یہ سال 1980ء تھا اور میں دسویں جماعت میں ہو چکا تھا۔ ایک دن میرے ایک قریبی رشتے دار نے، جو ایک اسکول میں استاد تھے، مجھ سے رابطہ کر کے بتایا کہ ان کے ایک ساتھی استاد کے چھوٹے بھائی کا میٹرک میں ریاضی کا پیپر رہ گیا ہے جس کا امتحان ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں میری مدد کی ضرورت ہے۔ وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے اور انکار کرنا میرے لئے مشکل تھا اس لئے امتحان والے دن میں ان کے ساتھ چلا گیا۔ ہم امتحانی ہال کے باہر بیٹھ گئے۔ پیپر شروع ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد ایک سوال باہر آ گیا۔ میں نے یہ سوال ایک کاغذ پر حل کر کے دینا تھا۔ سوال کوئی مشکل نہیں تھا اس لئے جلدی جلدی حل کر کے ان کے حوالے کر دیا۔ میں نے اگلے دو تین گھنٹے میں اسی طرح کئی سوال حل کئے جو اندر بھجوا دئیے گئے۔ یہ اپنے نظامِ تعلیم میں باقاعدہ نقل سے میری پہلی واقفیت تھی۔
سال 1981ء میں دسویں جماعت کی پڑھائی کا اختتام ہونے والا تھا اور ہمارے نام میٹرک کے امتحان کے لئے پشاور بورڈ بھیجے جانے تھے۔ میرے پاس ایک ہم جماعت لڑکا آیا اور اس نے بڑی لجاجت سے بات کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ وہ اپنی نشست امتحان میں میرے بعد لگانا چاہتا تھا کیونکہ اسے ریاضی میں مدد کی ضرورت تھی۔ میں نے حامی بھر لی۔ اس وقت میٹرک کا امتحان نہم اور دہم دونوں سالوں کے نصاب پر مشتمل ہوتا تھا اور خاصا مشکل ہوتا تھا۔ امتحان شروع ہوا تو میرا وہ ہم جماعت بالکل میرے بعد والی نشست پر بیٹھا ہوا تھا۔ ریاضی کا پرچہ تھا اور وہ گائیڈ بک اپنے ساتھ لایا ہوا تھا لیکن اس کا مسئلہ یہ تھا کہ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ کس سوال کا جواب کہاں لکھا تھا۔ مجھے خود تو ریاضی کی کتاب کا ہر سوال اور اس کا جواب زبانی یاد تھا لیکن اس دن اپنا پرچہ حل کرنے کے ساتھ ساتھ میرا کام یہ بھی تھا کہ میں پوچھے گئے سوال کا جواب اس کی گائیڈ بک میں نشان لگا کر اسے بتاؤں۔ میں عین پرچے کے دوران بظاہر یہ ناممکن کام کرتے ہوئے اسے نشان لگا کر دیتا رہا اور یوں یہ پرچہ بھی ختم ہو گیا۔
میٹرک کا نتیجہ آیا تو میں بہت اچھے نمبروں کے ساتھ پاس ہو گیا تھا۔ امتحان میں میرے پیچھے بیٹھنے والا ہم جماعت بھی مرتے مرتے پاس ہو گیا تھا۔ ایف ایس سی کے لئے میں نے ایڈورڈز کالج پشاور میں داخلہ لے لیا اور ہاسٹل میں رہائش پذیر ہو گیا۔ ہاسٹل میں میرا میرٹ کے حساب سے کمرہ نمبر ایک بیڈ نمبر ایک تھا کیونکہ میرے نمبر میٹرک میں ہاسٹل میں رہنے والے تمام لڑکوں سے زیادہ تھے۔ وقت گزرتا گیا اور اردو میڈیم سے انگلش میڈیم میں جانے سے پیدا ہونے والی ابتدائی مشکلات کا سامنا کرتے کرتے میں اس نئے نظام تدریس میں رواں ہو گیا تھا اگرچہ اس کے لئے مجھے بہت محنت بھی کرنی پڑی تھی۔فرسٹ ائیر کا اختتام ہونے والا تھا۔ ہاسٹل میں رہنے والے مانسہرہ کے ایک لڑکے سے میری دوستی ہو گئی تھی۔ ان دنوں ایف ایس سی میں بھی فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر دونوں کے نصاب کا اکٹھا امتحان ہوتا تھا جبکہ فرسٹ ائیر کا امتحان کالج کا لوکل امتحان ہوا کرتا تھا۔ ایڈورڈز کالج پشاور میں ان دنوں ایک مثالی انتظامیہ تھی جہاں اصولوں کی پابندی ضرب المثل تھی۔ پروفیسر نارمن گرین اور بعد میں پروفیسر ٹموتھی وولمر پرنسپل تھے اور ہمارے فرسٹ ائیر وارڈن سر کلیم اللہ تھے اور ہم سب پر ان کا بلا کا رعب اور دبدبہ تھا۔ انہی دنوں کالج کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا کہ جن لڑکوں نے فرسٹ ائیر کے امتحان میں 70 فی صد سے کم نمبر لئے انہیں ہاسٹل سے نکال دیا جائے گا۔ یہ پتا چلنے پر ہم سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ ہم تو دور دراز کے علاقوں سے پشاور پڑھنے آئے تھے۔ امتحان شروع ہوا تو پتا چلا کہ ایڈورڈز کالج اور صوابی کے ہائی اسکول میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ سر انجم ہال میں ایک عقاب کی طرح پھرتے رہتے اور جس لڑکے نے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی اسے ادھر ہی اپنی حد میں رہنے کا کہہ دیا۔ بلاشبہ ایڈورڈز کالج پشاور امتحان میں سختی کے لحاظ سے ایک اونچے مقام پر فائز تھا لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ جہاں چاہ وہاں راہ۔ہوا کچھ یوں کہ ایک مضمون کا پرچہ تھا جو میں وقت سے کوئی چالیس منٹ پہلے ختم کر چکا تھا۔ میری نظر پاس ہی بیٹھے اپنے دوست پر پڑی تو میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے صورتحال کا پوچھا۔ اس نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا۔ میں نے پھر اشارے سے پوچھا کہ کون سے سوال نہیں آتے۔ اس نے پہلے دو اور بعد میں چار انگلیاں کھڑی کر کے بتایا کہ سوال نمبر 2 اور 4 اس کے بس سے باہر تھے۔ میرے ذہن میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ میں اپنی نشست سے اٹھا اور جا کر پاس ہی بیٹھے سر جاوید حبیب سے تین چار ایکسٹرا کاغذ لے آیا اور بچے ہوئے وقت میں سوال نمبر 2 اور 4 حل کر دئیے۔ جب پرچے کا وقت ختم ہوا اور لڑکے ایک ایک کر کے اپنے پرچے دینے لگے تو میں جاتے جاتے اپنے دوست کی نشست کے قریب گیا اور سر جاوید حبیب کی نظر سے بچتے ہوئے حل شدہ سوالوں کے کاغذ چپکے سے اس کی میز پر چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ اس نے وہ کاغذ اپنے پرچے کے ساتھ نتھی کر کے جمع کرا دئیے۔ یوں یہ آپریشن مکمل ہوا۔کہتے ہیں عقل ذرا دیر سے آتی ہے اور یہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ اسی دن شام کو سوچتے سوچتے مجھے احساس ہوا کہ یہ تو بڑی غلطی ہوگئی۔ اس لئے نہیں کہ یہ بہت بڑا اخلاقی جرم تھا بلکہ اس لئے کہ میری لکھائی اور میرے دوست کی لکھائی میں واضح فرق تھا اور پرچہ چیک کرنے والا اگر تھوڑی سی توجہ دیتا تو اسے پتا چل جاتا کہ یہاں کچھ گڑبڑ ہے اور یوں ہم دونوں ہی مارے جاتے۔ گویا میں نے دوستی کے جوش میں اس کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی داؤ پر لگا دی تھی۔ اب کیا کیا جائے؟ یہی سوچ سوچ کر دماغ ماؤف ہوا جا رہا تھا۔ دوست سے بھی مشورہ کیا لیکن اس کے پاس بھی کوئی حل نہ تھا۔ آخر میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ جب جھوٹ سے پیدا شدہ کوئی مشکل پیش آئے تو سچ ہی وہ واحد راستہ ہوتا ہے جو انسان کو بچا سکتا ہے۔ یہی سوچ کر میں نے اپنے دوست کو قائل کیا کہ ہم دونوں اپنے اس مضمون کے استاد کے پاس جا کر معاملہ ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔اگلے ہی دن ویک اینڈ تھا۔ میں نے اس دن صوابی جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور ہم دونوں بس میں بیٹھ کر پشاور سے کوئی چالیس کلو میٹر دور اپنے استاد کے شہر کی طرف عازمِ سفر ہوئے اس زمانے میں نہ موبائل تھے نہ ان کے گھر کوئی فون تھا۔ اس لئے ان کو کوئی اطلاع دینے کا طریقہ نہیں تھا۔ ہم پوچھتے پوچھتے صبح کے کوئی دس بجے وہاں پہنچے اور ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے۔سر گھر سے باہر نکلے تو مجھے لگا جیسے بستر سے اٹھ کر ہی سیدھا باہر آئے ہیں۔ بکھرے بال اور بغیر استری شدہ سلوٹوں سے بھرے ہوئے کپڑے، لیکن بغیر اطلاع کی اس بے وقت کی آمد پر بھی انہوں نے چہرے پر ایک مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور ہمیں گھر کے ساتھ ملحقہ ذاتی حجرے میں لے گئے۔ صحن میں دو تین گائیں بندھی ہوئی تھیں اور گوبر کی مخصوص بو کی وجہ سے سانس لینا بھی دشوار تھا۔ ہماری اچانک آمد پر سر حیران بھی تھے اور پریشان بھی کیونکہ یہ معمول سے نہایت ہٹ کر بات تھی۔ بہرحال انہوں نے بڑی محبت سے ہمیں بٹھا کر ایک بچے کو چائے بسکٹ کا بتا کر ہمیں بٹھایا اور ہماری آمد کا مقصد دریافت کیا۔ اب ہم بتائیں تو کیا بتائیں؟ بڑی کوشش سے ہمت جمع کر کے میں نے ساری رام کہانی انہیں سنائی اور انہیں بتایا کہ ہاسٹل ہم دونوں کے لئے کتنا ضروری تھا۔ ہم نے انہیں یقین دلایا کہ یہ ایک وقتی اور لمحاتی غلطی تھی جو ہاسٹل سے نکلنے کے ڈر کی وجہ سے ہم سے سرزد ہو گئی تھی اس لئے وہ ہمارے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرتے ہوئے اس غلطی سے درگزر فرمائیں۔ مجھے یاد ہے میں نے ان سے کہا کہ کہ میرے تو 70 فی صد سے نمبر زیادہ ہی ہوں گے لیکن میرے دوست کے نہیں ہوں گے اس لئے اگر دونوں کو معاف کرتے ہوئے اسی حساب سے نمبر دے دیں تو ہم ان کے شکرگزار ہوں گے۔ انہوں نے تحمل سے ہماری بات سنی۔ چائے پلائی اور کھانے کے لئے ٹھہرنے کا بھی کہا لیکن ہم نے شکریہ کہتے ہوئے اجازت طلب کی۔ اگلا دن ہمارا یہی سوچتے ہوئے گزرا کہ پرنسپل آفس سے بلاوا آئے گا اور ہماری خیر نہیں۔ لیکن نہ سر نے ہم سے اس بات کا کوئی ذکر کیا اور نہ ہی پرنسپل آفس سے کوئی بلاوا آیا۔ اب نہ جانے سر کو ہماری بے وقوفی اچھی لگی یا ہماری سچائی نے انہیں متاثر کیا لیکن جب چند دن بعد رزلٹ آیا تو ہم دونوں کے نمبر 70 فی صد سے زیادہ تھے۔
ایف ایس سی، میڈیکل کالج اور پھر اے ایم سی، وقت گویا پر لگا کے اڑتا رہا۔ سال 1995ء میں میرا تبادلہ آرمی بھرتی دفتر کراچی ہوا جہاں میں میڈیکل افسر کے طور پر تعینات ہوا۔ ایک دن اسسٹنٹ ایس آر او کے دفتر میں بیٹھا تھا تو انہوں نے ایک امیدوار کا میٹرک کا بورڈ کا سرٹیفیکیٹ دکھایا یہ بورڈ سے دستخط شدہ سرکاری اور اصلی سرٹیفکیٹ تھا لیکن اس پر نمبر نہیں لکھے تھے۔ اسسٹنٹ ایس آر او نے امیدوار کو بلایا اوراس سے پوچھا کہ اس کے سرٹیفیکیٹ پر نمبر کیوں نہیں لکھے۔ اس نے بڑی معصومیت سے جواب دیا،‘‘سر، ہم کو پتا نہیں آپ کو کتنے نمبر چاہئیں۔ آپ بتائیں گے تو ہم اس پر نمبر لکھیں گے۔’’ہم یہ سن کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ تو ہوئے لیکن ساتھ ہی اپنے ملک کے نظامِ تعلیم کی خستہ حالی پر رونا بھی بہت آیا۔
چند سال اور گزرے۔ 1997ء میں ریڈیالوجی میں گریڈنگ کرنے کے بعد میری پوسٹنگ بلوچستان کے شہر خضدار ہوئی۔ یہ کراچی اور کوئٹہ کے تقریباً درمیان میں واقع بلوچستان کا ایک اہم شہر ہے۔ ایک دن کسی کام سے شہر جانا ہوا تو ایک غیر معمولی منظر دیکھا۔ جگہ جگہ فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں پر ایسے رش تھا جیسے گڑ کی ڈلی پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں۔ میں نے اپنے تجسس سے مجبور ہو کر ایک دکان پر جا کر پتا کیا تو معلوم ہوا کہ کہ آج میٹرک کا پیپر ہے اور پیپر آؤٹ ہو چکا تھا۔ لوگ سوالات کے جوابات فوٹو اسٹیٹ کرا کے امتحانی ہال میں اپنے پیارے بچوں تک جوابات پہنچا رہے تھے۔ مجھے بڑا شوق ہوا کہ جا کر امتحانی ہال کے ارد گرد کا ماحول بھی دیکھوں۔ وہاں پہنچا تو ایک عجیب ہی منظر دیکھا۔ امتحانی ہال کے ارد گرد لوگ ایسے جمع تھے جیسے کسی قلعے کے چاروں طرف کسی حملہ آور لشکر نے محاصرہ کر رکھا ہو۔ ہال کی کھڑکیوں کے شیشے جگہ جگہ سے ٹوٹے ہوئے تھے اور لوگ فوٹو اسٹیٹ شدہ جوابات ان سے اندر پھینک رہے تھے۔ کچھ لوگ بھی ہال میں اندر آ جا رہے تھے اور وہ بھی اس نیک کام میں حصہ لے رہے تھے۔ میں زیادہ دیر اس منظر کو نہیں دیکھ سکا اور واپس چلا آیا۔
سالہا سال گزرے۔ اس نظامِ تعلیم سے گزر کر ہم یہاں تک پہنچے اور کچھ تھوڑے بہت ارتقائی مراحل بھی طے کئے لیکن ہمارا تعلیم کا نظام جوں کا توں اسی مقام پر کھڑا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ تعلیم کا مقصد کردار کی تعمیر کبھی رہا ہی نہیں۔ لوگ اس لئے پڑھتے ہیں کہ یا تو سرٹیفکیٹ کو ملازمت کے حصول کے لئے استعمال کریں اور یا اگر بہتر بھی ہوں تو اچھے نمبر لے کر کسی شعبے سے وابستہ ہوں اور روزی روٹی کما سکیں۔ تعلیم کو جب تک تربیت کے ساتھ وابستہ نہ کیا جائے تب تک معاشرے میں تبدیلی آنا ممکن نظر نہیں آتا۔
فکر و نظر
اخلاقی تربیت کے بغیر تعلیم بے فائدہ ہے
ہدایت اللہ