فكر ونظر
ديني زندگي كے ليے سہاروں كي ضرورت
عمار خان ناصر
عام مسلمان دینی زندگی کے لیے نفسیاتی اور معاشرتی سہاروں کا محتاج ہوتا ہے اور مختلف دینی گروہ اور ادارے اس کو یہ سہارا فراہم کر دیتے ہیں۔ یہ جدید معاشرے میں دینی طبقوں کی ایک بڑی خدمت ہے، اگرچہ اس کی قیمت وہ معاشرے سے فرقہ بندی کی صورت میں وصول کرتے ہیں۔ لوگوں کی نماز ہوئی یا نہیں، نکاح باقی رہا یا نہیں رہا، کسی کا جنازہ پڑھنا ہے یا نہیں پڑھنا، ان موضوعات پر مذہبی فتووں کا ہتھیار علماء کے پاس ہوتا ہے جس سے اپنے اپنے ریوڑوں کو سنبھالنے کا کام لیا جاتا ہے۔ چلیں، اس قیمت کے ساتھ بھی عام مسلمان کو دین سے ظاہری وابستگی میں کافی سہارا مل جاتا ہے جس کی قدر کرنی چاہیے۔
لیکن کسی بڑے تہذیبی سوال کو ایڈریس کرنے میں موجودہ دینی روایت کی علمی اہلیت اور قابلیت کیا ہے؟ اس کی ناگفتہ بہ صورت حال ویسے تو کم وبیش ہر بڑے سوال کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے، لیکن مثال کے طور پر اس ایک بڑے اور بنیادی سوال کے حوالے سے اس کو دیکھ لیجیے کہ کسی گروہ کو دائرہ اسلام میں شامل سمجھنے یا نہ سمجھنے کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا؟ یہاں تکفیر کے نظری اصولوں کی بات نہیں ہو رہی کہ اس پر تو دفتروں کے دفتر علمی روایت میں موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عملاً کسی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا ہو تو اس کا معیار اور طریقہ کیا ہوگا؟
ماضی میں اس حوالے سے حتمی اتھارٹی مذہبی علماء کے پاس تھی۔ فتوی اور قضاء کے منصب سے وہ جس فرد یا گروہ کے متعلق تکفیر کا فیصلہ کر دیتے، اس پر احکام نافذ ہو جاتے تھے۔ جدید دور میں دینی روایت کو پہلی دفعہ اس صورت حال سے سابقہ پیش آیا کہ انھیں کسی گروہ کی تکفیر اپنے علاوہ کسی دوسری اتھارٹی یعنی جدید ریاست اور قانون کے سامنے جسٹیفائی کرنی ہے۔ مسئلہ قادیانیوں کے حوالے سے اٹھا تھا اور مذہبی روایت کے نمائندوں کے سامنے سب سے مشکل سوال یہ تھا کہ تکفیر کے فتوے تو ہر معروف مذہبی گروہ نے ایک دوسرے کے متعلق دیے ہوئے ہیں تو قادیانیوں کے متعلق علماء کے فتوے کو کیسے عام تکفیری فتووں سے الگ سمجھا جائے اور سنجیدگی سے لیا جائے؟ اور اگر حقیقی تکفیر صرف قادیانیوں کی ہے تو مختلف گروہوں کی باہمی تکفیر کی حقیقت اور جواز کیا ہے؟
مقدمہ بہاولپور سے لے کر جسٹس منیر انکوائری کمیشن اور قومی اسمبلی کی کارروائی تک ساری بحث کا جائزہ لیں تو صاف نظر آئے گا کہ اس بنیادی سوال کا کوئی تشفی بخش جواب دینی روایت کے پاس نہیں ہے۔ دیوبندی وسلفی موحدین، بریلویوں کی تکفیر کرتے ہیں، بریلوی حضرات وہابی گستاخوں کو خارج از اسلام قرار دیتے ہیں، سنیوں کے نزدیک شیعہ کافر ہیں، لیکن پھر یہ سارے کافر مل کر قادیانیوں کی تکفیر کرنا چاہتے ہیں۔ جب ریاست اور قانون کے سامنے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے تو یہ کہہ کر خلاصی حاصل کر لی جاتی ہے کہ یہ فتوے متفقہ نہیں ہیں اور ان کی ذمہ داری پورا طبقہ نہیں اٹھاتا۔ گویا تکفیر کی عملی بنیاد یہ ہوئی کہ چونکہ ایک دوسرے کو کافر کہنے میں یہ سارے متفق نہیں، لیکن قادیانیوں کی تکفیر پر سب متفق ہیں، اس لیے ان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے۔ قومی اسمبلی میں تو اس سے بھی کمزور بنیاد پر معاملہ طے کیا گیا جو یہ تھا کہ چونکہ قادیانی عام مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں، اس لیے عام مسلمان بھی ان کی تکفیر کا حق رکھتے ہیں (جبکہ خوارج کے باب میں یہ اصول نہیں مانا گیا تھا)۔ پھر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے باوجود ان کو باقی اقلیتوں جیسے حقوق اور آزادیاں دینے کے حوالے سے مذہبی موقف کے تضادات اپنی جگہ لاینحل اور قانونی وفقہی دانش کا منہ چڑاتے رہتے ہیں۔
یہ ایک بڑے تہذیبی سوال یعنی امت کی بنیادی شناخت (عقیدہ ختم نبوت) کے تحفظ کے ضمن میں موجودہ دینی روایت کی اہلیت اور علمی قابلیت کی صورت حال ہے۔ اس پر آپ دوسرے بڑے سوالات کو بھی قیاس کر سکتے ہیں، اور ہم بھی وقتاً فوقتاً ان کی نشان دہی کرتے رہیں گے۔