دنیا کے مختلف خطوں کے سفر اور 80 سے زیادہ قومیتوں کے لوگوں سے ملنے کے بعد میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم پاکستانی ''غیر ضروری'' طور پہ دنیا کی متجسس ترین قوم ہیں۔
اتنا زیادہ اور اتنا غیر ضروری تجسس ہمارے اندر پایا جاتا ہے کہ اس کی نتیجے میں ہماری اخلاقی اقدار شدید طریقے سے زوال کا شکار ہوگئی ہیں۔ ہم عمومی طور پہ اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔ ہمارا تجسس ہمیں ہر غیر متعلقہ بات میں گھسنے پر اکساتا ہے۔ آئیے اس کی کچھ مثالیں دیکھتے ہیں:
- آپ سڑک سے گزر رہے ہیں، ایک جگہ کوئی حادثہ ہوا ہے اور کچھ لوگ جمع ہیں جو متاثرین کی مدد بھی کر رہے ہیں اور کسی نے ایمبولینس اور پولیس کو کال بھی کردی ہے۔ اب وہاں مزید بھیڑ جمع ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ہر دس میں سے نو گزرنے والے لوگ اپنی گاڑی روک کر جھانکنے کی کوشش کریں گے۔ کچھ تو گاڑی یا موٹر سائیکل روک کر اتر کر جائیں گے اور موبائل سے ویڈیو بھی بناتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اب پیچھے ٹریفک جام ہوگا اور سڑک پر ایک افراتفری کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔یہ غیر ضروری تجسس ہے۔ میں نے دنیا میں سڑکوں پر بہت سے حادثات دیکھے لیکن کہیں اس طرح کی غیر ضروری بھیڑ نہیں دیکھی۔
- آپ کسی محلے سے گزر رہے ہیں اور کسی گھر کا مین گیٹ تھوڑا سا کھلا ہوا ہے۔ اس محلے سے اکثر گزرنے والے اس گیٹ میں سے جھانک کر دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ معلوم نہیں ہم کیا دیکھنا چاہتے ہیں! کس بات کا تجسس ہے جو ہمیں کسی اور کے گھر میں جھانکنے پر اکساتا ہے!یہ غیر ضروری تجسس ہے۔ دنیا کے بہت سے شہروں میں گھروں کے مین گیٹ کھلے رہتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی گزرنے والا آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے کہ اندر کیا نظر آرہا ہے۔
- آپ کسی میٹنگ میں بیٹھے ہیں اور آپ کے کسی ساتھی کے موبائل پر کوئی میسج آیا ہے یا وہ ایک میسج ٹائپ کررہے ہوں تو ان کے آس پاس بیٹھے ہوئے اکثر لوگوں کو تجسس اور بے چینی ہوگی اور وہ جھانک کر یا کن انکھیوں سے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آئیں گے کہ کیا میسج ہے، کس کا ہے یا کس کو کیا جارہا ہے۔یہ غیر ضروری تجسس ہے اور کسی کی پرسنل باؤنڈری کراس کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔
- اداروں میں ملازمین کے سالانہ انکریمینٹس لگتے ہیں۔ اب تقریباً'' ہر بندے کو یہ تجسس لاحق ہوجائے گا کہ کس کو کتنا انکریمینٹ ملا! مجھ سے کم ملا یا زیادہ! یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے اور بتاتے نظر آتے ہیں، جس کے نتیجے میں خوامخواہ کی فرسٹریشن اور حسد جنم لیتاہے۔
یہ غیر ضروری تجسس ہے جس کے نتیجے میں یا تو آپ پریشان ہوں گے، غیر ضروری طور پہ اسٹریس کا شکار ہوں گے، کسی سے حسد جنم لے گی یا کوئی آپ سے حسد کرے گا۔ لہٰذا خاموشی اختیار کریں، اللہ سے مانگیں اور اگر کوئی بات کرنی ہی ہے تو صرف اور صرف اہل اختیار سے کریں۔
- کسی جاننے والے کے بچے یا بچی کا رشتہ طے ہوگیا ہے تو اب ہر کسی کو یہ تجسس ہوگا کہ کس فیملی میں ہوا، لڑکا کیا کرتا ہے، کیا کماتا ہے، لوگ کہاں رہتے ہیں، کس خاندان یا برادری سے ہیں، شادی کب ہوگی، لڑکی کو والدین کیا دے رہے ہیں، سسرال والوں کی کوئی ڈیمانڈ ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہی معاملہ لڑکی کے متعلق بھی ہوتا ہے۔ اس میں مزید اضافہ یہ ہو جاتا ہے کہ تصویر تو دکھائیں، کیسی ہے، کیا پڑھی ہوئی ہے، عمر میں کتنا فرق ہے، کتنے بہن بھائی ہیں۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔یہ گھر والوں کے علاوہ لوگوں کے لیے چاہے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، انتہائی غیر ضروری تجسس ہے، لیکن جب تک ساری باتیں پتا نہ لگ جائیں، ہماری بے چینی ختم نہیں ہوتی۔
- کسی کے گھر انتقال ہوگیا ہے۔ اب سارے خاندان والوں اور جاننے، نہ جاننے والوں کو میت کا چہرہ دیکھنا ہے۔ کیوں دیکھنا ہے؟ بہت بار چہرہ دیکھے جانے کے قابل نہیں ہوتا۔ انتقال کے بعد چہرہ متغیر ہو جاتا ہے، کبھی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں، منہ کھلا رہ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ نماز جنازہ کے بعد بھی چہرہ دکھایا جارہا ہے بلکہ قبر میں اتار دیا گیا، پھر چہرہ دکھانا اور دیکھنا ہے۔ آج کل تو لوگ تصویر بھی کھینچتے ہیں اور ویڈیو بھی بناتے لیتے ہیں۔
جب کسی بندے کا انتقال ہو گیا ہے اور وہ خود اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ وہ اپنی پردہ داری کر سکے تو یہ باقی لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کی پردہ داری کریں۔ اس کو جلد از جلد رب کے حوالے کریں۔
یہاں بھی غیر ضروری تجسس کارفرما ہے۔ کئی بار عرب دوستوں کے ہاں جنازوں اور تعزیت کی ترتیب دیکھنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ ان کے ہاں، اس قسم کی کوئی روایت نہیں ہے کہ قطار بنا کر آتے جائیے اور آخری دیدار کرلیں یا کروا دیں۔
ہندو تہذیب میں یہ لازمی ہے اور چہرہ رکھا ہی کھلا جاتا ہے تو ہم نے بھی یہ لے لیا کہ غسل کے بعد جنازہ رکھ دیا جائے تاکہ لوگ چہرہ دیکھ لیں۔ چلو قریبی گھر والے دیکھ لیں ایک بار، لیکن پورے مجمع نے دیکھنا ہے اور خواتین نے بھی دیکھنا ہے۔ چہ معنی دارد!
مفتی عبدالرشید صاحب رحمہ اللہ جو کہ بہت ہی اللہ والے بزرگ تھے، انہوں نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کے انتقال کے بعد ان کا چہرہ کسی کو نہ دکھایا جائے کہ معلوم نہیں چہرے پر کس قسم کے تغیرات ظاہر ہوں اور لوگ کیا کیا باتیں کریں۔ مجھے بس اپنے اللہ سے رحم کی امید ہے۔ ایک ایسا جید عالم دین جن کے تقوی کی ہزاروں لوگ گواہی دیتے ہیں، وہ ڈر رہا ہے کہ معلوم نہیں میرے اعمال سیاہ چہرے پر ظاہر ہوجائیں اور ہم جن کے اعمال کا پتا ہی کچھ نہیں ہے، ہم چہرے دیکھنے دکھانے کے لیے اس قدر بیتاب ہوتے ہیں کہ قطار بنا کر دیدار ہوتا ہے۔ قریبی گھر والوں کی بات الگ ہے لیکن سارے مجمع کا دیکھنا دکھانا غیر ضروری ہے۔یہ بھی غیر ضروری تجسس ہے اور اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا چہرہ دیکھنے سے زیادہ، اس کے لیے دعاؤں کا اہتمام زیادہ ضروری ہے لیکن وہ نہیں ہوگا اس وقت۔
- سوشل میڈیا کے آنے کے بعد تو ہمارا تجسس اگلی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ ہر سنی سنائی بات، کسی کے متعلق کوئی خیالات خصوصاً'' برے خیالات یا منفی خبر اور اگر یہ کسی ایسے سیاستدان سے متعلق ہے جسے آپ پسند نہیں کرتے تو، بغیر تصدیق، بغیر ثبوتوں کے، ہر دوسرا شخص اسی غیر ضروری تجسس کے مارے دیکھتا، سنتا اور آگے بڑھاتا نظر آتا ہے۔
ہمارے اس غیر ضروری تجسس اور غیر محتاط رویے نے ہماری معاشرتی اقدار کی چولیں ہلا دی ہیں۔ جھوٹ، غیبتیں، تہمتیں، منفی رویے، اور اختلاف رائے میں شدت ہمارے مزاجوں کا حصہ بن گئے ہیں۔
اور اس مزاج کے ساتھ کوئی قوم، کوئی معاشرہ کبھی بھی بامقصد طریقے سے نمو نہیں پا سکتا۔ اس غیر ضروری تجسس کے رویے کو اپنے اندر سے ختم کیجیے۔ اور اپنی ذمہ داریوں پر فوکس کیجیے۔ یہ آپ کا اس معاشرے کی اقدار بحال کرنے میں بڑا کنٹریبیوشن ہوگا۔
اور تجسس اتنا زیادہ ہے تو اسے علمی اور عملی کام میں استعمال کریں، جس سے آپ کو اور قوم کو کوئی فائدہ بھی ہو۔
اصلاح و دعوت
غیر ضروری تجسس
یمین الدین احمد