امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب ‘‘الرسالہ’’ کی تدریس کے دوران میں ایک بحث کے ضمن میں میں نے استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ جو بات مجھ جیسے ادنیٰ طالب علم کی سمجھ میں آ گئی ہے، وہ امام شافعی جیسے امام الائمہ پر واضح نہیں ہو سکی؟ اس کے جواب میں استاذ گرامی نے جو گفتگو فرمائی، وہ دین کے طالب علموں کے لیے مشعل راہ ہے۔ اس کے چند نکات افادہ عام کے لیے پیش خدمت ہیں۔
۱۔ جو بات ہماری سمجھ میں آ گئی ہے، وہ ہمارے اسلاف کی سمجھ میں کیوں نہیں آسکی؟ یہ سوال ایک بہت بڑا مغالطہ ہے، بلکہ علمی دائرے کا گناہ ہے۔ اس طرح سوچنے سے علم کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ جب آپ کسی صاحب علم کو پڑھیں تو سارا زور اُس کی بات، اُس کی پوزیشن اور اُس کی جگہ کو سمجھنے میں لگائیں۔ اُس کی بات کو اُسی کے زاویہ نظر سے اور اُسی کے انداز فکر کے مطابق پڑھنا چاہیے۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ آپ اس کو اپنے زاویہ نظر سے پڑھنے لگیں۔ جب کوئی شخص اپنے زاویہ نظر سے کسی صاحب علم کی تحریر کو پڑھتا ہے تو یہ درحقیقت تنقید ہوتی ہے جو نہ صرف خوداُس کے لیے اُس صاحب علم کا موقف سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے، بلکہ اگر وہ اسی ذہن کے ساتھ اُس تنقید کو بیان کر دے تو وہ دوسروں کے لیے بھی مغالطے کا باعث بن جاتی ہے۔ اس طریقے میں تنقید کی صورت یہ نہیں ہوتی کہ مثلاً امام شافعی نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے، اس کا مطلب انہوں نے ٹھیک نہیں سمجھا، بلکہ یہ ہو تی ہے کہ چونکہ میں اس کا مطلب بالکل ٹھیک سمجھتا ہوں، اس لیے امام شافعی کی بات غلط ہے۔ چنانچہ یہ تربیت ضروری ہے کہ آپ اصحاب علم کے موقف کو ویسے سمجھیں جیسے کہ وہ کہہ رہے ہیں۔ لہٰذا پہلا مرحلہ یہ نہیں ہے کہ آپ کسی صاحب علم کی غلطی کو سمجھنے کی کوشش کریں، بلکہ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ آپ اُس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
۲۔ یہ علمائے سابق کے کندھے ہوتے ہیں جن پر کھڑے ہو کر بعض اوقات ہماری نظر اُن سے آگے چلی جاتی ہے۔ یہ اگر میسر نہ ہوں تو علم کا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ارسطو اگر بنیاد فراہم نہ کرتا تو نیوٹن کے پیدا ہونے کی کوئی گنجائش نہ ہوتی۔ اگر آپ ماضی کے سائنسی علم کے اچھے شناور نہیں ہیں تو آپ وہیں جائیں گے جہاں سے ارسطو نے آغاز کیا تھا۔ انسان اصل میں اپنی تاریخ کے ذریعے سے آگے بڑھتا ہے، کیونکہ کسی بھی آدمی کو اللہ نے دوہزار سال کی عمر نہیں دی ہوتی۔ خدا نے انسان کے اندر علم کے پوٹینشل کا ظہور مجرد اور مطلق طور پر نہیں رکھا، بلکہ اصول میں رکھاہے۔ وہ جو شکل بھی اختیار کرتا ہے، خارج کے علم کے ساتھ مل کر اختیار کرتا ہے اور خارج میں محض مشاہدہ نہیں ہوتا، بلکہ علم کی تاریخ بھی ہوتی ہے۔ اسی لیے میں آپ لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ بھئی اگر آپ نے کوئی اشتہار بناناہے تو نئے سرے سے کیوں بناتے ہیں، پہلے یہ دیکھیں کہ سابقہ لوگ کیا بنا چکے ہیں۔ اس میں آپ اضافہ کریں گے تو آگے بڑھیں گے، ورنہ وہاں کھڑے ہوں گے جہاں دنیا میں پہلا اشتہار بنانے والا کھڑا تھا۔
۳۔ انسان کے علمی سفر کو اگر سمجھنا چاہیں تو کبھی بچوں کی چھوٹی گاڑی کو دیکھیں۔ جب وہ دیوار یا میز سے ٹکرا جاتی ہے تو بچہ اسے اٹھا کر پھر وہیں رکھ دیتا ہے جہاں سے اس نے چلنا شروع کیا تھا۔ علم کا سفر ایسا ہی ہے۔ ایک صاحب کو ‘اضطراری علم’ کے بارے میں سمجھاتے ہوئے میں نے یہی مثال دی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ وہ پوٹینشل جو اس گاڑی کے اندر موجود ہے، وہ اضطراری علم ہے۔ یہ گاڑی خارج میں اپنا سفر شروع کرتی ہے، ہو سکتا ہے کہ جب آپ اسے چلائیں تو سیدھی چلتی جائے اور ہو سکتا ہے کہ اگلے ہی لمحے کسی چیز سے ٹکرا کر رک جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ٹکرانے کے بعد پیچھے کی طرف مڑ جائے اور الٹی سمت میں چلنے لگے۔
۴۔ ماضی کا جائزہ حاضر میں کھڑے ہو کر کبھی صحیح طریقے سے نہیں لیا جا سکتا۔ میں جس دور کے علم کو پڑھتا ہوں تو اس دور کے اندر رکھ کر اس کو دیکھتا ہوں۔ ساری زندگی کی یہی ٹریننگ ہے۔ کیونکہ کوئی انسان بھی ایسا نہیں ہے جو زمانے سے بالاتر ہو کر بات کر سکے۔ قرآن مجید کی جس چیز نے میرے دماغ کو شکست دی، وہ اس کا زمانے سے بالاتر ہونا تھا۔
۵۔ بے رحمانہ analysis کی یہی صلاحیت ہے جو بعض اوقات انسان کے لیے شیطنت بن جاتی ہے۔ اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ آپ اکثردیکھتے ہیں کہ analysis کی غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے اذہان صریح حقائق کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے analysis کی اس دو دھاری تلوار کو پوری طرح قابو میں رکھ کر استعمال کرنا چاہیے۔
۶۔ یہ بات بھی یاد رکھیے کہ یہ جو ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے آخری حق دریافت کر لیا ہے، تووہ قیامت تک آخری نہیں ہو سکتا، کیونکہ کوئی بھی آنے والا ہماری غلطی واضح کر سکتا ہے۔ اس کے بارے میں کسی ابرام اور اصرار کا طریقہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس چیز کو مان کر ہی جینا چاہیے کہ ہم نے اپنی دیانت داری سے ایک بات سمجھی ہے، پورا یقین ہے کہ ہم ٹھیک نتیجے پر ہیں، لیکن ہم اس میں غلطی کا امکان بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اگر آپ اس جگہ پر نہیں کھڑے ہوتے تو پھر کوئی آپ سے بات ہی نہیں کر سکتا اور آپ جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔
۷۔ یہاں یہ واضح رہے کہ کسی کی بات کو اس کے زاویے سے سمجھنے، اس کے فکر کو اس کے زمانے کے اندر رکھ کر دیکھنے کا یا اس کی الجھنوں کا تعین کرنے کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ آپ مرعوبیت میں مبتلا ہو جائیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ مرعوب ہو کے بیٹھ جائیں، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ سادہ ہو جائیں۔ میری زندگی کو آپ نے دیکھا ہے، جس شخص کے سامنے میں اپنے آپ کو بالکل پست محسوس کرتا ہوں، وہ میرا استاد ہے، لیکن مرعوب میں ان سے بھی نہیں ہوتا۔
۸۔ امام شافعی ابتدا کرنے والے ہیں، ان کے پس منظر میں کچھ نہیں ہے، اس لحاظ سے آپ دیکھیں گے تو وہ آپ کو عظمت کے اس مقام پر کھڑے نظر آئیں گے جس میں ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ ہم ان کے نقوش قدم کے آگے کھڑے ہیں۔ یہ صرف مذہب میں نہیں ہے کہ آپ اسے عقیدت مندی پر محمول کریں، ہر علم کا یہی معاملہ ہے۔
۹۔ آپ کو اپنی ذہنی فضا کو پوری طرح اکیڈیمک رکھنا چاہیے۔ امام شافعی کی بات کو پڑھیے، سمجھیے اور جہاں کہیں ابہام ہو، وہاں ان کی بات کو ویسے ہی لینا چاہیے جیسے بعد کے شوافع نے لیا ہے۔ کیونکہ امام شافعی کی کتاب سیبویہ کی کتاب کی طرح ہے،
کوئی مرتب اصول کی کتاب نہیں ہے۔ امام صاحب نے بہت سی چیزوں کی تنقیح کتاب الام میں اور مختلف الحدیث میں بھی کی ہے، انھیں بھی دیکھ لینا چاہیے۔
۰۱۔ امام شافعی کو پڑھتے ہوئے علمی دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ آپ امام صاحب کی بات کو سمجھیں، ان کی پوزیشن کو متعین کریں، ان کے مسئلے کو appreciate کریں۔ یہ سمجھنے کا عمل ہے۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد اگر آپ ان پر کوئی تنقید لکھنا چاہیں تواسے خالص علمی طریقے سے لکھیں۔ یعنی یہ کہ امام شافعی نے اگر قرآن کی آیت سے استنباط کیا ہے تو اس میں کیا خرابی ہے، اگر کسی روایت کو بنیاد بنایا ہے تو اس میں کیا غلطی ہے، اگر کسی معاملے میں عقلی استدلال کیا ہے، توکیا وہ عقل کی میزان پر پورا اترتا ہے، اگرمشاہدے یا تجربے کی کوئی بات کی ہے تو کیا وہ خلاف واقعہ تو نہیں ہے اورمشاہدہ اور تجربہ واقعتاً اس کی تصدیق کررہے ہیں، اگر انسان کے فطری علم کو دلیل بنا یا ہے تو کیا وہ فی الواقع فطری علم ہے؟
ہمارے پاس استدلال کے فطری ذرائع یہی ہیں۔ ہم یا فطری عمل سے استدلال کرتے ہیں، یا استنباط سے کرتے ہیں، یا تجربے سے کرتے ہیں، یا مشاہدے سے کرتے ہیں۔ گویا جب ہم چیزوں کو ثابت کرتے ہیں تو ہمارے پاس دو ہی طریقے ہوتے ہیں۔ ایک استخراج کا اور دوسرا استقراء کا۔ ان کے علاوہ انسان کوئی اور طریقہ ایجاد نہیں کر سکا۔ ان طریقوں کو بالکل بے لاگ طور پر استعمال کرنا چاہیے اوران کا اطلاق کرتے وقت یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ امام شافعی پر کررہے ہیں یا امام فراہی پر۔