ہمارے سماج میں ایصال ثواب کا مسئلہ خاصا گھمبیر ہے. فقہ اسلامی میں اسے نیابت عن الغیر کے عنوان سے ذکر کیا جاتا ہے۔
اس امر پر اتفاق ہے کہ امور قلبیہ میں نیابت عن الغیر درست نہیں یعنی کوئی شخص دوسرے کی طرف سے ایمان قبول نہیں کر سکتا، کسی کے تقوی، زہد اور صبر و شکر کا ثواب کسی دوسرے کو اور کسی کے حسد، کینہ اور بغض کا، جب تک وہ دل ہی دل میں رہے، گناہ کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا۔کسی دوسرے کی طرف سے فرض نماز، فرض روزے ادا نہیں کئیے جا سکتے البتہ کسی دوسرے کی طرف سے دی ہوئی زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے۔حقوق زوجین ادا کرنے میں کوئی کسی کا نائب نہیں ہو سکتا لیکن کسی کی طرف سے اس کے خاندان کا نفقہ ادا کر دینا درست ہے۔
ہمارے سماج میں تلاوت قرآن پاک اور اذکار کا ایصال ثواب معمول کی بات ہے لیکن اسلاف میں اس طریقے کے نظائر نہیں ملتے۔حج بدل اہل علم کا پسندیدہ موضوع ہے، کیا اس میں پڑھی جانے والی نمازیں مثلاً بعد از طواف کی رکعات بھی دوسرے کی طرف سے سمجھی جائیں گی۔
اس مسئلے پر فرقہ وارانہ انداز سے تو بحث ملتی ہے لیکن خالص علمی بنیاد پر جبکہ قرآن کی قطعی الثبوت قطعی الدلالت نصوص مثلاً لیس للانسان الا ما سعی ۔۔ لاتزر وازرۃ وزر اخری کے علاوہ درجنوں آیات اس روئیے سے ہم آہنگ نہیں ہیں
ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ایک شخص نے ساری زندگی گناہوں میں گزاری اور اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد صدقہ، خیرات، تلاوت و تسبیحات کے ایصال ثواب کے ذریعے اس کے سارے اعمال کو ھباء منثورا کر کے اس کے لئے آخرت کے اعزازت خرید سکتی ہے۔
. معروف امام اور عالم امام شاطبی نے اپنی تالیف الموافقات میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور تمام پہلو زیر بحث لائے ہیں۔ دوطرفہ دلائل اور جوابات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قرآنی اصل یہ ہے کہ آدمی اپنے اعمال سے ہی مستفید ہو گا لیس للانسان الا ما سعی۔البتہ تین کام ایسے ہیں جو مرنے کے بعد بھی انسان کے اعمال میں لکھے جاتے ہیں۔اولاد صالح کی دعائیں، کیونکہ اولاد در حقیقت انسان کے اپنے اعمال کا حصہ ہے۔دوسرے وہ علم جس سے لوگ نفع اٹھائیں، جب تک نفع اٹھاتے رہیں گے، ثواب ملتا رہے گا۔تیسرے، صدقہ جاریہ یعنی کوئی شخص کسی کارخیر یا گناہ کا سبب بنتا ہے تو جو کوئی بھی اس کی نسبت سے وہ کارخیر کرتا ہے یا گناہ کرتا ہے تو اصل بندے کو اس دوسرے شخص کے عمل کا نہیں بلکہ سبب بننے کا ثواب ملتا ہے یا گناہ ہوتا ہے۔
لوگوں میں مشہور ہے کہ تین بار سورہ اخلاص پڑھنے سے پورے قرآن کا ثواب ملتا ہے، یہ بات یوں نہیں بلکہ مسلم کی ایک حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ سورہ اخلاص قرآن کا ایک تہائی ہے جس کا اصل مطلب یہ ہے کہ قرآن کے بنیادی مضامین تین ہیں توحید، رسالت اور قیامت۔سورہ اخلاص میں ان تین مضامین میں سے ایک یعنی توحید کا مکمل خلاصہ ہے، اس حوالے سے یہ ایک تہائی قرآن ہے۔امام شاطبی نے اپنی بحث کا اختتام اس نتیجے پر کیا ہے کہ مالی صدقات کا مرنے والے کو فائدہ ہوتا ہے۔حدیث میں مذکور تین امور یعنی دعاء مغفرت، علم نافع کا امتداد اور صدقہ جاریہ کا فائدہ ہوتا ہے۔ ان کے سوا قرآن کا قطعی قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنا کوئی عمل دوسرے کو نہیں بخش سکتا۔تاہم اگر اللہ تعالیٰ کسی کے حق میں کسی کی سفارش قبول کر لے تو قرآن کی رو سے یہ قطعی طور پر صرف اور صرف اللہ کا اختیار ہے۔اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کر سکتا لیکن ضابطہ یہی ہے کہ لیس للانسان الا ما سعی۔اسی لئے ہمیں قرون اولی میں صحابہ، تابعین اور بعد کے ادوار میں اسلاف صالحین میں ایصال ثواب کی مروجہ صورتیں نہیں ملتیں۔یہ بات درست ہے کہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ بخیلوں کے اموال لوگوں میں تقسیم کروا دیتا ہے جیسے حدیث میں آتا ہے کہ منت ماننے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، بس اس طرح اللہ تعالیٰ کنجوس سے مال نکلواتا ہے، فائدہ صدقہ کرنے کا ہوتا ہے.
-00-15-00-00-00دین و دانش
ایصال ثواب
طفیل ہاشمی