پرس سے سکے نکال کر کئی بار گن چکی تھی، مگر دو پاؤنڈ پورے نہیں ہو پارہے تھے۔ میں نے دریا دلی سے اسکو آفر کی کہ رہنے دو، یہ بریانی میری طرف سے سمجھ لو۔اپنے پرس میں جھانکتی آنکھیں اس نے یکدم اوپر اٹھائیں اور میرے چہرے پر جما دیں، کیوں؟ کس لیے تمہاری طرف سے؟ وہ گھورنے لگی۔کیونکہ ہم دوست ہیں، اور دوستوں میں ایسا چلتا ہے۔ ہمارے کلچر میں تو لڑکی ۔ ۔ ۔ابھی میرا جملہ ادھورا ہی تھا کہ وہ چمک کر بولی، تم اپنا کلچر اپنے پاس رکھو، تم کیوں میرے کھانے کے پیسے دو گے؟ کیا تم میرے بوائے فرینڈ ہو؟نن ۔ ۔ نہیں، میں گڑبڑا گیا، (تب تک تو) میں نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔اس نے ساتھ بیٹھی رودوپی سے یونانی زبان میں کچھ کہا، اور رودوپی نے فوراً اپنی جیب سے کچھ سکے اس کے حوالے کیے، جن کو ملا کر دو پاؤنڈ اس نے میز پر میری طرف اس طرح سرکا دیے، جیسے جواری اپنی فاتحانہ چال چلنے سے پہلے اپنی ساری پونجی داؤ پر لگا دیتا ہے۔
یہ لو، اور آئندہ مجھے کھانے کی آفر تب کرنا جب تم میرے بوائے فرینڈ ہوئے یا میرے ساتھ ڈیٹ پر ہوئے، اس نے اسی تیز لہجے میں کہا، میں فیصلہ نہ کر سکا کہ جملہ مذاق میں تھا یا سنجیدہ، باقی گروپ البتہ ایک پاکستانی کی ایسی حالت کا مزہ لے رہا تھا۔ میں نے خاموشی سے سکے جیب میں ڈال لیے، غیر ارادی طور پر میرے جبڑے سخت ہو گئے اور میں اندرونی طور پر اپنی خجالت چھپانے میں مشغول ہوگیا۔
واپسی پر میں کچھ خاموش خاموش رہا، ٹرین مانچسٹر سے لیسٹر سٹی کو بھاگتی جا رہی تھی، سب گپ شپ کر رہے تھے، میں باقیوں سے زرا فاصلے پر کھڑکی کے ساتھ اکیلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میرے سامنے بیٹھا ہوا گورا اٹھ کر کہیں گیا تو انیسٹیزیاؔ ادھر آ کر بیٹھ گئی اور شرارتی نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔کالج میں نوٹس بنوانے سے لے کر آفس میں کام کی ٹریننگ تک لڑکیاں اپنے مرد کولیگز سے ہر قسم کی “فیور” مانگنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔میں خالی نظروں سے اسے تک رہا تھا۔
ارے پاکستانی بوائے، تم اتنے سیریس کب سے ہونے لگے۔ آؤ ہمارے ساتھ ادھر گپ کرو، وہ مجھے ہنسانے کے موڈ میں تھی۔نہیں میں ادھر ٹھیک ہوں، انگلینڈ کے ہریالے میدان میری کمزوری ہیں، مجھے اچھا لگتا ہے انکو کھڑکی سے پیچھے کو بھاگتے دیکھنا۔ میں نے وضاحت کی مگر وہ مطمئن نہ ہوئی۔
تم ریسٹورنٹ والی بات پر اپ سیٹ ہو، ہو نا؟ اس نے زرا آگے جھک کر زور سے کہا، کہ ٹرین پل کے نیچے سے شور کرتی گذر رہی تھی۔میں خاموش رہا، وہ سمجھ گئی۔مجھے اندازہ تھا تم شائد اس بات کو مائنڈ کر جاؤ۔ دیکھو تمہارے کلچر میں کیا ہوتا ہے تم کئی بار بتا چکے ہو۔ میں جانتی ہوں کہ یہ مہمان نوازی وغیرہ تمہارے کلچر میں بہت زیادہ ہے۔ پھر وہ مجھے ستانے کے انداز میں بڑبڑائی، اور ہمارے کلچر میں تو جیسے مہمان کو بھوکا ماردیتے ہیں۔ ہی ہی ہی۔ ہنستے ہوئے اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ مارا۔ارے یار، اتنا سیریس مت لو۔ دیکھو ہمارے کلچر میں بھی کچھ باتیں ہیں جو تمہیں نہیں پتہ۔ مثلاً کوئی لڑکی جب کسی لڑکے سے پھول قبول کر لیتی ہے، اس کا بھیجا تحفہ رکھ لیتی ہے، یا اس کے ساتھ کھانے پر چلی جاتی ہے تو اسکا ایک مطلب ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ لڑکی اس لڑکے سے ایک تعلق بنانے کے لیے رضامند ہے۔ اس پر وہ لڑکا مزید پیش قدمی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ اس لیے ہم لڑکیوں کو یہ تربیت شروع سے ملتی ہے کہ کبھی کسی سے مفت کے تحائف یا کوئی اور سہولت قبول کر کے اس کا حوصلہ مت بڑھاؤ، جس کے ساتھ تم تعلق قائم نہیں کرنا چاہتی۔ ہمارے کلچر میں ایسی لڑکی جو ہر ایک سے کوئی نہ کوئی تحفہ، یا دعوت قبول کر لیتی ہے، بہت بری سمجھی جاتی ہے۔ تم نے جب سب کے سامنے مجھے فری کھانا آفر کیا تو مجھے ایسا ریسپانس دینا پڑا۔ کیونکہ ہم اچھے دوست ہیں، اور میں نہیں چاہتی کہ تم سے فری کھانا کھا کر میں سب کو یہ پیغام دوں کہ ہمارے درمیان دوستی کے علاوہ بھی کچھ چل رہا ہے۔ بس اتنی سی بات تھی۔وہ لمبی چوڑی وضاحت کر کے معذرت بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔
کسی کولیگ سے تحفہ ، سہولت یا رعائت نہ لینا، بات چیت میں اس کو مبہم اشارے نہ دینا، اپنی مشکلات یا زاتی و خاندانی حالات کا شئر نہ کرنا ایسی ہی احتیاطی تدبیریں ہیں جن کو اپنا کر کوئی بھی لڑکی اپنے کولیگز پر یہ واضح کر سکتی ہے کہ وہ جنسی ہراسانی کے لیے “دستیاب” نہیں ہے-اس ایک لمحے میں میں ہزاروں میل کا سفر کر کے اپنے پاکستانی ماحول میں پہنچ گیا۔ جہاں کالج میں نوٹس بنوانے سے لے کر آفس میں کام کی ٹریننگ تک لڑکیاں اپنے مرد کولیگز سے ہر قسم کی “فیور” مانگنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ٹرانسپورٹ کی مجبوری ہو تو پک این ڈراپ کے لیے بھی کسی کولیگ کو زرا زیادہ قریبی بنا لیا جاتا ہے۔ دفتر کا اضافی کام، کینٹین پر برگر شامی فرائز کے چھوٹے موٹے بلز کو ادا کرواتے ہوئے لڑکیاں کبھی نہیں سوچتیں کہ ایسا سب کچھ وہ کس معاشرتی رشتے کے تحت کر رہی ہیں۔ اور ان کے لیے یہ سب کرنے والے اپنے دل میں انکے لیے کس طرح کی امیدیں پال رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں جاری حالیہ ہراسانی کی بحث میں ایسی بہت سی کہانیاں ملیں گی، جنکی بنیادی وجہ یہی اخلاقی تربیت کی کمی ہے۔جنسی ہراسانی میں عموماً لڑکیوں کو مظلوم طبقہ مانا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ جنسی ہراسانی سے روک تھام کے لیے عورت کی معاشرتی تربیت ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ مرد و عورت کے لیے برابری کے مواقع، ایک جگہ پڑھنے، کام کرنے اور ایک جیسے تفریحی ماحول کی فراہمی اگرچہ ایک صحتمند معاشرے کی تخلیق کے لیے ازحد ضروری ہیں۔ مگر مرد و عورت کے اختلاط میں دونوں اصناف کی جو تربیت ہونا چاہیے اس کی شدید کمی ہے۔ ہماری موجود نوجوان نسل اس بدلے ماحول میں خود سے سیکھ رہی ہے مگر کسی طرح کی رہنمائی نہ موجود ہے اور نہ ہی اس رہنمائی کی کمی کا کوئی ادراک ہے۔معاشی حالات کی مجبوریاں میں لاکھوں خاندانوں کی لڑکیوں کو انکی مرضی کے خلاف تلاش رزق کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ ایسے خاندانوں کی لڑکیاں جہاں مرد سے انٹرایکشن صرف بھائیوں اور کزنز تک محدود ہو، جب باہر نکل کر اجنبی مردوں کے درمیان کام کرتی ہیں اور انکے رویوں کا سامنا کرتی ہیں تو انکے پاس ایسی کوئی رہنمائی نہین ہوتی جس کی مدد سے وہ اپنے آپ کو ایسی ہراسانی یا دیگر منفی رویوں سے بچا سکیں۔
میرا خیال ہے کہ ہمارے ہاں لڑکیوں کی اس حوالے سے تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ کسی کولیگ سے تحفہ ، سہولت یا رعائت نہ لینا، بات چیت میں اس کو مبہم اشارے نہ دینا، اپنی مشکلات یا زاتی و خاندانی حالات کا شئر نہ کرنا ایسی ہی احتیاطی تدبیریں ہیں جن کو اپنا کر کوئی بھی لڑکی اپنے کولیگز پر یہ واضح کر سکتی ہے کہ وہ جنسی ہراسانی کے لیے “دستیاب” نہیں ہے اور ایسا کرنے پر اس کے نتائج بھگتنا ہونگے۔