اسلام كي وسعت اور فقہ كي تنگ داماني

مصنف : قاری محمد حنیف ڈار

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : دسمبر 2022

حقیقت یہی ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے. جب دروازے کھولے نہ جائیں تو پھر دیواریں توڑ کر رستے بنائے جاتے ہیں. ایک Cosmopolitan فقہ تیزی کے ساتھ ابھر رہی ہے جو پوری دنیا کی فقہ بن جائے گی جب کہ ہماری فقہ صرف پاک و ہند کا کلچر بن کر رہ جائے گی۔جب پاکستان گئے تو اس پہ عمل کر لیا اور جب ملک سے باہر آئے تو فقہ بھی ائیرپورٹ سے اسی سوزوکی میں واپس گھر بھیج دی۔
اصل میں ہر فقہی مذہب اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور کشمکش میں مبتلا ہے. پہلے شافعی و حنفی ایک دوسرے کے مقابل تھے اب شافعی شافعی کے اور حنفی حنفی کے مقابل ہے، اس لیے ہر فقہی مذہب بظاہر رواداری کے باوجود اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑ رہا ہے۔
عاصم بخشی صاحب کی بات سے اتفاق ہے. یہاں ہمارے ہاں برطانیہ میں فیکٹری میں کام کے دوران ہر نماز کے لیے چھٹی نہیں ملتی تو لوگ جمع بین الصلاتین کر رہے ہیں، یونیورسٹی اور کالجز میں سینکڑوں مسلم طلباء جمعہ پڑھ رہے ہیں، اسی طرح یہاں جیلوں میں بھی جمعہ و عیدین با جماعت ہوتی ہیں جب کہ بعض فقہی مذاہب کی رو سے مذکورہ مقامات میں جمعہ کی شرائط مفقود ہیں۔سفر کے دوران حنفی اکثریت جمع تقدیم و تا خیر کر رہی ہے. اسی طرح دوران سفر سروسز پر جب وضو کیا جاتا ہے تو سینک میں پاؤں دھونے کو یہاں کے لوکل گورے باشندے بہت برا سمجھتے ہیں اس لیے لوگ جرابوں پر مسح کر لیتے ہیں، اور وہ بھی مسح کرتے ہیں جن کے ائمہ نے اس مسح کو ناجائز کہا ہے اور ان کے پیروکار بھی جن کے مقتداؤں نے سخت شرائط عائد کی ہیں۔
اگر احباب ناراض نہ ہوں تو ہم عرض کریں گے کہ شروع میں بہت سے فقہی مذاہب وجود میں آئے تھے. اب جن کو کسی حکومت کی پشت پناہی مل گئی وہ زندہ رہے اور دوسرے ختم ہوگئے۔سب سے زیادہ حکومتی سہارا فقہ حنفی کو ملا اور وہ سب سے زیادہ پھیلا۔پھر شافعی و مالکی فقہ کو ملا وہ بھی پنپ گئیں، حنبلی فقہ یتیم رہی یہاں تک کہ سعودیوں کا سہارا اسے میسر آیا تو یہ بھی زندہ ہوگئی۔اس وقت فقہ حنفی کو اقتدار کا سہارا نہیں ہے اور وہ سب سے زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جب کہ شافعی مالکی اور حنبلی فقہ کو اس وقت بھی عرب اور افریقہ میں بعض حکومتوں کا سہارا ہے اس لیے ان کا اقبال ابھی چل رہا ہے۔ان کے مقابلہ میں سفیان ثوری، ابن حزم، معتزلہ، خوارج کو دیکھیں تو ان کے فقہی مسالک کتابوں میں مل 
جاتے ہیں لیکن گراؤنڈ پر مر چکے ہیں۔
البتہ فقہ امامیہ یا فقہ جعفریہ، اس سے بحث نہیں کہ وہ صحیح ہے یا غلط، لیکن داد دینی پڑے گی کہ اس فقہ کو ماننے والے ایک تو ہمیشہ اقلیت میں رہے، دوسرے ہمیشہ زیر عتاب رہے، اگر کبھی حکومت بنی بھی تو بہت جلد مٹا دی گئی، ان تمام شدتوں اور مجبوریوں کے باوجود یہ فقہ زندہ رہی، تسلسل بھی قائم رہا اور اہلسنت کی طرح انھوں نے کبھی اپنے اوپر اجتہاد کے دروازے بند نہیں کیے اور میرے خیال میں محکومیت کے باوجود اس فقہ کا زندہ رہنا اجتہاد کا تسلسل قائم رکھنے کا مرہون منت ہے، جب کہ اہلسنت کی فقہ سے ایک تو اقتدار کا سہارا چھن گیا، دوسرا انھوں نے اجتہاد کے دروازے بند کر دیے. ظاہر ہے پانی زیادہ دیر کھڑا رہے تو وہ انسانی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا.
پرانے اجتہادات اپنے دور کے لحاظ سے تو درست تھے لیکن آج جدید دور میں اجتہاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ انسانی ضروریات کو پورا نہ کرسکے اور یوں آہستہ آہستہ اندرونی و بیرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے. حنفی حضرات کی اکثریت تو اب بھی اجتہاد کو شجر ممنوعہ سمجھتی ہے گوکہ بعض حنفی علماء کو اب اس کا احساس ہوگیا ہے، لیکن ان کے مقابلہ میں یہاں مغرب میں شافعی مذہب زیادہ طاقتور ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ان کے علماء نے احناف سے بہت پہلے اجتہاد کے بند دروازے کو کھول دیا تھا لیکن اس کے طاقتور ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اکثریت اسے قبول کر رہی ہے بلکہ یہ بمقابلہ حنفیت ہے. حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر ان چاروں فقہ سے ہٹ کر ایک نئی فقہ معرض وجود میں آرہی ہے جب کہ بہت سارے نوجوانوں کا رحجان فقہ سے ہٹ کر براہ راست فقہ القرآن، فقہ السنہ اور فقہ الحدیث کی طرف ہو رہا ہے، اور ہمارے خیال میں یہ ایک اچھی اور مثبت تبدیلی ہے.
کیا یہ بات حیرت ناک نہیں کہ دس سال تک مسلسل اللہ کے نبی نے نماز پڑھائی اور دن میں پانچ مرتبہ پڑھائی، اصحاب نے مسلسل ان کے پیچھے نماز پڑھی. ایک غیر مسلم نے کہا تم لوگ آج تک یہی طے نہیں کر سکے کہ نماز میں تمھارا نبی ہاتھ کہاں باندھتا تھا باقی باتیں تو رہیں ایک طرف۔سب سے زیادہ عمل امت نے رسول اللہ کو کرتے ہوئے جو دن رات دیکھا وہ نماز ہے لیکن تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام تک کسی ایک چیز پر بھی تو اتفاق نہیں. ایک کے نزدیک فاتحہ واجب ہے، دوسرے کے نزدیک فرض ہے، ایک کے نزدیک رکوع کے بعد قومہ اور سجدوں کے درمیان جلسہ فرض جب کہ دوسرے کے نزدیک نہیں. آپ نے کیا سمجھا یہ محض ایک معمولی سا لفظی اختلاف ہے؟ نہیں، سب امام کہتے ہیں فرض چھوٹ جائے تو نماز نہیں ہوتی. سیدھی سی بات ہے جب نماز کے ارکان و فرائض ہی مختلف ہیں تو ایک کے نزدیک دوسرے کی نماز ہی نہیں.
کیا ان چاروں فقہ سے پہلے لوگ نماز نہ پڑھتے تھے؟ یہ نماز کی شرطیں، فرائض، واجبات، سنتیں، مستحبات، مکروہات، مفسدات جو فقہ میں مقرر کیے گئے ہیں ان سے خلفائے راشدین واقف تھے؟ اگر واقف تھے تو ثبوت کیا ہے؟ اگر نہیں تھے تو کیا ان کی نمازیں ہوئیں یا نہیں؟
ہندوستان کے ایک بہت بڑے عالم دین جن کے شاگردوں سے ہند و پاک برصغیر پُر ہے، وہ فرماتے ہیں دلیل امام شافعی کی قوی ہے لیکن ہم تو چونکہ مقلد ہیں بات تو اپنے امام کی ہی مانیں گے۔
قرآن کہتا ہے اذا حییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منہا او رُدُّوہَا. لیکن ہم ابھی تک اس بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ غیر مسلم کو سلام کہنا جائز ہے یا نہیں. غیر مسلم کے ملک میں رہنا، پونڈ کمانا، ہر طرح کے بینیفٹ حاصل کرنا یہ سب کچھ عین دین ہے لیکن اسے سلامتی کی دعا دینا دین کے خلاف ہے کہ کہیں وہ تمھاری دعا کی وجہ سے اس سلامتی والے اسلام میں داخل نہ ہوجائے۔
ہم نہ فقہ کی تنقیص کر رہے ہیں اور نہ فقہاء کی توہین، ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ علوم کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے، فقہاء کے ساتھ دفتروں میں گوریاں کام نہیں کرتی تھیں، انھیں کبھی ۱۹ گھنٹوں سے لیکر ۲۳ گھنٹوں تک روزہ رکھنے کا تجربہ نہیں ہوا، انھوں نے تو لکھ دیا کہ کفار کے ملک میں قران لے کے جانا جائز نہیں، لیکن آج مسلمان رہتا ہی کفار کے ملک میں ہے. انھیں بلڈ بنک، ملک بنک، اعضا کی پیوند کاری، ڈی این اے ٹیسٹ، پاسپورٹ، لائسنس، آئی ڈی کارڈ، اور نوٹ پر تصویر کا مرحلہ پیش نہیں آیا. انھوں نے ایرپورٹ پر عورت کا چہرہ ننگا کروا کر چیکنگ کے مرحلہ سے گزرتے
 نہیں دیکھا. انھوں نے ہوائی جہاز میں کبھی نماز نہیں پڑھی، موٹر کار، بس اور ٹرین میں نمازیں ادا نہیں فرمائیں. گردوں اور جگر کے ٹرانسپلانٹ تب نہیں ہوتے تھے۔ان کا دور وہ تھا جب مسلمان سپر پاور تھے اس لیے انھوں نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کیا: دارالحرب اور دارالامن یا دارالکفر اور دارالاسلام. لیکن آج مدنیت اور معاشرت بدل گئی ہے. آج مسلمان فقہاء کے بیان کردہ دارالحرب میں نسبتاً زیادہ محفوظ ہے. آج بھی پورا مغرب اسلام اور مسلمین کے خلاف برسر جنگ ہے، افغانستان و عراق میں جنگ اتحادی افواج نے لڑی اور لڑ رہے ہیں تو کیا یہ دارالحرب قرار دیے جائیں گے؟
بہت کچھ بدل گیا ہے بلکہ سب کچھ بدل گیا ہے. نئے اجتہاد اور نئی فقہ کی ضرورت ہے. پھر اجتہاد کے لیے جو شرطیں مقرر کی گئی ہیں وہ بھی اماموں اور فقہاء کی ہی عائد کردہ ہیں جنھیں رسول اللہ نے بیان نہیں کیا، ان میں سے اکثر شرائط تو اس کا مصداق ہیں کہ نہ نو من تیل ہوگا اور نہ ہی رادھا ناچے گی۔ یعنی غیر نبی اور غیر صحابہ کی عائد کردہ شرطیں نہ ہوں گی تو اجتہاد بھی نہ ہوگا اور یوں ٹریفک جام ہی رہے گا۔
ہمارے بزرگ تو یہ بھی لکھ گئے کہ شافعی المذھب مقلد اپنے امام کی تقلید چھوڑ کر حنفی بن سکتا ہے لیکن حنفی مقلد کے لیے شافعی کی تقلید جائز نہیں۔فتاوی عالمگیری کے بعض مباحث کو اگر امام ابوحنیفہ رح دیکھ لیں تو ان کی روح بھی کانپ اٹھے.
.


دین و دانش
اسلام کی وسعت اور فقہ 
محمد حنیف ڈار