آواز دوست
مثال ایک پنسل کی
محمد صديق بخاري
پنسل بنانے والے نے پنسل بناکر اس کو ڈبے میں پیک کرنے سے پہلے کہا، اس سے قبل کہ میں تمہیں دنیا میں بھیجوں،میری پانچ باتیں پلے باندھ لو۔ اگر تم نے ان پر عمل کیا تو تم دنیا کی بہترین پنسل بن جاؤ گی۔
ا۔اس نے کہا پہلی بات یہ ہے کہ تم بہت بڑے بڑے کام کر سکتی ہو، نہایت اعلی نقشے بنا سکتی ہو، بہت خوبصورت تصویریں تخلیق کر سکتی ہو، بہت خوبصورت افسانے اور کہانیاں لکھ سکتی ہو، طالب علموں کا سرمایہ بن سکتی ہو،اقوام کی تقدیر بدل دینے والی شاعری کہہ سکتی ہو حتی کہ اللہ کا کلام بھی لکھ سکتی ہو لیکن اس کے لیے تمہیں خود کو کسی او رکے حوالے کرنا ہو گا۔
۲۔ تم خو د کو جس کے سپر د کرو گی وہ تمہیں وقتاً فوقتاً تراش خراش کے عمل سے گزارتا رہے گا۔ یہ یقینا ایک تکلیف دہ عمل ہے لیکن اگر تم نے اسے برداشت کر لیا تو تم دنیا کی بہترین پنسل کہلاؤگی۔ تمہاری خوبصورت تحریر، تمہاری خوبصورت مصوری اور تمہاری خوبصورت نقشہ گری سب اس تراش خراش کی مرہون منت ہو گی۔
۳۔تم سے غلطیا ں بھی سرزد ہو ں گی مگر میں نے تمہارے ساتھ ایک چھوٹا سا ریزر بھی فٹ کر دیا ہے جس سے تم اپنی غلطیوں کو بآسانی محو کر سکو گی۔اس لیے غلطیوں سے نہ گھبرانا۔ جو کام کرتا ہے اس سے غلطیاں بھی ہو تی ہیں لیکن اگر وہ اپنی غلطی کو مان لے اور اس کو درست کر لے توہر غلطی کی درستی اس کے اندر ایک نیا نکھار لے آتی ہے۔
۴۔یا د رکھو کہ تمہارے جسم کا سب سے قیمتی حصہ تمہارے خول کے اند ر ہے۔ تن کے اندر اس من کا خیا ل رکھو گی تو تم ٹھیک کام کر سکو گی اگر تم نے اپنے خول کو صاف ستھرا رکھا اوراندروالے جوہر کی تہذیب نہ کی تو لوگ تمہیں پنسل تو کہیں گے لیکن بے کار۔
۵۔تمہیں اس سے کوئی غرض نہ ہو نی چاہیے کہ کاغذ کھردرا ہے یا ملائم، کینوس بڑا ہے یا چھوٹا،ورق ردی ہے یا اعلی تمہیں ان سب پہ چلنا ہے او رچلتے رہنا ہے۔ چلتی رہو گی تو ہر سطح پر کام کر سکو گی اور ہر قسم کے لوگ تم سے پیار کریں گے۔
پنسل گر نے پنسل کو یہ پانچ نصیحتیں کیں، پنسل نے ان پر عمل کا وعدہ کیا تو اس نے پنسل کو ڈبے میں پیک کر کے دنیا کے حوالے کر دیا۔یہ پنسل جہاں بھی گئی اپنا نشان چھوڑگئی اور لوگ ہمیشہ اسی نسل کی پنسل تلاش کرنے لگے۔
اب پنسل کی جگہ خود کو تصور کیجیے اور یہی پانچ نصیحتیں اپنے پلے باندھیے تو یقین جانیے کہ آپ وہ بہترین انسان بن جائیں گے کہ جسے مالک بھی پسند کرے گا او ر بندے بھی۔
ا۔ہر انسان بہت بڑے بڑے کام کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ خود کو مالک کے سپرد کر دے (وافوض امری الی اللہ۔۔۔۔۔تسلیم بھی اور تفویض بھی)جس نے بنایا ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ اسے کس طرح استعمال ہونا ہے۔ اگر مالک کی مرضی کے مطابق استعمال ہونا سیکھ لیا تو بہترین بندے بن جائو گے۔خود کو مالک کے ہاتھ میں دو اوراسی مالک کے دوسرے بندوں کو اس کی اجازت دوکہ تمہیں جو منفرد صلاحتییں عطاکی گئی ہیں وہ ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔یا د رکھو کہ پنسل والے نے تو ساری پنسلیں ایک ہی سانچے میں بنائی تھیں لیکن مالک نے جتنے بندے بنائے ہیں اتنے ہی سانچے بھی اس کے پاس ہیں ہر بندہ الگ ہے اس لیے ہر بندے کو اپنی انفرادیت پہچاننی ہے۔
۲۔ پنسل کیطرح تمہارا مالک بھی تمہیں تراش خراش کے عمل سے گزارے گالیکن اگر تم نے اس تراش خراش یعنی آزمایشوں (ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس والثمرات۔۔۔۔۔)کو برداشت کر لیا تو تم مالک کے پسندیدہ بندے بن جائو گے پھر وہ تم پر آسانیوں کے ایسے راستے کھول دے گا جن کا تمہیں گمان بھی نہ ہو گا۔(واذ ابتلی ابراہیم ربہ قال انی جاعلک للناس اماما۔۔۔۔۔۔ومن یتق اللہ بجعل اللہ مخرجا۔۔۔ویرزقہ من حیث لا یحتسب۔۔۔۔۔۔)
۳۔تمہارے اندر بھی مالک نے توبہ اور استغفار کا ریزر رکھ دیا ہے جس سے تم جب چاہو اپنی غلطیوں کی اصلا ح کر سکتے ہو۔
۴۔تمہارا قیمتی حصہ بھی وہ نہیں جو نظر آر ہاہے بلکہ اس کے اندر ہے جسے قلب یا نفس کہا جاتا ہے اس لیے تمہیں جسم سے زیادہ اس کا خیال کرنا ہے یا د رکھو اگر وہ صحیح رہا تو تمہارا جسم بھی صحیح سمت چلے گا اگر وہ خراب ہو گیا تو پھر تمہارے جسم کو جہنم کا ایندھن بننے سے کوئی نہ روک سکے گا۔جیسا کہ فرما یا گیا ألا ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ, ألا وہی القلب۔
۵۔یا د رکھو کہ تمہیں بھی ہر طرح کی زمین پہ چلنا ہے اگر تم نے چلتے رہنے کا عزم کر لیا تو پھر چاہے زمین پتھریلی ہو یاریتلی، ہموار ہو یا نوکیلی، نر م ہو یا سخت، اور گیلی ہو یا خشک تمہیں بہر حال اس پہ اپنا نشانِ قدم چھوڑنا ہے او رایسے چھوڑ نا ہے کہ پیچھے آنے والو ں کو اس سے راستہ مل سکے۔ یا د رکھو تمہاري وجہ سے لوگ راستے کا نشان پائیں نہ کہ راہوں کو گم کر دیں۔
اگر پنسل کی پانچ باتوں سے تم نے یہ پانچ سبق حاصل کر لیے تو بلا شبہ تم ان میں سے قرا ر پائو گے کہ جن کے دل سیدھے ہیں اور وہ ہر بات سے ہدایت حاصل کر لیتے ہیں نہ کہ ان میں سے جو ہر بات میں زیغ، ٹیڑھا پن اور کجی تلاش کر لیتے ہیں۔ خود بھی ٹیڑھے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی ٹیڑھا کر دیتے ہیں۔
عقل مند ہے وہ جو مثالوں اور دوسروں کے تجربات سے سبق سیکھ لے۔ سبق تو اسے سیکھنا ہے بہتر ہے کہ مثالوں سے سیکھ لے ورنہ زندگی اسے مصائب اور تجربا ت کی بھٹی میں ڈال کے سبق سکھائے گی۔ اسی طرح عقل مند ہے وہ جو اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنا تزکیہ کر لے۔تزکیہ تو ہونا ہے یہاں کر لو گے تو بڑے آرام سے ہوجائے گا ورنہ وہاں ہو گا اوروہاں تزکیے کے لیے سوائے جہنم کے کچھ بھی نہیں۔جنت میں جانے کے لیے تزکیہ شرط ہے۔ انتخاب ہمارا اپنا ہے،مثالوں سے سیکھنا ہے یا کہ دنیاکی بھٹی سے اور یا پھر جہنم کی گھاٹی سے۔(عربی ادب سے ماخوذ)