عالم اسلام کی مشہور مذہبی شخصیت ڈاکٹر یوسف قرضاوی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اُنیس سو بہتر میں لیبیا میں فقہ کے حوالے سے ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں امام ابوزھرہ نے بھی شرکت کی (امام ابوزھرہ کا شمار بیسویں صدی کے چوٹی کے فقہاء میں ہوتا ہے۔انہوں نے اسلامی قوانین پر تیس سے زائد کتابیں تصنیف کی ہیں) کانفرنس میں جب امام ابوزھرہ کو خطاب کی دعوت دی گئی تو انہوں نے خطاب کے دوران ایک ایسی بات کی جس کی وجہ سے کانفرنس میں شریک علماء میں ہلچل مچ گئی۔ انہوں نے کہا آج میں اپنی اس رائے کا اظہار کرنے والا ہوں جسے میں نے بیس سال تک اپنے سینے میں چھپائے رکھا کیونکہ مجھے خطرہ تھا کہ مسلم دنیا میں اسے برداشت نہیں کیاجائے گا۔ مگر اب مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر میں مر گیا تو اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ تم نے لوگوں کے ڈر سے حق بات کرنے سے کیوں گریز کیا تھا۔ پھر انہوں نے کہا میری تحقیق یہ ہے کہ رجم کی سزا شریعت اسلامی کا حصہ نہیں ہے۔ یہ اصل میں یہودی شریعت کا حکم ہے۔آپﷺ نے ابتداء میں اسی کو نافذ کیا تھا مگر جب قرآن میں آیت زنا نازل ہوئی جس میں ۱۰۰کوڑے کی سزا بیان کی گئی ہے تو رجم کا حکم منسوخ ہوگیا۔ امام ابوزھرہ نے کہا میرے پاس اپنے موقف کے اثبات کے لئے تین دلیلیں ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ شادی شدہ باندیاں اگر زنا کریں تو انکی سزا آزاد شادی شدہ زانیات کی سزا کا نصف ہے۔ اس کامطلب پھر یہ ہوا کہ باندیوں کو آدھا رجم کیا جائے گا؟ حالانکہ یہ ایک غیر معقول امر ہے کیونکہ رجم کا مطلب تو کسی کی جان لینا ہوتا ہے۔ لہذا آدھی سزا کا مطلب یہ ہے کہ باندی کو پچاس کوڑے مارے جائیں گے جبکہ آزاد کو سو ۔ قرآن میں جو زنا کی حد بیان ہوئی ہے وہ مطلق ہے شادی شدہ اور غیرشادی شدہ دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔رجم کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں۔دوسری دلیل یہ ہے کہ حدیث میں جو آپﷺ سے رجم کرنے کا عمل ثابت ہے وہ روایت عبداللہ ابن ابی اوفیؓ نے روایت کی ہے۔ بخاری میں ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کیا قرآن میں حدَ زنا والی آیت جس میں صرف کوڑے مارنے کا ذکرہے آپﷺ کے رجم والے عمل سے پہلے نازل ہوئی یا بعد میں؟ تو انہوں نے جواب دیا مجھے یاد نہیں۔ امام ابوزھرہ نے کہا میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ آیت بعد میں نازل ہوئی اور رجم کا حکم منسوخ ہوگیا۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ جو حضرات رجم کی سزا کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ رجم والی آیت نازل تو ہوئی تھی مگر یعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی جبکہ اسکا حکم ابھی تک باقی ہے۔ یہ ایک خلافِ عقل اور خلافِ منطق بات ہے کہ ایک چیز کا حکم باقی رہے مگر آیت کی تلاوت منسوخ ہوجائے۔آیت رجم سرے سے نازل ہی نہیں ہوئی۔یوسف قرضاوی کہتے ہیں حاضرین علماء کرام پہلے تو حیرانی سے ایک دوسرے کو تکتے رہے اور جب امام نے اپنی بات ختم کی تو اکثریت نے شور مچا دیا اور کہنے لگے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔آپ جمہور فقہاء کی مخالفت کررہے ہیں۔سب اپنی اپنی دلیلیں پیش کرنے لگے۔ مگر امام ابوزھرہ اپنے موقف پر قائم رہے۔انہوں نے کہا اس مسئلے میں یہی میرا حاصلٍ تحقیق ہے۔ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں کانفرنس کے بعد میں امام سے ملا۔ میں نے کہا میرے پاس ایک درمیانہ حل موجود ہے۔ انہوں نے کہا کیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ زنا کے قضیے میں جو حدیث وارد ہوئی ہے اس میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ دونوں کی سزا کے دو دو حصے بیان کئے گئے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ اگر غیرشادی شدہ زنا کرے تو اس کو سو کوڑے مارو اورایک سال کے لئے شہربدر کرو اور اگر شادی شدہ زنا کرے تو اسے سو کوڑے مارو اور رجم کرو۔ اب فقہاء یہ کہتے ہیں کہ غیرشادی شدہ کو صرف کوڑے مارے جائیں گے جبکہ شہر بدر کرنے کا جو حکم حدیث میں وارد ہوا ہے یہ حاکم کی صوابدید پر محمول ہے اگر وہ کسی کے لئے ضروری خیال کرے توشہر بدر کرے ورنہ لازم نہیں۔ بالکل اسی طرح ہم شادی شدہ کے بارے مبں کہہ سکتے ہیں کہ اسکی سزا بھی صرف سوکوڑے ہے جبکہ دوسرا حصہ جسمیں رجم کرنے کا ذکرہے وہ حاکم کی صوابدبد پر محمول ہوگا۔یوسف قرضاوی کہتے ہیں امام ابوزھرہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا یوسف میرا دل اور ایمان نہیں مانتے کہ رحمت للعالمین رجم جیسی بھیانک سزا کو اسلام کا حصہ بنائیں۔ یہ یہود کی شریعت ہوسکتی ہے میرے نبی کی نہیں۔
دین ودانش
کیا رجم اسلامی شریعت کا حصہ ہے؟
قاری حنیف ڈار