فكر و نظر
ہماري منافقت اور دہرے معيار
محمد فہد حارث
ہم لوگ بھی بڑے دوہرے معیار والے ہیں۔ فی زمانہ جب ہمارے مسلک کے عالم دین، ہمارے پسندیدہ سیاسی لیڈر یا حکمران طبقے کی بابت کوئی غیر شائستہ بات، کوئی الزام یا کوئی جرم منسوب کیا جاتا ہے تو ہم قوی سے قوی شہادت کو بھی رد کردینے کے درپے رہتے ہیں، ہر ثبوت کو جھٹلانے کو تیار ہوجاتے ہیں کہ ہمارے نزدیک ہمارے لیڈران امانت و دیانت کی اس معراج پر فائز ہوتے ہیں کہ ان کے خلاف ہم آنکھوں دیکھی بات کی بھی تاویل گھڑنے کو تیار رہتے ہیں۔ جہاں تک بات رہی علماء کی تو سچ تو یہ ہے کہ علمی معاملات میں ہم ان کے سہو کے قائل ضرور ہیں لیکن ان کے شخصی کردار و تقوی کی بابت ہمارا رویہ ان کو معصوم عن الخطاء ماننے کے مترادف ہے۔ پھر یہی رویہ ہمارا ائمہ فقہ و محدثین کے تعلق سے بھی ہے کہ ہم نے ان حضرات کو شخصی کردار اور امانت و دیانت کے بلند ترین مرتبے پر بٹھا رکھا ہے لیکن جب بات صحابہ کی آتی ہے تو پھر ہم کذاب و کمزور اور مدلس رواة سے آئی ہوئی روایات کے تحت ان پر امانت و دیانت کے تقاضوں کے خلاف ورزی کرنے والا ہر الزام یہ کہہ کر ماننے پر زور دیتے ہیں کہ صحابہ بھی آخر انسان ہی تھے، پس ان سے غلطیوں کا صدور ہونا محال نہیں بلکہ عین تقاضائے بشریت ہے کہ یہی وہ نقطہ آغاز تھا جہاں سے نبوی منھج پر تعمیر کردہ اسلامی معاشرہ تنزلی کا شکار ہونا شروع ہوا۔ پس ایک گروہ صحابہ کو خائن، جہنم کی طرف دعوت دینے والا، دنیاوی مفادات کے لیے امت کو غلط راہ پر ڈالنے والا اور اپنے ذاتی اغراض کے لیے قرآن و سنت کے احکام کو پس پشت ڈالنے والا ماننے لگا اور كہنے لگا كہ اگر ان كو ايسا مان ليا جائے تو کوئی قیامت نہیں آجاتی۔
یہ بھی ہماری دو رخی کی انتہا ہے کہ ہمارے جس مولف نے بھی سیدنا علی کی سیرت پر قلم اٹھایا، اس کے قلم سے سیدنا معاویہ کی ذات ہدف تنقید بننے سے نہ بچ سکی اور یہی طرز عمل دوسری طرف بھی دیکھنے کو ملا کہ سیدنا معاویہ کی سیرت پر لکھی گئی کتب میں سیدنا علی کے ساتھ انصاف نہیں برتا گیا۔ البتہ میرے علم و ذوق کی حد تک دو کتابیں اس خرابی سے محفوظ رہیں: ایک مولانا محمد نافع کی "سیرت علی المرتضی" اور دوسری حکیم مولانا علی احمد عباسی صاحب کی "سیدنا معاویہ کی سیاسی زندگی"۔ اس کے علاوہ بھی اس سلسلے میں چند مزید کتب کا نام لیا جاسکتا ہے لیکن بیشتر کتب کا طرز عمل وہي رہا جس کی اوپر نشاندہی کی گئی ہے۔
گویا صحابہ کے حالات پر ہمارا قلم اسی قدر بداحتیاطی سے چلتا ہے جس قدر احتیاط کا مظاہرہ ہم اپنے علماء کے نزاعی معاملات بیان کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی حدیث کے عالم کے قلم سے امام ذہلی اور امام بخاری کے مابین مسئہ خلق قرآن کو لیکر جو نزاعی صورتحال پیدا ہوئی تھی، اس کی تفصیلات مطالعہ کرلیجئے کہ مولف کتاب و مضمون نگار مکمل احتیاط اور نوک پلک سنوار کر تمام تفصیلات اس انداز میں رقم کرتے ہیں کہ قاری کے دل میں نہ امام ذہلی کے لیے بدگمانی پیدا ہو اور نہ امام بخاری سے اسے کوئی تنفر محسوس ہو۔ یہی حال ائمہ فقہ کے باہمی تنازعات کا بھی رہا کہ وہاں بھی ہمارے روایت پرست طبقے نے ان نزاعات کو جتنے ایجابی طريقے سے پیش کیا جاسکتا تھا پیش کیا کہ کسی امام، محدث، فقیہ کی بابت کوئی سوئے ظن پیدا نہ ہو۔
اس طرز عمل کو میں اکثر ایک مثال دیکر واضح کرتا ہوں کہ اپنی کتاب "خلافت و ملوکیت" میں تاریخ کے سطحی مطالعہ اور فلسفہ تاریخ سے درک نہ ہونے کے سبب سید مودودی نے سیدنا معاویہ، مغیرہ بن شعبہ، عمرو بن العاص غرض ایک گروہ صحابہ پر جو جو فرد جرم عائد کی ہے، وہ امانت و دیانت اور شخصی تقوی کے اتنے پست ترین معیار کی آئینہ دار ہے کہ خود جماعت اسلامی والے کبھی یہ تصور نہیں کرسکتے کہ سید مودودی، قاضی حسین احمد یا منور حسن جیسے اصحاب سے ان افعال کا صدور ممکن بھی ہے۔ حالانکہ سیاسی و نظریاتی مخالفین نے ہر دور میں جماعت اسلامی کی قیادت پر کیا کیا سنگین الزامات نہیں لگائے لیکن خود اہل جماعت نے ان الزامات کو درخور اعتناء بھی نہ سمجھا کہ ان کے نزدیک جماعت کی قیادت اپنی امانت و دیانت کے تحت ان الزامات سے قطعی بری ہے اور اس سلسلے میں کسی سننے والے کی بات سرے سے قابل غور ہے ہی نہیں۔ لیکن اگر شیعی رجحان رکھنے والے روات اور بنو امیہ کے سیاسی حریف بنو عباس کے وظیفہ خوار درباری مورخین ایک گروہ صحابہ اور جمیع بنو امیہ کی کردار کشی پر مبنی تاریخ بیان کریں تو اسکا ہر ہر لفظ ماننا لازم ہے کیونکہ صحابہ و بنو امیہ کے معاملے میں مخالفین کے لگائے الزامات پتھر کی لکیر ہوتے ہیں۔ یہ دوغلیت نہیں تو اور کیا ہے۔ میں تو فقط اتنا جانتا ہوں کہ کیا جماعت اسلامی کا کوئی ہمدرد و کارکن یہ تصور بھی کرسکتا ہے کہ سید مودودی شخصی کردار و تقوی کے اتنے پست درجے پر فائز تھے کہ جماعت کے بیت المال میں غبن کیا کرتے تھے، اپنی امارت قائم رکھنے کو جماعت کے عہدیداران کے لیے قرآن و سنت کے احکام کو پس پشت ڈال دیا کرتے تھے، بطور سیاسی چال اور اپنی امارت کے استحکام کے لیے کسی غیر خاندان کے نطفہ کو اپنے خاندان میں شامل کرلیں، اپنی مرضی و منشاء سے قرآن و حدیث کے احکام میں رد و بدل کریں وغیرہ وغیرہ؟؟ آپ کے نزدیک سید مودودی تو امانت و دیانت اور تقوی کے اتنے اعلی معیار پر فائز ہیں کہ ان سے ان قبیحات و حرام کاموں کا صدور محال ہے لیکن ایک گروہ صحابہ امانت و دیانت اور شخصی کردار میں اس قدر پست ہے کہ ان پر لگے ان الزامات کو نہ مان کر بعد از تحقیق ان کو غیر درست و غیر واقعاتی قرار دینا "حد سے تجاوز" اور "وکیل صفائی" کا کردار نبھانا ہوجاتا ہے جو ناروا ہے۔ وہ الگ بات رہی کہ خود سید مودودی کو بھی محترم ملک غلام علی کی صورت میں ایک وکیل صفائی میسر آگیا تھا جو سید مودودی کے خود کے بیان کردہ کلیے کی رو سے فی نفسہ لائق استناد و قطعی محمود کاوش قطعی نہیں ہے۔
اس سلسلے میں صرف سید مودودی سے شکوہ تھوڑی ہے۔ یہ غیر منصفانہ طرز عمل تو ہر گروہ ہر مسلک میں پنپتا رہا جہاں اپنے بزرگان تقوی کے اس اعلی معیار پر فائز ہیں کہ اگر اہل تشیع کی جانب سے امام ابو حنیفہ یا امام بخاری پر طعن ہو تو اسکا جواب لکھنا فرض کفایہ اور دین کی بہت بڑی خدمت ٹھہرے لیکن اگر انہیں اہل تشیع سے مذاکرہ چل رہا ہو تو یہ کہہ كر افہام و تفہیم اور گلوخلاصی کی فضاء بنائی جاسکتی ہے کہ اب سیدنا معاویہ کوئی اتنے بڑے صحابی نہیں کہ ان پر لگے الزامات کا دفاع کیا جائے (جو یقیناً ان کے غلط اقدامات کے سبب ہی تھے) جیسا کہ برصغیر کے ایک نہایت جلیل القدر دیوبندی عالم اپنی کتاب میں شیعوں سے مذاکرہ کرتے ہوئے لکھ گئے۔ گویا سیدنا معاویہ کا تقوی و رع اور خشیت الہی اتنی بھی نہیں کہ اسکا مقابلہ امام ابو حنیفہ و امام بخاری کے تقوی اور شخصی کردار سے کیا جاسکے، اس لیے دفاع شخصیت کی جو privileges امام بخاری و امام ابو حنیفہ کو حاصل ہیں، سیدنا معاویہ اس کے کسی صورت مستحق نہیں۔ خوب است۔پھر اسی پر بس کیوں کریں، آگے چلتے ہیں۔ امام بخاری کے علمی مرتبے پر ماضی قریب کے ایک جید حنفی محدث مولف و مرتب انوارالباری کی طرف تنقید سامنے آنے کی دیر تھی کہ علمائے اہلحدیث میں سے ایک جید عالم نے علم الحدیث اور طبقات الرجال کے دفتروں کے دفتر کھنگال کر پہلی دفعہ اردو زبان میں اس موضوع پر ایسا تنقیدی تحقیقی مواد بنام "اللمحات" جمع کردیا جس کی "نظیر" اس سے پہلے ملنا مشکل تھی۔ پھر اللمحات میں مولف نے صرف امام بخاری کے علمی مرتبے کا ہی بھرپور دفاع نہیں کیا بلکہ امام بخاری کی علمی عظمت و جلالت کے پیش نظر ان سے محبت و عقیدت کے ضمن میں ہر اس شخصیت کے پرخچے اڑا کر رکھ دئیے جن کے دفاع میں مولف و مرتب انوار الباری نے امام بخاری کے علمی مرتبے پر کلام کرنے کی جرات رندانہ کی تھی۔ گویا جن معاملات کا علامہ ابن تیمیہ "رفع الملام عن الائمة الاعلام" میں ضمنی طور پر تصفیہ کرچکے تھے، امام بخاری کی محبت و حمیت میں بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے مولف اللمحات نے خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد اور متقدمین کی مرتب کردہ کتب اسماء الرجال سے ان کو دوبارہ موضوع بحث بنادیا اور یوں اردو داں طبقہ جن گنجلک اور پر خطر مباحث سے نا آشنا تھا، ان تک اللمحات کے ذریعے اس کی رسائی ممکن ہوسکی۔تاہم یہی اہلحدیث عالم جن کو امام بخاری کے علمی مرتبے میں کسی قسم کی کمی یا قدح منظور نہ تھی اور اس سلسلے میں "حق تحقیق" ادا کرتے ہوئے انہوں نے کسی بڑے سے بڑے امام کو لائق اعتناء نہیں سمجھا اور اللمحات جیسی ضخیم کتاب تصنیف کرڈالی، وہی عالم مولف "خلافت معاویہ و یزید" کی "ناصبیت" کے رد میں سیدنا علی و حضرات حسنین کے "مقابل" گروہ صحابہ کو کسی قسم کی رعایت نہ دیتے ہوئے ان کو منافق، چالباز، مکار اور سیدنا حسن کو زہر دیکر کر "راستے سے ہٹانے" کا الزام لگانے سے نہ چوکتے۔ گویا امام بخاری کے مقام و مرتبے کے لیے اتنی حساسیت کہ تحقیق کی غرض سے علم الحدیث کا پورا دفتر کھنگال کر احادیث تو کجا اقوال محدثین کے روات پر جرح و تعدیل روا کردی جاتی ہے لیکن جب بات سیدنا معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ وغیرہم جیسے اصحاب رسول کی آتی ہے تو پھر ابو مخنف سے لیکر یعقوبی و مسعودی کی بیان کردہ تاریخ بغیر کسی چھان پھٹک کے ایسے قطعیت کے ساتھ پیش کردی جاتی ہے جیسے صحیحین چھوڑئیے قرآن کے درجے کی ہو کہ اس سے ایک گروہ صحابہ نفاق پر عمل پیرا بتادیا جاتا ہے۔ پس اس کا منطقی نتیجہ تو یہی برآمد ہوتا ہے کہ اپنے شخصی کردار اور تقوی کے لحاظ سے سیدنا معاویہ، مغیرہ بن شعبہ، عمرو بن العاص اس قابل بھی نہیں کہ امام بخاری کی طرح ان کے جائز مقام و مرتبے کی حفاظت کے لیے کچھ محنت کرلی جائے۔ میں جب بھی مولف اللمحات کی کتاب اللمحات اور ان کے "ناصبیت" کے رد میں لکھے مضامین کا تقابل کرتا ہوں تو پہلا اور آخری تاثر یہی ابھرتا ہے کہ امام بخاری کا مقام و مرتبہ اور تقوی و خشیت الہی سیدنا معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ وغیرہم جیسے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و دیانت اور تقوی و رع سے بہت بڑھ کر تھا۔ امام بخاری شخصی کردار کے لحاظ تقریباً تقریباً "معصوم عن الخطاء" تھے جبکہ مذکورہ گروہ صحابہ کی زندگی حکومت و امارت کی لالچ میں معصیت پر اصرار اور فسق کے کاموں سے بھری پڑی تھی۔
قصہ المختصر ماضی قریب میں ہماری علمی روایت میں یہ بات کلیے کے طور پر متعارف ہوچکی ہے کہ صحابہ پر جب بھی کلام ہوگا تو ان کو بشر اور خطا کا پتلا سمجھ کر ان کی اغلاط اور معاصی اجاگر کیے جائینگے جبکہ جب بات ائمہ و محدثین و علماء و سیاستدانوں کی ہوگی تو ان کے خلاف آئی ہر بات ان کے مقام و مرتبہ اور امانت و دیانت کے ضمن میں بلا تحقیق رد کردی جائے گی یا پھر اسکی تاویل کی جائے گی۔