آواز دوست
روزہ او رکلچر
محمد صديق بخاري
تمام مذاہب کی طرح اسلام کے ساتھ بھی یہ المیہ ہوا کہ مراسم عبادات نے ایک عادت اور کلچر کی شکل اختیار کر لی اور یوں وہ اپنے اصل مقصدسے دور، روح سے خالی اور تاثیر سے محروم ہوتی چلی گئیں۔نماز کی ظاہر ی ہیئت پہ اتنا زور دیا گیا کہ یہ بات نگاہوں سے ویسے ہی اوجھل ہو کر رہ گئی کہ خشوع کے بغیر نماز نہیں بلکہ نماز کی لاش ہوتی ہے اور لاشوں کی ظاہر ی ہیئت کو جتنا بھی سنوارا جائے ان میں جان پیدا نہیں ہو سکتی ۔
جب عبادات عادت اور کلچر بن جاتی ہیں تو ترتیب الٹ جاتی ہے ۔ ظاہری ہیئت اصل مقصو د بن جاتی ہے اور روح ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے یعنی ان کو ماننے اور ادا کرنے والے یہ باورکرنے لگتے ہیں کہ ظاہری ہیئت میں اگر معمولی کمی بیشی بھی ہو گئی تو وہ عبادت درجہ قبولیت سے گر جائے گی لیکن وہ اگر روح سے محروم رہی تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔عباد ت کی تاثیر یعنی تقوی ،انابت ، خشیت ، رقت قلبی ، طبیعت کی نرمی ، مخلوق خدا سے محبت اورمعاملات کی درستی ظاہر نہ بھی ہوئی توکوئی فکر کی بات نہیں ہاں البتہ اگر مطلوبہ عدد پورا نہ ہوا ، اور اس کا ڈھانچہ صحیح نہ بن پایا تو اللہ کے ہاں پرسش ہو گی۔
روزہ جو اپنی تاثیر اور روح کے اعتبار سے ایک فقید المثال عباد ت تھی اس کے ساتھ بھی یہی المیہ ہوا۔ آج کل مسلم معاشروں میں رمضان ایک تہوار اور کلچر کی شکل اختیا ر کر گیا ہے ۔وہ گھرانے جہاں روزہ رکھنے کا رواج ہے وہاں بھی رمضان کی تیاری کا سارا پلان سحر اور افطار کے گر د گھومتا ہے اور اگر زیادہ ہی فکر کرنا ہو تو رمضان کے آغاز ہی سے عید کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے۔ شاید ہی کوئی خوش قسمت گھرانا ایسا ہو جس کے سب افرادنے رمضان کی آمد پر بیٹھ کریہ سوچا ہو کہ اس بار رمضان میں ہمارے تہجد ، دعا، نماز ، تلاوت ، تدبر قرآن ، انفاق ، اورصلہ رحمی کے معمولات کس طرح پہلے سے بہتر ہو ںگے اور یہ کہ ہم رمضان کس طر ح گزاریں کہ رمضان کے بعد اس کی تاثیر ہماری عملی زندگی میں نظر آنے لگے ۔
رمضان پہ رمضان گزرے چلے جاتے ہیںمگر تقویٰ جہاں کا جہاں تھا وہیں کا وہیں رہتا ہے ، حج پہ حج اور عمرے پہ عمرے کئے جاتے ہیں مگر طبیعت اور معاملات کی سختی ویسے کی ویسے رہتی ہے، نماز پہ نماز پڑھے چلے جاتے ہیں مگر منکرات اور فواحش کی آلودگی پھر بھی موجود رہتی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ وہی ایک ہے جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ ہم عبادات کی روح سے زیادہ اس کو ڈھانچے کو اصل سمجھنے لگتے ہیں اور انہیں ایک عادت او رکلچر کی صورت اختیار کیے رہتے ہیں۔
عبادات جب کلچر کا درجہ اختیارکر لیںتو ان کی حالت پھر وہی ہوتی ہے جو آج سے بیس سال قبل مجھے میانوالی کے ایک پٹھان بھائی نے تبلیغی جماعت میں بیان کی تھی اس نے کہا تھا کہ ہم جب اپنے خاندانی دشمن سے بدلہ لینے کے لیے اس کی گھات میں رات کو کلاشنکوف لیے بیٹھتے ہیں تو اس وقت بھی نماز پڑھنا نہیں بھولتے اور دوسرے صاحب نے کہا تھاکہ شام کو جب میری دودھ کی دکان پر گاہکوں کا رش ہوتا ہے تو اس وقت بھی میں نماز پڑھنا نہیں بھولتا کیونکہ دودھ میں پہلے ہی تیار ( یعنی اس میںملاوٹ ) کر چکاہو تا ہوں۔تبلیغی جماعت سے وابستہ گھرانوں کے ہاں بھی سہ روزے اور چلے ایک کلچر بن چکا ہے یہی وجہ ہے کہ سوائے استثنائی مثالوں کے، ان کی کثیر تعداد کے ہاں بھی سہ روزے اور چلے کے باوجود کاروبار ، معاملات اور طبیعت کی سختی وہیں کی وہیں رہتی ہے اور عملی طو ر پر معاملہ کرتے ہوئے ایک تبلیغی اور غیر تبلیغی میں کوئی خا ص فرق نظر نہیں آتا بالکل اسی طر ح جس طرح ایک نمازی اور بے نمازی کے معاملات میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔
لیکن ہمار ی اس بات کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اگر عبادات کی تاثیر ظاہر نہیں ہو رہی تو ان کو ویسے ہی ترک کر دیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے اند ر وہ تبدیلی پیدا کریں کہ یہ عبادات اپنی تاثیر ظاہر کرنے لگیںکیونکہ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری عبادت اگر یہاں تاثیر پیدا نہ کر سکی تو پھرآخرت میں کیسے پیدا کرے گی۔۔۔!اور یہ تاثیر یقیناً تب ہی ظاہر ہو گی کہ جب ہم عبادت کو عبادت سمجھ کر اختیار کریں گے نہ کہ محض ایک عادت اور کلچر کے طو ر پر۔