فكر و نظر
خیر القرون کا اسلام اور آج کا دور
محمد فھد حارث
امام ابن تیمیہ، ابن قیم، امام شوکانی، امام فلاں، امام فلاں ۔۔۔ پر تصوف دور خیر القرون سے بر آمد نہ ہوسکا۔ سو کوشش کرکے اسکو نصوص کے بجائے شخصیات سے برآمد کروایا جارہا ہے۔ لفظ تصوف تک تو خیر القرون سے ملتا نہیں ہے۔ ہاں البتہ قرآن، حدیث، سنت اور فقہ یہ سب الفاظ خیر القرون سے مل جاتے ہیں۔ یہ شاید واحد معاملہ ہوگا جہاں تاویلیں اتنی بودی ہیں کہ دل ہی نہیں آمادہ ہوتا کہ انکا جواب دیا جایے۔ جن کا دین مقبروں اور مزاروں سے وابستہ ہو وہاں کشف قبور اور قبروں کی مجاورت کی تعلیمات ہی مل سکتی ہیں۔ اتنی دقیق وجودی و شہودی توحید عرب کے بدووں پر اتری ہوتی تو بیچاروں نے ہلکان ہوجانا تھا۔
آپ خیر القرون کے دور کو کسی بھی مستند تاریخی و حدیثی کتاب میں ملاحظہ فرمالیں۔ وہ معاشرہ آپ کو آج بر صغیر پاک و ہند میں رائج مسلم معاشرے سے قطعی جدا نظر آئے گا۔ اس معاشرے میں آپ کو صلوة کا خاص اہتمام دیکھنے کو ملے گا، مزارات کا کوئی وجود نظر نہ آئے گا، عید و بقر عید کے علاوہ اور کوئی خاص دن معلوم نہ ہوگا، رمضان و ذی الحجہ کے علاوہ کسی مہینہ کا اہتمام نظر نہ آئے گا۔ کہیں نہیں دیکھنے کو ملے گا کہ لوگ قرآن خوانی کے نام پر ایک دوسرے کے گھر میں جمع ہورہے ہیں، نہ ہی میلاد کی محفلیں اور ربیع الاول میں سیرت کانفرنسس کا انعقاد ملے گا۔ تعویذ لکھ کر دینے والے بھی نظر نہ آئینگے اور نہ تعویذ پہننے والوں کا وجود نظر آئے گا۔
آپ کو کوئی ایسا شخص نظر نہ آئے گا جو تعزیہ داری و محرم الحرام کے سوگ کا اہتمام کرتا ہو۔ اجتماعی سطح پر موجودہ زمانے کے کئی رسوم و رواج جو دین کے نام پر مروج ہیں، خیر القرون کا دور ان سے خالی ملے گا۔ یہ بھی نظر نہ آئے گا کہ صحابہ و تابعین ایک دوسرے کو ایصال ثواب کررہے ہیں اور نہ عمرے پر جانے والے لوگوں کا بھاگ بھاگ کر مسجد عائشہ رض سے کئی کئی عمرے کرنے کا ثبوت ملے گا۔ لوگوں میں تلاوت قرآن پاک کی کثرت نظر آئی گی، قوم زندہ محسوس ہوگی اور ان کی ترجیحات صرف اور صرف دین نظر آئے گا۔ کھانے پینے سے لیکر سونے جاگنے تک ہر چیز میں آپکو اللہ، رسول، سنت جیسی اصطلاحات کا استعمال کثرت سے ملے گا۔
بڑا آدمی وہ نظر آئے گا جو یا تو بڑا عالم ہو یا بڑا مجاہد، امیروں کی حیثیت بالکل ثانوی محسوس ہوگی اور آپ انکو اہل علم اور مجاہدین کے آگے پیچھے گھومنے والا دیکھیں گے جن کی قربت کو علماء زیادہ پسند کرتے محسوس نہ ہونگے۔ دنیا سے بے رغبتی از حد زیادہ نظر آئے گی لیکن ساتھ ہی دنیاوی علوم میں تحقیق و جستجو کا جذبہ واضح دیکھا جاسکتا ہوگا۔ لوگ بڑھ بڑھ کر صدقہ و خیرات کرنے والے نظر آئینگے لیکن ساتھ ہی سائل کی بے مثال غیرت بھی دیکھنے کو ملے گی۔ آپکو کبھی نہ نظر آئے گا کہ لوگوں میں توسل و حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مسائل موجود ہیں۔ ہر کوئی براہ راست اللہ سے دعا مانگتا نظر آئے گا تو دوسری طرف ایسے کوئی مباحث لوگوں کے درمیان نہ دیکھیں گے جن میں عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ ذکر ہورہا ہو۔ شب قدر کی جستجو میں لوگوں کو اپنی رات "کالی" کرتے دیکھیں گے لیکن شب برات نامی کسی رات کا کوئی ذکر ہی نہ سنیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر گئے اسکا ذکر کرتے کئی لوگ مل جائینگے لیکن معراج کب ہوئی، اس میں جاگ کر عبادت کرنی ہے ایسا کرتا کوئی نظر نہ آئیگا۔
نہ سوئم، نہ دسواں، نہ چالیسواں کچھ نظر نہ آئے گا۔ اہل بدعت سے بیزاری اور انکا ایک طرح کا معاشرتی مقاطعہ نظر آئے گا تو اہل توحید کا فروعی مسائل کے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے سے اتحاد صاف دیکھا جاسکتا ہوگا۔ علماء انتہائی حلیم، بردبار اور عاجز و منكسر نظر آئیں گے، علم کا غرہ ان میں نام کو نہ ملے گا۔ مشاجرات صحابہ کا زمانہ قریب ہوتے ہوئے بھی ان جنگوں کے گزرنے کے بعد کوئی ان مسائل پر بات کرنے والا نظر نہ آئے گا سوائے شر پسند طبقات کے۔ انسان کی زندگی کا واحد مقصد اللہ کے دین کی سرفرازی، توحید کا بول بالا اور اس کے نظام کا نفاذ محسوس ہوگا۔ توحید سب سے اول اور سب سے اوپر نظر آئے گی۔ حدیث پر کلام کرنے والے بے شمار لوگ نظر آئینگے۔ ایسا محسوس ہوگا جیسے لوگوں کا اوڑھنا بچھونا اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ معاشرے میں نمایاں و امتیازی نظر آنے کی صرف ایک صورت محسوس ہوگی کہ کس طرح سے ہو خود کے شب و روز کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈھال لیا جائے۔ غیر اقوام یا غیر مذاہب والوں سے کوئی مماثلت یا مرعوبیت ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی۔ معتدل پہننا اوڑھنا اور کھانا پینا نظر آئے گا۔ لباس و طعام کو غرور و افتخار کے لئے استعمال کرنے والے شاید ایک آدھ بھی نہ مل سکیں۔ دین و معاشرے میں امتیاز حاصل کرنے کا واحد طریقہ صرف دین کی مکمل پیروی نظر أئے گی۔ اللہ کی طرح لوگوں کے ہاں بھی صرف وہی مقبول نظر آئے گا جو تقوی میں بڑھ کر ہو۔
اب بات آتی ہے کہ جو کچھ آج مسلم معاشرے میں رائج ہے تو اسکے شواہد و نظائر بھی تو خیر القرون سے ہی لائے جاتے ہیں، اس سلسلے میں صرف دو باتیں عرض ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ شواہد و نظائر خیر القرون کے معاشرے کے مجموعی طرز عمل میں اجنبی محسوس ہوتے ہیں۔ دوم یہ کہ ان کا دارومدار "خیر القرون کے عملی وخبری تواتر" کے برعکس چند "مختلف فیہ حیثیت روایات" پر ہے جو کسی طور سے نہ کسی معاشرے کی درست عکاسی کرنے کی نمائندہ قرار دی جاسکتی ہیں اور نہ اس کے مجموعی طرز عمل کی نفی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ الغرض خیر القرون کے دور اور آج کے دور کا تقابل کرلیں اور جان لیں مسلم امہ کی زبوں حالی کی اصل وجہ۔