دين و دانش
پردہ اور اسلاف
عمار خان ناصر
عورتوں اور مردوں کے اختلاط، دائرہ کار اور سماجی سرگرمیوں میں شرکت، خاص طور پر پردے وغیرہ سے متعلق اساطین اہل علم کی یہ چند عبارات ملاحظہ ہوں۔
پہلی عبارت امام مالک کی موطا سے ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ خاتون کے لیے ایک دسترخوان پر بیٹھ کر جہاں غیر محرم بھی موجود ہوں، کھانا کھانا بالکل درست ہے جبکہ یہ چیز وہاں کے عام دستور اور رواج کے مطابق ہو۔ جو بات ممنوع ہے، وہ دراصل غیر محرم کے ساتھ تنہائی میں اکٹھا ہونا ہے۔
دوسری عبارت امام شافعی کی الام سے ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ یتیم بچی بالغ اور سمجھ دار ہونے پر اپنے مال پر ملکیت اور تصرف کا اسی طرح حق رکھتی ہے جیسے لڑکا رکھتا ہے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ مالی امور میں سمجھ داری ایسی خواتین میں جن کا بازار میں آنا جانا اور لوگوں سے اختلاط ہو اور وہ خود کسب معاش کرتی ہوں، ان خواتین کی بہ نسبت جلدی پیدا ہوتی ہے جو گھروں تک محدود رہیں۔ (گویا ایک طرح سے وہ ترغیب دے رہے ہیں کہ بچیوں کو ان کے مالی حقوق میں خود مختار بنانے کے لیے اس طرح کی تربیت اور عملی تجربے کے مواقع ان کو مہیا کرنے چاہییں)۔
تیسری عبارت امام سرخسی کی المبسوط سے ہے جس میں وہ فقہائے احناف کی طرف سے اس استدلال کا جواب دے رہے ہیں کہ چونکہ عورت کا اپنے چہرے کو ظاہر کرنا موجب فتنہ ہو سکتا ہے، اس لیے چہرے کا پردہ واجب ہے۔ سرخسی کہتے ہیں کہ خوف فتنہ عورت کو اس کا پابند کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتا، البتہ مردوں کو التزام کرنا چاہیے کہ وہ بری نظر سے خواتین کو نہ دیکھیں۔ سرخسی بتاتے ہیں کہ ائمہ احناف سماج میں عورت کے لیے ناگزیر اختلاط کے پہلو سے اس کے پاؤں، دانتوں اور کلائیاں وغیرہ ظاہر کرنے کے جواز کے بھی قائل ہیں۔
چوتھی عبارت ملا علی القاری کی المسلک المتقسط سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حج یا عمرے کے لیے جیسے ہی آدمی مکہ پہنچے تو اسے سامان رکھ کر فوری طور پر بیت اللہ کی زیارت کے لیے جانا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی خاتون ایسی ہو جو مردوں کے سامنے نہ آتی ہو تو اس کے لیے پسندیدہ ہے کہ وہ زیارت بیت اللہ کو رات تک موخر کر دے کہ اس طرح وہ خود کو مستور رکھ سکے گی۔ ملا علی قاری نے اس میں یہ وضاحت شامل کی ہے کہ عورت چاہے خوبرو ہو یا نہ ہو۔ مراد یہ کہ مردوں کے سامنے آنے یا نہ آنے کا تعلق خوبصورتی یا خوف فتنہ سے نہیں، بلکہ عورت کی عادت اور معمول سے ہے۔
صاف سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ ائمہ اس مسئلے کو بنیادی طور پر ایک کلچرل مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں جسے جدیدیت کے رد عمل میں ہمارے ہاں علماء نے ایک مذہبی اور اقداری چیز بنا دیا ہے۔ اس کا نقطہ عروج مولانا مودودی علیہ الرحمہ کا یہ موقف ہے کہ خواتین کا، گھر سے باہر کی سرگرمیوں سے کیا لینا دینا؟ ان کا ٹھکانہ گھر ہے جہاں سے وہ کسی مجبوری یا عذر کی بنا پر ہی باہر نکل سکتی ہیں۔