ایک لمحے کو تصور کیجیے کہ اگر آپ ابھی مر جائیں تو آپکے اردگرد میں کیا تبدیلی آئے گی۔ میں مرا تو بخُدا اتنی مستقل تبدیلی بھی نہیں آنے کی جتنی کسی دریا سے ایک بالٹی پانی نکال لینے سے اُس میں آتی ہے، ہم خود کو اہم سمجھنے کے عادی ہیں، انا کو خود سے الگ کر کے دیکھیں تو آپکا معاملہ بھی مجھ سے کُچھ زیادہ مختلف نہیں۔ یعنی میں اور آپ اتنے اہم بھی نہیں کہ ہمارا کوئی سب سے پیارا بھی ہمارے مرنے کے بعد غم میں صرف تین ماہ نہ مسکرائے۔
ہماری موت سے ہمارے اردگرد میں اتنا ارتعاش ہی آئے گا جتنا دریا میں پتھر پھینکنے سے اُسکی سطح کے چھوٹے سے حصے میں لمحے بھر کو آتا ہے۔
کیا آپ دیکھتے نہیں مرنے والوں کی بیواوں نے دوسری شادیاں کر لیں اُنکے ترکے تقسیم در تقسیم ہو گئے اُنکی قبریں زمین سے مل گئیں، اُنکی بھاگ دوڑ کے یکلخت رُک جانے کے بعد نہ اُنکے اہلِ خانہ نے جینا روکا نہ کسی پر رزق کی بندش ہوئی۔ جب دنیا کے لیے ہم اتنے ہی بے وُقعت ہیں تو اسکی اُس سے زیادہ قیمت کیوں لگائی جائے جتنی قیمت اسکی نظر میں ہماری ہے۔
کیوں نہ یہاں مسافر کی طرح رہا جائے۔ مسافر راستے کی دلچسپیوں سے متعلق متجسس تو ہوتا ہے، پڑاو کے دوران آرام دہ سرائے یا صاف ستھرے ہوٹل میں قیام بھی کرتا ہے، کسی خوبصورت مقام پر رُک کر اردگرد کے حُسن سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے، زادِ راہ کا خیال بھی رکھتا ہے لیکن ہر لمحہ منزل کا خیال اُسے ضرور رہتا ہے۔
آئیے غور کریں ہم کہاں سے چلے تھے یہاں کیوں ہیں، کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں، کیا یہ راستہ اُس منزل کی طرف جاتا بھی ہے جہاں ہمیں جانا ہے۔ کیا ہمارا رویّہ ایک مسافر جیسا ہے بھی۔
تعریف کی طلب یا تضحیک کا ڈر ہمارے بیشتر اعمال کو سمت دیتا ہے لیکن غور تو کیجیے کیا کسی شخص کے لیے کی گئی ہر تعریف اُسکی ہر تضحیک اُسکی تدفین کے ساتھ ہی دفن نہیں ہو جاتی۔ کُچھ پیچھے بچی بھی رہے فرق ہی کیا پڑتا ہے جب وہ ہی نہ رہا۔
غور کیجیے تو مسافر کے سے تجسس اور رفتار سے گزاری زندگی لطف بھی زیادہ دیتی ہے۔ میں آپسے کہوں مجھے شمالی علاقہ جات کے اپنے کسی یادگار ٹرِپ کے بارے میں بتائیے تو آپ ساری جُزیات کے ساتھ خوشی خوشی ہفتے بھر کے اُس ٹرپ کو بیان کریں گے۔
میں آپسے کہوں پچھلے مہینے کی اپنی مصروفیات مجھے بتائیے تو آپ کو کافی سوچ کر جواب دینا ہو گا اور آپکا جواب زیادہ دلچسپ بھی نہیں ہو گا۔ کیونکہ پچھلے مہینے آپکا ذہن مُسافر موڈ پر سیٹ نہیں تھا۔
امام جعفر صادق سے مروی ایک حدیث کے مطابق مومِن کا کوئی بھی دن اُسکے گُزرے ہُوئے دِن جیسا نہیں ہوسکتا۔
دیکھیے مومن کی کتنی شاندار وضاحت کی گئی ہے۔ واقعی مومن ہر وقت محنت اور کوشش کی تصویر بنا رہتا ہے۔
جب مستقل مزاجی، صبر اور یقین و توکُل سے اپنے مقصد کے حصول کے لیے محنت اور کوشش کی جائے تو کیسے مومِن کا کوئی بھی دن اُسکے گُزرے ہُوئے دِن جیسا ہوسکتاہے کیونکہ ہر کوشش کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور ہوگا اور ہر نتیجہ نئے حقائق لیے ہوتا ہے۔
مُحمدﷺ کو نبُوّت ملنے سے اُنکی وفات کے دن تک کا کوئی بھی دن دیکھ لیجیے پچھلے دن سے الگ نتائج اور حقائق لیے ہُوئے ہوگا۔
آئیے آج سے کوشش کریں کہ آئندہ ہمارا اگلا ہر دن پچھلے دن سے بہتر ہو۔ آئیے اپنے ذہن کو مُسافر سیٹنگ پر لگا کر منزل کا تعین اور قصد کریں۔
اصلاح و دعوت
مسافر سیٹنگز
رضوان خالد