شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہی کی طرح شیخ عبدالقادر جیلانی بھی ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں جن سے انتساب اور جن کے علمی وارث ہونے پر برِصغیر پاک و ہند کے دو قابلِ ذکر مسالک یعنی دیوبندی و بریلوی فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ مسلک اہلحدیث کے متبعین انکا نہایت احترام کرتے ہوئے ان کی علمی آراء سے استفادہ کرتے ہیں۔ شاہ صاحب ہی کی طرح شیخ عبدالقادر جیلانی کی تعلیمات بھی ایسا گنجینہ معرفت ہیں جس سے ہر مسلک اپنے حصے کے موتی چن لیتا ہے۔ شیخ جیلانی کی سب سے مستند کتاب ''غنیۃ الطالبین'' ہے جسکا اصل اور بذات خود شیخ کا تجویز کردہ نام ''الغنیۃ لطالبی طریق الحق'' ہے۔ حاجی خلیفہ نے کشف الظنون جلد ۲ صفحہ ۱۲۱ میں، علامہ ابن تیمیہ نے مجموع الفتاویٰ جلد ۵ صفحہ ۱۵ میں اور علامہ ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ جلد ۱۲ صفحہ ۲۵۲ میں اس کو شیخ جیلانی کی مستند اور ثابت شدہ تصنیف بتایا ہے۔
شیخ جیلانی کی اس کتاب کی یہ بات نہایت قابلِ ذکر ہے کہ غنیۃ الطالبین سے اہلحدیث، دیوبند اور بریلوی ہر سہ مکتبہ فکر اپنے نظریات کی آبیاری کرپاتا ہے اور یہی ایک خوبی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شاہ ولی اللہ کی طرح شیخ جیلانی کی تعلیمات بھی اتحاد بین المسالک کی موید و داعی ہیں جن پر عمل کرکے کم از کم برصغیر کے مسلمان اپنے اختلافات کو کسی حد تک کم کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ جیلانی کی یہ کتاب تقریباً ہر مسلک کے مکتبات سے شائع ہوتی رہی ہے۔ اس تحریر کے سلسلے میں ہم نے غنیۃ الطالبین کے ان دو ایڈیشن کی طرف مراجعت کی ہے جو اہلحدیث اور دیوبندی مکتبات سے شائع ہوئے ہیں۔ اپنی کتب ''غنیۃ الطالبین'' اور'' الفتح الربانی ''میں جہاں ایک طرف شیخ جیلانی صفاتِ باری تعالیٰ، آمین بالجہر، رفع الیدین سے متعلق اثباتی کلام اور احناف، جہمیہ، مرجۂ کے خلاف سخت تنقیدیں کرکے اہلحدیث حضرات کی فکری آبیاری کرتے ہیں وہیں توسل، تعویذات،سماع موتیٰ، خود کے لیے علم الغیب، قطب و ابدال کے تذکرے، ۱۵ شعبان کی رات کی فضیلت، ہفتے کے ہر مخصوص دنوں کی صلوٰۃ اور دیگر وظائف کے ذریعے مسلکِ دیوبند و بریلوی کو بھی علمی غذا فراہم کرتے ہیں۔
ذیل میں ہم نہایت اختصار کے ساتھ شیخ جیلانی کی ان تعلیمات کی نشاندہی کررہے ہیں جن پر عمل کرکے برصغیر پاک و ہند کے تینوں مسالک ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کی فضا قائم کرسکتے ہیں۔ساتھ ہی ہم اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے جائیں گے کہ کہاں کہاں مسلک اہلحدیث و دیوبند کا شیخ کی تعلیمات سے ٹکراؤ نظر آتا ہے:
۱۔ شیخ جیلانی اپنی کتاب غنیۃ الطالبین کے صفحہ نمبر ۱۲۸میں قبرستان کی زیارت کے آداب بتاتے ہوئے تعلیم دیتے ہیں کہ قبر کے سامنے اس تعظیم سے کھڑے ہو جیسے کہ صاحب قبر کی زندگی میں کھڑے ہوتے تھے اور گیارہ مرتبہ سورۃ اخلاص اور دوسری سورتیں پڑھ کر اس کا ثواب صاحب قبر کو بخشے۔ جبکہ اس طور کی تعلیمات اہلحدیث مسلک میں بدعت کے زمرے میں آتی ہیں یہی وجہ ہوئی کہ اہلحدیث مترجم حافظ مبشر حسین لاہوری غنیۃ الطالبین کے حاشیہ میں اس فعل کو بدعت قرار دیتے ہیں۔
۲۔ فوت شدہ انسان کی ذات کا توسل اہلحدیث مسلک میں بالاتفاق حرام و بدعت اور بعض حالات میں شرک تک قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ شیخ جیلانی اپنی کتاب غنیۃ کے صفحہ ۸۲ میں قبر نبوی ﷺ پر حاضر ہوکر نبی ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگنے کی نہ صرف تعلیم دیتے ہیں بلکہ ساتھ میں نبی ﷺ کو پکارنے کی بھی تعلیم دیتے ہوئے دعا کے الفاظ بتاتے ہیں کہ'' اے اللہ کے رسولﷺ! میں آپ کے ذریعے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں'' اور پھر اگلی دو سطروں میں نبی ﷺ کی ذات کے وسیلے سے اللہ سے مناجات کرتے ہیں۔ یہ توسل کی بالکل وہی شکل ہے جو کہ اہل دیوبند اور بریلوی کے ہاں رائج ہے۔
۳۔ اپنی کتاب غنیۃ کے باب نمبر ۱۴ میں شیخ جیلانی نے مختلف مہینوں کی فضلیت بیان فرمائی ہے جس میں ماہ رجب کے پہلے روزے اور پہلے قیام کی فضیلت کی سرخی قائم کرتے ہوئے اپنے استاد ھبۃ اللہ السقطی کی سند سے رجب، شعبان اور رمضان کی فضیلت میں ایک موضوع روایت نقل فرمائی ہے جبکہ ھبۃ اللہ السقطی پانچویں صدی کا ایک کذاب راوی ہے، اسکی سند کا شیخ جیلانی نے کوئی ذکر نہیں کیا۔ یاد رہے کہ ھبتہ اللہ السقطی کی اسی طرح کی منقطع اور معضل اسناد سے شیخ جیلانی کی یہ کتاب بھری پڑی ہے جبکہ اس طرح کی اسناد بیان کرنے پر حافظ زبیر علی زئی مرحوم نے ایک مشہور حنفی محدث کو کذاب تک قرار دیدیا تھا۔
۴۔ پھر اسی باب میں آگے جاکر شیخ جیلانی ۱۵ شعبان کی فضیلت کی تعلیمات دیتے نظر آتے ہیں اور اس کے متعلق ان روایات سے استدلال کرتے ہیں جو مسلک اہلحدیث کے علماء کے نزدیک ضعیف تو درکنار موضوع تک قرار دی جاتی ہیں۔ صفحہ ۳۷۴ میں شب برات کی نماز کی سرخی کے تحت لکھتے ہیں کہ '' شب برات کی نماز سو رکعات ہے، جن میں ایک ہزار مرتبہ سورۃ اخلاص کی تلاوت ہے۔ اسے صلوٰۃ الخیر کہا جاتا ہے''۔ یاد رہے کہ ۱۵ شعبان کی رات کی فضلیت اہل دیوبند و البریلویہ کے نزدیک تو ثابت ہے لیکن اہلحدیث حضرات اس طرح کی تعلیمات کو سخت بدعت مانتے ہیں۔
۵۔ غنیۃ الطالبین کے باب ۹ میں شیخ جیلانی ہفتہ میں ہر دن کی مخصوص صلوٰۃ کی نہ صرف تعلیمات دیتے ہیں بلکہ اتوار کی رات کی نماز، سوموار کی رات کی نماز، منگل کی رات کی نماز وغیرہم کی سرخیاں قائم کرکے ہر دن کی رات کی نماز کا مخصوص طریقہ بھی بتاتے ہیں۔جبکہ اس طور کی نمازوں کا اہتمام کرنے پر اہلحدیث حضرات بریلوی حضرات پر بدعتی ہونے کا فتویٰ لگاتے ہیں اور دیوبند اہل علم بھی اس طور کی صلوٰۃ کو بدعات کے زمرے میں ہی لیتے ہیں۔
۶۔ غنیۃ الطالبین کا باب ۱۴ تو پورا کا پورا ان تعلیمات سے پر ہے جن کو اہلحدیث حضرات صریح بدعت قرار دیتے ہیں۔ اسی باب میں صفحہ نمبر ۳۵۵ میں ''سال بھر کی وہ راتیں جن میں قیام کرنا مستحب ہے'' کی سرخی قائم کرکے شیخ جیلانی کل چودہ راتوں میں قیام اللیل کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں جن میں ۱۵ شعبان کی رات سے لیکر ماہ رجب کی پہلی، پندرہویں اور ستائیسویں رات بھی شامل ہے۔ امید ہے کہ شیخ جیلانی کی اس طور کی تعلیمات پڑھ لینے کے بعد ہمارے اہلحدیث و دیوبندی بھائی بریلوی بھائیوں سے متعلق تھوڑی نرمی کا اظہار کرینگے اور اس طور کی صلوٰۃ کے اہتمام کے لیے بریلوی حضرات پر بدعت کی تہمت نہیں لگائیں گے۔
۷۔ سماع موتیٰ کا عقیدہ ہمیشہ مسلک اہلحدیث اور مسلک دیوبند و البریلویہ میں وجہ تنازعہ بنا رہا ہے۔ اسی تنازع کو حل کرنے کے لئے اہلحدیث عالم علامہ عبدالرحمٰن کیلانی مرحوم نے ''روح، عذاب قبر اور سماع موتیٰ'' تصنیف کی تو حافظ زبیر علی زئی مرحوم نے اپنے مقالات میں اس پر سیر حاصل بحث کرکے اہل دیوبند و اہل البریلویہ کے عقیدہ سماع موتیٰ کو بالصراحت غلط قرار دینے کی کوشش کی۔ جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بابت بھی اہل دیوبند و اہل البریلویہ شیخ جیلانی کی تعلیمات پر ہی عمل پیرا ہیں۔ شیخ جیلانی اپنی کتاب غنیۃ الطالبین کے صفحہ نمبر ۱۷۹ میں اپنا عقیدہ موتیٰ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ''ہمارا عقیدہ ہے کہ میت اپنے زائرین کو پہچانتی ہے بالخصوص جب وہ جمعہ کے روز طلوع فجر سے لیکر طلوع شمس تک اس کے پاس آتے ہیں۔''
۸۔ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین کے صفحہ نمبر ۲۵۸ میں شیخ جیلانی اہل البریلویہ کے نظریہ تصرفات اولیاء کی تعلیم دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ '' یہ چالیس منتخب ابدال حضرات ہیں جو پروردگار کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں، اسے شرکاء سے پاک صاف گردانتے ہیں، یہی دنیا میں حاکم ہیں اور قیامت کے روز سفارش کرنے والے ہیں، اس لئے اللہ نے انہیں کائنات کے تصرف و تدبر اور لوگوں کے لئے باعث رحمت پیدا فرمایا ہے۔''
۹۔ اپنی کتاب الفتح الربانی ترجمہ بنام فیوض یزدانی بقلم مشہور دیوبندی عالم مولانا عاشق الہیٰ میرٹھی صفحہ نمبر ۲۵۱ میں شیخ جیلانی وحدت الشہود کا پرچار کچھ طرح کرتے ہیں: ''اے ضعیف القین! نہ تیرے پاس دنیا ہے نہ آخرت۔ اور یہ تیری حق تعالیٰ کی جناب میں بے ادبی اور اس کے اولیاء و ابدال پر الزام رکھنے کی وجہ سے ہے جن کو حق تعالیٰ نے انبیاء کا قائم مقام بنایا ہے کہ نبیوں اور صدیقوں پر جو بوجھ رکھا تھا وہی ان پر رکھ دیا ہے۔ انبیاء کے اعمال اور ان کے علوم ان اولیاء کے حوالے کئے۔ ان کے نفوس و خواہشات سے ان کو فنا کردیا اور اپنے ساتھ بقا عطا فرما کر اپنے سامنے کھڑا کرلیا۔ اپنے ماسوا سے ان کے دلوں کو پاک کیا اور دنیا و آخرت اور ساری مخلوق ان کے ہاتھ میں دیدی۔'' اب خود دیکھ لیجئے اس میں اور اہل البریلویہ کے نظریہ تصرفات و مقام اولیاء میں کیا فرق ہے۔ ان ہی نظریات کی بناء پر اہلحدیث حضرات اہل البریلویہ کو مشرک تک قرار دیدیتے ہیں جبکہ ہمارے خیال میں یہ بے جا تشدد
پسندی ہے۔ شیخ جیلانی جیسی عظیم شخصیت سے اس طور کی تعلیمات کا ملنا کسی قدر ان تعلیمات کی حقانیت پر دال ہے۔
۱۰۔ اسی الفتح الربانی میں مجلس نمبر ۲ کی سرخی کے تحت شیخ جیلانی اپنے منہ سے اپنے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں: ''اگر حکم کا پابند نہ ہوتا تو بتا دیتا جو کچھ تمہارے گھروں میں ہے۔'' پس ثابت ہوا ہے کہ اہل بریلویہ بھائی اگر نبیﷺ کو عالم الغیب قرار دیں تو وہ اس بابت صائب ہیں، اس سلسلے میں اہلحدیث و دیوبند بھائیوں کو ان سے جھگڑا بالکل روا نہیں رکھنا چاہیئے کیونکہ جب شیخ جیلانی علم الغیب پر مطلع ہوسکتے ہیں تو پھر نبیﷺ تو بدرجہ اولیٰ عالم الغیب ہوسکتے ہیں۔
تلک عشرۃ کاملۃ۔ یوں تو شیخ جیلانی کی ایسی سو سے زیادہ تعلیمات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جن کو عمومی طور پر اہلحدیث، دیوبند و بریلوی مکاتبِ فکر مناظرہ بازی کی سبیل بناتے ہیں جبکہ ان تعلیمات کا اصل ماخذ شیخ جیلانی کی کتب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلحدیث مسلک کا ایک کثیر گروہ شیخ جیلانی کی بابت سکوت اختیار کرتا ہے۔ ہمارے خیال میں شاہ ولی اللہ کی طرح ہی شیخ جیلانی کی شخصیت بھی اپنے متبعین کو اتحاد کی طرف بلاتی ہے اور یہ سب صرف اس لیے ممکن ہوسکا کہ شیخ جیلانی بھی سلسلہ تصوف سے تعلق رکھتے تھے جس کا بنیادی مقصد ہی مذہب و مسلک سے ماوراء ہو کر فلسفہ محبت و انسانیت کا پیغام عام کرنا ہے۔
دین و دانش
‘‘غنیۃ الطالبین’’ کا جائزہ
محمد فہد حارث