دين و دانش
سلف كي كتابيں
فہد حارث
سوشل میڈیا پر از خود مطالعہ کرکے لوگوں کو بھانت بھانت کی بولی بولتے سنتا ہوں تو اس چیز کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ مطالعہ کا شوق رکھنے والی عوام کے اندر سلف کی کتابوں کے منھج سے متعلق معلومات متعارف کروائی جائيں تاکہ انکے علم میں یہ بات آئے کہ کس کتاب سے کیسے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ کتب کے مناھج سے ناواقفیت کے سلسلے میں از خود مطالعہ کرنے والے افراد اور مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ میں کچھ خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ کچھ عرصہ قبل اسی فیس بک پر ایک صاحب کی تحریر پڑھی جس میں موصوف نے ایک مشہور بدعی مسئلہ کی حقانیت پر بطور ثبوت ایک موضوع حدیث پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ "صحیح السند" روایت عظیم حنفی محدث و فقیہ مُلّا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب موضوعات کبیر "شریف" میں نقل کی ہے۔ اب بتائیے کہ بخاری شریف اور مسلم شریف کی طرح موضوعات کبیر بھی شریف ہوئی اور جس کتاب میں ملا علی قاری نے ضعیف و موضوع روایات جمع کرکے انکا ابطال کیا ہے، اسی کتاب سے ایک سخت ضعیف روایت کو جس پر خود ملا علی قاری حنفی موضوع ہونے کا کلام کرچکے ہیں، اس کو "صحیح السند" کہہ کر پیش کیا جارہا ہے اور ساتھ اس سے مسئلہ بھی ثابت کیا جارہا ہے۔
اسی طرح کچھ عرصے قبل ایک صاحب کی پوسٹ دیکھی جو ماضی قریب کے ایک مشہور محدث کے شاگرد ہونے کا دعوی کرتے پائے گیے ہیں۔ موصوف پوسٹ میں فرماتے ہیں کہ مالک الاشتر نخعی کو ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے صحابی قرار دیا ہے کیونکہ انہوں نے الاشتر کا ذکر صحابہ کے تراجم پر مبنی اپنی کتاب "الاصابہ فی تمییز الصحابہ" میں کیا ہے۔ حیرت تو اس وقت ہوئی جب اس پوسٹ پر صاحب پوسٹ کے بھائی جو کراچی کے ایک مشہور مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے کے دعویدار ہیں نے غالبا دل والا لائیک مارا ہوا تھا۔ گویا نہ محدث صاحب کے شاگرد "جلیل" کو اور نہ ان شاگرد کے درس نظامی سند یافتہ بھائی کو یہ علم ہے کہ ابن حجر نے الاصابہ میں جن حضرات کا ذکر کیا ہے، ان کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے جس میں قسم اول میں شامل حضرات ابن حجر کے نزدیک متفقہ صحابی اور قسم دوم کے ذیل میں ذکر کردہ افراد صغار صحابہ یا غالب گمان کے تحت صحابی ہوتے ہیں۔ جبکہ قسم سوم اور چہارم ان حضرات کے ذکر پر مشتمل ہے جو ابن حجر کے نزدیک منصب صحابیت پر فائز نہیں ہیں اور ابن حجر سے پہلے گزرے کسي عالم نے انکا ذکر سہواً صحابہ میں کردیا ہے۔ اپنی کتاب کے منھج کی یہ تفصیلات ابن حجر الاصابہ کے مقدمے میں انتہائی تفصیل و تسہیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اور اتفاق دیکھیے کہ جس صفحے پر ابن حجر نے قسم سوم کی سرخی ڈال کر باب شروع کیا ہے، اسی صفحے پر غالبا پہلا یا دوسرا نام مالک الاشتر نخعی کا لکھا ہے۔ لیکن اس کو الاصابہ کے منھج سے ناواقف ہونا کہیں یا پھر کچھ اور کہ موصوف اور ان کے عالم بھائی کو یہ علم ہی نہیں کہ قسم سوم کے ذیل میں مالک الاشتر کا ترجمہ لاکر ابن حجر درحقیقت اسکی صحابیت کی نفی کررہے ہیں۔
یہی حال آج تفسیر ابن کثیر کے حوالے سے دیکھا کہ جہاں ایک صاحب تفیسر ابن کثیر کے حوالے سے صحیح مسلم کی ایک روایت نقل کرکے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ابن کثیر نے فلاں صحابی پر لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کا حکم دینے کا الزام لگایا ہے۔ جبکہ جو حضرات تفسیر ابن کثیر کے منھج سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ابن کثیر کسی بھی آیت سے متعلق ہر طرح کی روایات کو امت کی معلومات کے لیے شامل کتاب کر دیتے ہیں اور اس آیت سے ان کے پیشرووں نے کیا کیا استدلال کیے ہیں، وہ بھی نقل فرمادیتے ہیں۔ اس سے یہ قطعی لازم نہیں آتا کہ ابن کثیر کا اپنا موقف بھی وہی ہے جب تک کہ وہ قطعیت سے اپنے موقف کی صراحت نہ کریں۔ اسی سبب بعض اہل علم کا ماننا ہے کہ تفسیر طبری اور تفسیر ابن کثیر تفسیر سے زیادہ "موادِ تفسیر" کی کتابیں ہیں۔
اسی طرح ایک دفعہ کسی حد تک دین پڑھے لکھے ایک صاحب مجھ سے ترمذی کی ایک ضعیف حدیث کے صحیح ہونے پر یہ کہہ کر مستقل اصرار کرتے رہے کہ ترمذی "صحاح ستہ" میں شامل ہے اور صحاح ستہ میں شامل تمام کتب میں "صرف" صحیح احادیث ہوتی ہیں تب ہی وہ صحاح ستہ کہیں جاتی ہیں ۔ پس ان کی پیش کردہ روایت پر فلاں محدث کی جرح مردود ہے کیونکہ ان محدث کا مقام ترمذی سے ارفع تھوڑی ہے۔
خیر ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جن پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلف کی کتابوں کے مناھج سے واقفیت رکھے بناء ان سے اخذ معلومات اکثر و بیشتر ضلالت و خطاء کا سبب بنتا ہے۔ اور اس خطاء میں عامی و سند یافتہ کسی کی تخصیص نہیں۔ یہاں تک کہ کتابوں کے مناھج کی اسی عدم واقفیت کے سبب ماضی قریب کے ایک عظیم اسکالر و مفکر نے جب تاریخ کے موضوع پر خامہ فرسائی کرنا چاہی تو اپنی لاکھ قابلیت کے باوجود کتب تاریخ کے منھج سے ناواقفیت کے سبب اخذ و فہم تاریخ میں سخت ٹھوکر کھائی اور ایک ایسی کتاب تالیف کرگیے جو ان کے تمام محمود و از حد علمی کاموں کے مقابلے میں نہایت کمزور و قابل رد ثابت ہوئی اور تقریبا اہلسنت کے ہر مسلک کے اہل علم کی طرف سے اس پر نقد کیا گیا۔
الغرض عامی ہو یا عالم، کتابوں کے مناھج سے واقف ہوئے بنا انکا مطالعہ کرنا یا ان سے معلومات اخذ کرنا ہمیشہ غیر صائب نتایج پر منتج ہوتا ہے۔ پس کوشش کرنی چاہیئے کہ سلف کی کتب کا مطالعہ کرنے سے قبل ان کے مقدمات کو نہایت شرح و بسط سے سمجھ لیا جائے کیونکہ عموما سلف اپنی کتب کے مقدمات میں نہایت جامع انداز میں اپنی کتاب کا منھج اور اس سے اخذ معلومات کا درست طریقہ بیان کردیتے ہیں۔ اور جن کتب کے مقدمات سے انکا منھج واضح نہ ہورہا ہو تو اس کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ کتاب جس موضوع سے متعلق ہے، اس موضوع کے متخصص کسی جید و صاحب علم عالم سے کتاب کے منھج سے متعلق معلومات حاصل کرلی جائے۔