برٹنڈرسل (1872-1970) دور جدید کا وہ مفکر اور فلسفی ہے جس نے مغربی فکر اور اقدار کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر آج کے مغرب میں ایک غیر شادی شدہ خاتون کے لیے عفت و عصمت کوئی قابل لحاظ چیز نہیں ہے۔ مگر مغرب ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ انیسویں صدی کی وکٹورین اقدار کے تحت مغرب ایک عفت پسند معاشرہ تھا۔مگر بیسویں صدی میں یہ برٹنڈ رسل ہی تھا جس نے اپنی مشہور کتاب Marriage and Morals میں اس تصور عفت کو دور جدید میں ناقابل عمل قرار دیا تھا۔ شروع میں اس کی سخت مخالفت ہوئی لیکن رفتہ رفتہ اس کی بات کو قبول کرلیا گیا اور بعد میں اس کتاب کی بنیاد پر اسے نوبل پرائز بھی ملا۔
اس نقطہ نظر کی قبولیت کی اساس یہ حقیقت تھی کہ صنعتی انقلاب کے بعد نوجوان تعلیم، ملازمت اور پھر صنعتی دور کی ایجادات کے بعد وجود میں آنے والے ایک خاص معیار زندگی تک پہنچتے پہنچتے تیس برس کی عمر کو پہنچ جاتے تھے۔ رسل کے سامنے سوال یہ تھا کہ شادی اگر اس عمر میں ہوگی تو اس انسانی ضرورت کا کیا ہوگا جو بلوغت کے فوراً بعد پوری شدت سے پیدا ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اس کا حل یہ تھا کہ انسانی ضرورت کو شادی سے الگ کر دیا جائے۔ یوں ایک نوجوان خاتون یا مرد شادی تو تیس برس کی عمر کے لگ بھگ زندگی میں سیٹ ہونے کے بعد ہی کرے، لیکن اپنی انسانی ضرورت کو شادی کے بغیر ہی پورا کرتا رہے۔ اس کا لازمی نتیجہ تصور عفت کا خاتمہ تھا۔
رسل کے اس حل نے بیسویں صدی کے مغرب میں ایک مسئلہ حل کیا لیکن کئی اور مسائل پیدا کر دیے۔ اس کی تفصیل ہماری اس تحریر کا موضوع نہیں ہے۔ لیکن سردست ہم صرف یہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ آج ہم ٹھیک اسی جگہ کھڑے ہوئے ہیں جس جگہ ایک صدی قبل مغرب کھڑا ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم رسل کا بیان کردہ حل نہیں قبول کرسکتے۔ مگر بدقسمتی سے معاشرہ اتنے سنگین انسانی مسئلے کو حل کرنے کے لیے بالکل بے حس بنا ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں منافقت، جنسی انارکی اور بے راہ روی بڑھ رہی ہے۔ اس مسئلے کا ہمارے معاشرے اور ہماری مذہبی اقدار کے تحت کیا حل ہے، اس پر ہم نے پہلے بھی قلم اٹھایا تھا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی لکھتے رہیں گے۔ مگر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ سردست جو بات اس مثال سے واضح کرنی مقصود تھی وہ یہ کہ برٹنڈ رسل کا فکری طور پر مغرب میں کتنا اثر تھا اور آج تک ہے۔
رسل کا حوالہ آج جس پہلو سے دینا مقصود ہے وہ اس کا ایک دوسرا مضمون Why I Am Not a Christian ہے جو دراصل رسل کا ایک لیکچر ہے جو 1927میں دیا گیا تھا۔ اس میں رسل نے وجود باری تعالیٰ کے حوالے سے دی جانے والی مختلف دلیلوں کو رد کیا ہے۔ یہ مضمون جو بہت مشہور ہوا بعد میں اسی موضوع سے متعلق بہت سے دیگر مضامین کے ساتھ ایک مجموعے کی شکل میں Why I Am Not a Christian کے عنوان ہی سے شائع ہوا۔ اس مجموعے کے مقدمے میں رسل نے مذہب اور وجود باری تعالیٰ کی نفی کرتے ہوئے ایک بڑی دلچسپ بات لکھی ہے۔ وہ اسی کے الفاظ میں درج ذیل ہے۔
''There is one of these arguments which is not purely logical. I mean the argument from design. This argument, however, was destroyed by Darwin''
رسل کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے وجود کے حق میں پیش کیے جانے والے تمام دلائل ارسطو کی پیش کردہ قدیم یونانی منطق پر مبنی تھے جو ویسے ہی رد ہوچکی ہے۔ وہ ان دلائل میں واحد استثنا دنیا میں پائے جانے والے نظم کی بنیاد پر ایک ناظم یا خدا کے وجود کی دلیل کو سمجھتا ہے۔ تاہم اس کے نزدیک یہ دلیل بھی ڈارون کے نظریہ ارتقا نے ختم کر دی ہے۔ کیونکہ ارتقا کے نظریے نے یہ بتا دیا ہے کہ دنیا میں زندگی اور اس میں اتنا تنوع کیسے وجود میں آیا۔اس کے لیے کسی خدا کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔تاہم یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ برٹنڈ رسل کا مسئلہ خدا نہیں بلکہ مذہب ہے۔ اس نے اسی کتاب کے مقدمے میں خود واضح کیا ہے کہ وہ مذہب کو غلط ہی نہیں سمجھتا بلکہ اس کے ساتھ وہ اسے نقصان دہ بھی سمجھتا ہے۔
I am as firmly convinced that the religions do harm as I am that they are untrue.
یہ صرف برٹنڈرسل کا معاملہ نہیں، الحاد کے بیشتر پیروکار مذہب کے بارے میں ایسی ہی یا اس سے ملتی جلتی کوئی اور منفی رائے رکھتے ہیں۔ مذہب کے بارے میں اس رائے کی دو وجوہات برٹنڈرسل اور دیگر ملحدین بیان کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ اہل مذہب اپنے عقائد اور تصورات کے سامنے کسی ثابت شدہ سچائی کو مانتے ہیں اور نہ اس کے خلاف کوئی عقلی استدلال قبول کرتے ہیں۔ جبکہ اہل مذہب کی دوسری روش یہ ہے کہ وہ تنقید کرنے والوں اور علم و عقل کی بات کرنے والوں کے دشمن بن کر کبھی انھیں قتل کر دیتے ہیں، کبھی جیل اور نظربندی کا نشانہ بناتے ہیں، کبھی ان کی کتابیں جلاتے ہیں اور کبھی تشدد سے کام لے کر ان کا راستہ روکتے ہیں۔ اسی طرح اہل مذہب دوسرے مذاہب کے حوالے سے بھی عدم رواداری کا شکار ہوتے ہیں اور ان کو شکست دینے، مٹا دینے اور ان پر اپنا غلبہ قائم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔یہ وہ دو چیزیں ہیں جن کی بنا پر ملحدین مذہب کو ناحق اور نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ مذہب کا تصور ہی خدا سے آتا ہے اس لیے مذہب کا انکار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خدا کا انکار کیا جائے۔
اسلام کا جواب
ملحدین کا نقطہ نظر سامنے آنے کے بعد اب ضروری ہے کہ اس نقطہ نظر کا جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ یہ کس درجہ میں معقولیت اور حقیقت پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے پہلی بات ارتقا کا وہ نقطہ نظریہ ہے جس کے متعلق ملحدین کا خیال ہے کہ اس نے خدا کے تصور کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ خدا کے وجود پر شاہد کائنات کا یہ نظم جو زبان حال سے اپنے خالق کا تعارف ہے، بقول برٹنڈرسل ڈارون اور اس کے نظریہ ارتقا نے اس دلیل کو ختم کر دیا ہے۔ اسی بنا پر ڈارون کے متعلق ملحدین یہ کہتے ہیں کہ اس نے معاذاللہ خدا کو قتل کر دیا۔
اس نقطہ نظر کا جائزہ قرآن مجید کی روشنی میں لینے سے قبل یہ بتانا ضروی ہے کہ جس خدا کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ مسیحیوں کا وہ خدا تھا جس نے زمین کو 4004 قبل مسیح 22 اکتوبر کی شام بنایا تھا۔ جس نے صبح و شام کے وقفے میں ایک ہی دن میں ساری مخلوقات کو پیدا کر دیا تھا۔ اور جس نے ہفتے کے چھ دنوں میں پوری کائنات بنا دی اور ساتویں دن آرام کیا۔ ظاہر ہے کہ مذہب اور خداکے نام پر جب ایسے دعوے کیے جائیں گے تو پھر وہی ہونا بھی ہے جو پیچھے بیان ہوا ہے۔ تاہم نزول قرآن کے بعد اب خدا کی بات جاننے کا واحد قابل اعتماد ذریعہ قرآن مجید ہے۔ چنانچہ جب ہم قرآن مجید کو دیکھتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید بھی تخلیق کائنات، انسان اور دیگر مخلوقات کی تخلیق اور انفس و آفاق کے آثار پر بار بار گفتگو کر رہا ہے، مگر مجال ہے کہ قرآن میں ایک لفظ بھی ایسا پایا جائے جسے سائنس کی کسی بھی ترقی نے غلط ثابت کر دیا ہو۔اس کے بالکل برعکس محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید اپنے ابدی اسلوب میں گویا انھی سوالات کا جواب دے رہا ہے جو آج کے انسان کے ذہن میں الحادی فکر نے پیدا کر دیے ہیں۔ قرآن مجیدکائنات میں ہر سو پھیلی قدرت، ربوبیت اور حکمت کی نشانیوں کو بنیاد بنا کر ایک واضح سچائی کو لوگوں کے سامنے رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ کائنات جو ہر پہلو سے مجموعہ اضداد ہے اور مختلف عناصر سے مل کر بنی ہے اور جس کی تمام طاقتیں زندگی کے لیے موت کا پیغام لاتی ہیں، اچانک اس کرہ ارض کے لیے ایک بالکل جدا روپ اختیار کرلیتی ہے۔ یہاں ہر کائناتی قوت اور عنصر زندگی کے فروغ اور اس کی بقا کی خدمت پر مامور ہے۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ رب العالمین کی ہستی نے کیا ہے۔یہی وہ بات ہے جس کے متعلق برٹنڈرسل کا دعویٰ ہے کہ اسے ارتقا نے باطل کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیسے باطل کیا ہے؟ برٹنڈرسل نے اپنے استدلال کی تفصیل Why I am not a christian میں اس طرح کی ہے۔
It is not that their environment was made to be suitable to them, but that they grew to be suitable to it, and that is the basis of adaptation. There is no evidence of design about it.
اس کا مدعا یہ ہے کہ حیات کے لیے موزوں ماحول کا مطلب یہ نہیں کہ کسی خدا نے زندگی کو پیدا کرنے کے لیے اس زمین پر زندگی کے لیے سازگار ماحول کو پیدا کیا۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس ماحول کی وجہ سے زندگی نے جنم لیا اور پھر وہ زمین پر ہر جگہ اس ماحول کے لحاظ سے مختلف شکلوں میں ڈھلتی چلی گئی۔ اس لیے نظم کائنات یا ڈیزائن کی بنیاد پر خدا کے ہونے کی بات کرنا کوئی ثبوت نہیں۔
برٹنڈرسل کے استدلال کی کمزوری
بظاہر یہ بات بڑی مضبوط معلوم ہوتی ہے، مگر حقیقت میں اس سے زیادہ کمزور اور بودی بات نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر چاند پر چاند کے ماحول اور حالات کے لحاظ سے ایک خاص طرح کی زندگی وجود میں آجانی چاہیے تھی۔ مریخ پر مریخ کے حالات کے لحاظ سے ایک طرح کی زندگی وجود میں آجانی چاہیے تھی۔ اسی طرح دیگر سیاروں کا بھی معاملہ ہے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ انسان چاند پر جاچکا ہے۔ مریخ پر اس کی بنائی ہوئی مشینیں اتر چکی ہیں۔ جبکہ اس کے بنائے ہوئے خلائی جہاز پورے نظام شمسی کا سفر کرکے اس سے باہر نکل چکے ہیں۔ زندگی کہیں نہیں ملی۔ جبکہ اس اصول کے مطابق تو ہر جگہ زندگی کی کسی نہ کسی شکل کو ہونا چاہیے تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کو بنانے اور باقی رہنے کے لیے ایک انتہائی خاص قسم کا ماحول چاہیے۔ اگر زندگی کی توجیہہ یہ کہہ کر کی جائے گی کہ یہ ماحول کی پیدا کردہ ہے تو اگلا سوال یہ پیدا ہوجائے گا کہ یہ ماحول کیسے وجود میں آگیا؟ خود سائنسدان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی کو وجود میں لانے کے لیے کسی سیارے پر متعدد عوامل کا موجودہونا ضروری ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں مشہور ماہر فلکیات اور ملحد دانشور کارل ساگان نے ان کی تعداد دو بتائی تھی اور اب سائنسدان ان کی تعداد دو سو سے زائد بتاتے ہیں۔ جبکہ سائنسی دریافتوں کے ساتھ ان عوامل کی تعداد مزید بڑھے گی۔ یہ سارے عوامل ایک ساتھ کسی سیارے پر اتفاق سے جمع ہو جائیں ایسا ہونا خالص حسابی بنیادوں پر بھی بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ پھر مسئلہ صرف زندگی کے وجود میں آنے کا نہیں بلکہ کائنات کیوجود میں آنے اور باقی رہنے کا ہے۔ یہ کائنات جن عناصر سے مل کر بنی ہے جو قوتیں اس میں کارفرما ہیں، وہ جب تک ایک خاص ترتیب میں نہ ہوں یہ کائنات نہ بن سکتی تھی نہ باقی رہ سکتی ہے۔
خدا کو ماننا ایک عقلی تقاضا ہے۔
ہم نے اپنی کتاب، قسم اُس وقت کی،میں مذہب مخالف تمام سوالات کو جمع کرکے ان کے جواب دیے ہیں۔ وہیں ہم نے ناول کی مرکزی کردار ناعمہ کے نام کی مثال دے کر یہ واضح کیا ہے کہ جو لوگ محض بخت و اتفاق کو ایسی بامعنی اور بامقصد چیزوں کے وجود میں آنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ جان لیں کہ یہ حسابی طور پر ناممکن ہے۔ اندازہ کیجیے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ انگریزی زبان کے چھبیس حروف تہجی میں سے پانچ حروف پر مشتمل لفظ Naima وجود میں آئے، 78,93,600 منفرد الفاظ لکھنے ضروری ہیں۔ یہ اتفاق کو بنیاد بنا کر محض ایک لفظ لکھنے کا معاملہ ہے۔ دوسری طرف کائنات جیسی جگہ میں جہاں مختلف قسم اور تعداد کے سب اٹامک پارٹیکل، ایٹم، مالیکیول، عناصر اور ان سے مل کر وجود میں آنے والے لاتعداد عوامل پائے جاتے ہیں، وہاں زندگی کا وجود میں آنا اور اس کے لیے درکار دو سو سے زائد عوامل کا محض اتفاق سے جمع ہوجانا عملاً ناممکن ہے۔ کائنات میں کھربوں کو کھربوں سے ضرب دے کر جو عددحاصل ہو، کائنات میں موجود سیاروں کی تعداد اگر اس سے بھی زیادہ ہو تب بھی اتنے زیادہ عوامل کا کہیں ایک ساتھ جمع ہوجانا اتفاق سے نہیں ہوسکتا۔اس لیے ہم بہت اعتماد سے یہ کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں سائنس نے کائنات اور زندگی سے متعلق جن حقائق کو کھول کر رکھ دیا ہے ان کے بعد ایک خالق کو ماننا کسی اندھے عقیدے کامعاملہ نہیں بلکہ ایک لازمی عقلی تقاضا ہے۔ ہاں خدا کا انکار کرنا ایک اندھا عقیدہ ہے جو علم و عقل کے خلاف ہے۔
خدا کو ماننا کس طرح ایک عقلی تقاضا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ملحدین بھی جب ارتقا کی روشنی میں زندگی کے تنوع اور پیچیدگی کو بیان کرتے ہیں تو قدم قدم پر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ نیچر نے فلاں موقع پر یہ کر دیا۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی تخلیق یا اس کی زندگی سے موافقت کی توجیہ کرنے کے لیے اہل مذہب خدا کا نام لیتے ہیں، ملحدین ایسے سارے مواقع پر فطرت یا نیچر کا نام لے دیتے ہیں۔ ایسے میں صرف یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے خدا کا انکار نہیں کیا۔ اپنے خدا کا نام بدل کر نیچر رکھ دیا ہے۔ آپ اس خدا سے سارے کام خدا ہی کے لے رہے ہیں۔ بس اسے خدا ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس پر مستزاد یہ حقیقت ہے کہ آپ اس نظم کائنات کو طبعی یا حیاتیاتی قانون کا نتیجہ سمجھتے ہیں، تب بھی اگلے لمحے یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ ایسا بامعنی اور بامقصد قانون کس نے بنایا۔ آپ کہیں گے کہ کائنات نے 13.8 ارب سال کی مدت میں یہ قوانین خود ہی بنا لیے۔ ہم یہ عرض کریں گے کہ اب آپ نے خدا کا کام کائنات سے لیتے ہوئے اپنے خدا کا نام کائنات رکھ لیا۔ تاہم یہ جان لیجیے کہ آپ کا یہ خدا کسی بت سے بالکل مختلف نہیں۔ یہ بھی ایک بت کی طرح بے جان اور بے شعور مادہ ہے اور کچھ نہیں۔
ویسے قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ یہ بھی ایک ہوائی بات ہے کہ کائنات نے اربوں برس میں خود ہی قوانین بنا لیے۔ سائنس نے اب یہ بتا دیا ہے کہ بگ بینگ کے پہلے لمحے کے اندر اندر ہی طبعی قوانین نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ یہ نہ ہوتا تو کائنات اپنی پیدائش کے پہلے لمحے ہی میں ختم ہوجاتی۔ سائنس کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اس کائنات میں چار بنیادی طاقتیں کارفرما ہیں۔ قوت کشش، الیکٹرومیگنیٹک قوت، طاقتور نیوکلیائی قوت، کمزور نیوکلیائی قوت۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ یہ قوتیں بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ ہی میں فعال ہوگئی تھیں اور ان کی ویلیو یا مقدار اسی وقت طے ہوگئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اتنے کم وقت میں کون سا ارتقا ہوسکتا ہے؟یہ صرف اور صرف ایک بااختیار، طاقتور، علیم و حکیم ہستی کا کام ہے۔یہی خدا ہے۔ یہی خدا ہے۔
مذہب پر کیے جانے والے اعتراضات کی حقیقت
اس کے بعد اگلی چیز مذہب پر کیے جانے والے دو اعتراضات ہیں۔ یعنی مذہب عقل کے خلاف ہے اور یہ کہ اس کے پیروکاروں میں عدم برداشت اور نفرت پائی جاتی ہے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس دنیا میں مذہب کے نام پر دو چیزیں پائی جاتی ہیں۔ ایک خدا کا نازل کردہ مذہب جو صرف اور صرف قرآن مجید اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا ہے۔ دوسرا وہ مذہب جو دنیا کے تمام مذہبی گروہ بشمول مسلمان اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہی وہ دوسرا مذہب ہے جو ہمیشہ دنیا کے سامنے آتا ہے۔ ہم تفہیم مدعا کے لیے پہلے مذہب کو الہامی مذہب اور دوسرے کو انسانی مذہب کہہ لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملحدین جو اعتراض کرتے ہیں وہ اس انسانی مذہب کے بارے میں بالکل درست ہے۔ انسانی فکر کی آمیزشوں اور انحرافات کے ساتھ مذہب میں ہمیشہ یہ مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔تاہم الہامی مذہب جو دین اسلام ہے۔ اپنی اصل تعلیم کے لحاظ سے ایک بالکل مختلف جگہ پر کھڑا ہے۔ قرآن اپنے نہ ماننے والوں کے درمیان نازل ہوتا تھا۔ اس کے پاس اپنی بات منوانے کا ایک ہی راستہ تھا۔ وہ یہ کہ اپنی بات کو دلائل سے ثابت کیا جائے۔ چنانچہ قرآن کی پوری دعوت نہ صرف عقلی دلائل پر کھڑی ہے بلکہ وہ بار بار یہ کہتا ہے کہ حقیقت اگر اسلام کے دعووں کے برعکس ہے تو اسے سامنے لایا جائے۔ اگر کوئی دلیل ہے تو پیش کی جائے۔ اگر سچائی کچھ مختلف ہے تو قرآن پیغمبر اسلام سے کہلواتا ہے کہ میں سب سے پہلے اسے قبول کروں گا۔ اس سے بڑھ کر معقولیت کا رویہ اور عقلی استدلال کو قبول کرنے کی روش اور کیا ہوگی؟
جہاں تک رواداری اور عدم برداشت کا معاملہ ہے تو اس میں قرآن مجید نے ایک بے مثال اصول دے دیا ہے۔ لا اکراہ فی الدین۔ یعنی دین میں کوئی جبر نہیں۔ مذہب بندے اور خدا کا معاملہ ہے۔ لوگوں کو ماننا ہے تو مانیں اور نہیں ماننا تو نہ مانیں۔ خدا کا کام حق پہنچانا اور سمجھانا ہے۔ یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں مکمل آزادی ہے۔ لوگوں کا دل چاہے تو دین حق کو مانیں اور نہ چاہے تو نہ مانیں۔ اللہ نے اس بنیاد پر کوئی سزا و جزا اس دنیا میں برپا نہیں کرنی۔ ہاں ایک روز آئے گا جب اللہ تعالیٰ غیب کا پردہ اٹھا کر خود سامنے آجائیں گے۔ اس روز کوئی شخص خدا کا انکار نہیں کرسکے گا۔ اس روز ہر شخص سے پوچھا جائے گا کہ آزادی اور نعمتیں پاکر سرکش ہوئے یا بندگی اور نیکی کی راہ پر چلے۔ جو لوگ سرکش ہوئے اور حق کو جھٹلاتے رہے وہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ رہے بندگی اور نیکی کی راہ پر چلنے والے تو یہ کائنات ہمیشہ کے لیے ان کے تصرف میں دے دی جائے گی۔اصل مسئلہ یہ نہیں کہ سچائی اور اس کے دلائل یہاں موجود نہیں۔ اصل مسئلہ وہ انسانی مذاہب ہیں جو خدا کے نام پر کھڑے ہوکر لوگوں کو غیرعقلی باتیں بتاتے اور نفرت اور عدم برداشت کا سبق دیتے ہیں۔ الہامی مذہب عقلی بھی ہے اور آزادی کا علمبردار بھی ہے۔ یہی اسلام ہے جو تاقیامت انسانیت کے لیے کافی رہنما ہے۔