دين و دانش
معراج اور وضعي قصے
محمد فہد حارث
معراج سے متعلق کتب سیرت میں کئی وضعی قصے مروی ہیں جن میں بیشتر عجیب و غریب قسم کے واقعات اور بے سروپا روایات نقل ہوئی ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک کہانی یہ بھی نقل کی جاتی ہے کہ معراج کی رات نبیﷺ اپنی چچازاد بہن ام ہانیؓ بنت ابی طالب کے گھر استراحت فرمارہے تھے اور وہیں سے آپ معراج پر تشریف لے گئے۔ اور معراج سے واپسی پر بھی آپ انہیں کے ہاں آئے اور ان کو سارا قصہ سنایا جس پر ام ہانیؓ نے نبیﷺ کو قریش کو یہ باتیں بتانے سے منع فرمایا کہ قریش آپ کی تکذیب کریں گے اور ساتھ آپ کو روکنے کو آپ کی چادر یا دامن پکڑا تو آپﷺ کا پیٹ نظر آیا جو سکڑی ہوئی چادر کی طرح تھا۔ اس لغو قصے پر کلام کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی مرحوم سیرت النبیﷺ جلد سوم صفحہ ۲۶۳ کے حاشیہ نمبر ۲ کے تحت لکھتے ہیں:"اس شب کو جس مقام پر آپﷺ استراحت فرماتے تھے اور جہاں معراج کا واقعہ پیش آیا، اس کی تعيین میں اختلاف بیان کیا جاتا ہے۔ صحیحین میں حضرت مالکؓ اور حضرت انسؓ کی جو روایتیں ہیں ان میں بتصریح تمام یہ مذکور ہے کہ آپﷺ مسجدِ حرام (کعبہ) میں تھے اور اسی کے بیرونی گوشہ میں جس کا نام حجر اور حطیم ہے، آپﷺ سورہے تھے۔ یہ تو صحیحین کا بیان ہے۔ بعض نیچے درجے کی روایتوں میں ہے کہ ام ہانیؓ کا بیان ہے کہ نبیﷺ کو میرے ہی گھر میں معراج ہوئی۔ ام ہانیؓ کا گھر شعب ابی طالب میں تھا، یہ روایت مشہور دروغ گو کلبی کی ہے۔ اس میں حد درجہ لغو و غریب و منکر باتیں مذکور ہیں۔ مسند ابو یعلیٰ میں ام ہانیؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ عشاء کی نماز پڑھ کر ہم لوگوں کے ساتھ میرے ہی مکان میں سوئے، شب کو میری آنکھ کھلی تو آپﷺ کو نہ پایا۔ رؤسائے قریش کی دشمنی کے باعث دل میں عجیب عجیب بدگمانیاں پیدا ہونے لگیں، نیند نہ آئی، صبح اٹھ کر نبیﷺ نے معراج کا واقعہ بیان کیا اور فرمایا: "میں رؤسائے قریش سے کہنے جاتا ہوں۔" میں نے آپﷺ کا دامن پکڑلیا کہ خدا کے لیے ان سے نہ کہئے وہ تکذیب کریں گے اور آپﷺ کی جان پر حملہ کریں گے لیکن آپﷺ نے نہ مانا اور دامن جھٹک کر چلے گئے، ان روایتوں میں علاوہ اور لغویات کے عشاء اور صبح کی نمازو جماعت کی تصریح کس قدر غلط ہے کہ یہ نمازِ پنجگانہ تو عین شب معراج میں فرض ہوئی ہے، ظاہر ہے کہ اس قسم کی روایتوں کا صحیحین کے مقابلہ میں کیا درجہ اور اعتبار ہوسکتا ہے؟ اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ معراج کی شب آپﷺ خانہ کعبہ میں تھے، البتہ بخاری و مسلم میں سیدنا ابو ذرؓ کی روایت میں ہے کہ میں مکہ میں تھا کہ میرے گھر کی چھت کھلی اور جبرئیل آئے۔ ہمارے نزدیک اس کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ آپﷺ آرام تو خانہ کعبہ میں ہی فرمارہے تھے لیکن مشاہدہ آپﷺ کو یہ کرایا گیا کہ آپﷺ اپنے گھر میں ہیں اور اس کی چھت کھلی اور حضرت جبرئیل نازل ہوئے۔ " (سیرت النبیﷺ جلد سوم صفحہ ۲۶۳ حاشیہ نمبر ۲)
ہمارے خیال میں سید سلیمان ندوی مرحوم کے اس کلام کے بعد معراج ہونے کے اصل جائے مقام اور اس قصے کے وضعی ہونے سے متعلق ہمیں مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، تاہم محض مزید تسلی و تشفی اور اس روایت کو درست مان لینے سے ذاتِ نبویﷺ پر جو تبرا لازم آتا ہے، اس کی ایک جھلک ناظرین کو دکھانا چاہتے ہیں۔ معراج کی بابت تقریباً تمام اصحابِ سیر و اہل علم متفق ہیں کہ یہ عام الحزن کے بعد ہوئی گویا اس وقت تک سیدہ خدیجہؓ کا انتقال ہوچکا تھا۔ ایسے میں یہ نہایت عجیب بات ہے کہ آپﷺ اپنی جواں سال اور کمسن بچیوں یعنی رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضوان اللہ اجمعین کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر اپنی چچازاد بہن کے ہاں رات گزارنے جائیں۔ اور پھر وہ چچازاد بہن جن سے آپﷺ عالم جوانی میں نکاح کرنا چاہتے تھے لیکن ابو طالب نے آپ ﷺ کو اپنی بیٹی نکاح میں دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ معزز و ذی احترام لوگوں کے میل معزز ذی احترام لوگوں میں ہی ہوتے ہیں اور ام ہانی ؓ کا ہاتھ ابو جہل کے قبیلے بنو مخزوم کے ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی کے ہاتھوں میں دے دیا۔ پھر اس پر مزید طرہ حیرت تو یہ ہے کہ یہ ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی اور اس کی ٹولی جس میں ابو طالب کے دوسرے داماد یعنی جمانہ بنت ابی طالب کے شوہر سیدنا ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب، زمعہ بن الاسود، ہبار بن الاسودؓ جیسے موذئ رسول شامل تھے اور جو بعثت کے پہلے دن سے ہی نبیﷺ کی جان کے سخت درپے آزار رہتے تھے یہاں تک کہ ہبیرہ بن ابی وہب اور ابو سفیان بن حارث تو آپﷺ کی گستاخی میں باقاعدہ ہجو کہا کرتے تھے جن کے بیشتر جوابات سیدنا حسان بن ثابتؓ سے کتب تاریخ و سیر میں مذکور ہیں۔ ایسے دشمن رسول کے گھر میں خود آپﷺ کا معراج کی رات میں استراحت فرمانا نہایت ناقابل اعتبار و بیان بات ہے۔ ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی کی رسول دشمنی کا ہر سیرت نگار نے تفصیل سے تذکرہ کیا ہے اور ابن اسحق وغیرہ نے تو وہ اشعار بھی نقل کیے ہیں جو ہیبرہ نے اپنی بیوی ام ہانی ہند بنت ابی طالب کو مخاطب کرکے کہے تھےجب کہ ام ہانی ہبیرہ کو نبیﷺ کے خلاف ہجو گوئی اور ایذا رسانی سے منع فرماتی تھیں۔ پس یہ نہایت ناقابل قیاس بات ہے کہ آپﷺ اپنی ان چچازاد بہن کے ہاں اپنی جوان اور کمسن بچیوں کو اپنے گھر میں اکیلا چھوڑ کر رات بسر کریں جو فتح مکہ کے موقع پر اُس وقت ایمان لائیں جب انکا موذئ رسول شوہر ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی ان کو اور اپنے بچوں کو چھوڑ کردیارِ کفر بھاگ گیا۔ دوسرے لفظوں میں گویا یہ آپﷺ کی ذات پر مخفی تبرا ہے آپﷺ اپنے دشمن میں گھر میں اس کی غیر موجودگی میں اس کے بیوی بچوں کے ساتھ رات بسر کیا کرتے تھے۔ استغفراللہ من ہفوات ذلک۔