سرمایہ دارانہ نظام میں جو بھی مارکیٹ وجود میں آتی ہے، اسے اپنی بقا اور پھیلاؤ کے لیے مسلسل مصروف کار رہنا پڑتا ہے۔ تحفظ مذہب یا تحفظ ناموس رسالت کے عنوان سے وجود میں آنے والی مذہبی مارکیٹ کا بھی یہی معاملہ ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ مختلف سطحوں پر مختلف رنگ اور شکلیں پیدا کرنے اور اپنی بقا اور پھیلاؤ کے اسباب فراہم کرنے کی پوری استعداد بھی رکھتی ہے۔
ٹی ایل پی کو اس سلسلے میں ایک کیس اسٹڈی کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ اس کا ابتدائی رخ سلمان تاثیر کے خلاف تھا جس نے ممتاز قادری کی تقدیس کی صورت اختیار کی۔ فرانس کے واقعے سے اس نے گہرائی اور گیرائی کے مزید مواقع پیدا کیے۔ ملکی سطح کی سیاسی کشمکش سے بھی اس ضمن میں فائدہ اٹھایا گیا۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ ایک جن ہے جس کا نعرہ ایک ہی ہے: ''مجھے کام بتاؤ، میں کیا کروں، میں کس کو کھاؤں؟''
وجہ یہ ہے کہ اس مارکیٹ کی بقا اس پر منحصر ہے کہ ماحول میں گستاخی رسول کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے، ورنہ ''جن'' پوچھے گا کہ اب میں کس کو کھاؤں۔ پچھلے چند دنوں میں رونما ہونے والے دو واقعات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ گستاخی کا کوئی نیا اور نمایاں مظہر سامنے نہ آنے سے ''جن'' کو کس وجودی اضطراب کا سامنا ہے اور وہ اپنے اردگرد اہداف تلاش کرنے کا غیر شعوری دباؤ محسوس کر رہا ہے۔
کچھ دن پہلے ٹی ایل پی کے ایک خطیب صاحب نے عوامی اجتماع میں سامعین کو قادیانیوں کے خلاف بھڑکایا اور کہا کہ ان کی حاملہ خواتین اور پیٹ کے بچوں کو قتل کر دیا جائے تاکہ مزید قادیانی بچے پیدا نہ ہوں۔ ساتھ ہی قانون کے رکھوالوں کو بھی دھمکایا گیا کہ جس نے اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی، وہ اپنا انجام خود سوچ لے۔ اب ایک اور خطیب کی عوامی اجتماع میں کی گئی گفتگو سامنے آئی ہے جس میں وہ ہمارے دادا حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کو گستاخ رسول کہہ کر بدزبانی کر رہا ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ زندہ اور مصروف رہنے کے لیے اس ''جن'' کو اگر اہداف کی کمی محسوس ہوئی تو روایتی فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دینا اس کی ایک مجبوری
بن جائے گی۔ (سوشل میڈیا پر رپورٹ ہونے کے باوجود ابھی تک ٹی ایل پی کی قیادت کی طرف سے ان دونوں واقعات کے حوالے سے کوئی وضاحت ہمارے علم میں نہیں ہے)۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایسی چیزوں کو انفرادی واقعات کے طور پر دیکھنے کے بجائے سماج، سیاست اور معیشت کی حرکیات کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ معذرت کے ساتھ یہ بھی عرض ہے کہ بحیثیت مجموعی پورے مذہبی طبقے کو بھی اپنی حالت اور رویوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
فکر ونظر
سرمایہ دارانہ نظام اور مذہبی مارکیٹ
عمار خان ناصر