حکومت پاکستان ہر سال ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر نصاب زکوٰۃ مقرر کر کے بنکوں کو ہدایت کر دیتی ہے کہ لوگوں کے اکاؤنٹس سے اڑھائی فیصد کی شرح سے زکوٰۃ کاٹ لی جائے. یہ شرح اس وقت مقرر کی گئی جب ساڑھے سات تولے سونا اور ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت خرید برابر ہوتی تھی جبکہ وجوب زکوٰۃ کے نصاب کا کلیہ لسان نبوت نے یوں بیان فرمایا ؛ لاصدقہ الا عن ظہر غنی( غنی یعنی مال دار ہوئے بغیر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی )جبکہ اسی نوے ہزار سے کوئی غنی نہیں ہوتا. ارباب فتویٰ چاندی کو معیار قرار دینے کی ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ اس طرح نصاب زکوٰۃ کم ہو جاتا ہے اور زیادہ لوگ زکوٰۃ کے دائرہ میں آ جاتے ہیں جو فقرا کے لیے نفع بخش ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انفع للفقراء( یعنی چاندی کو نصاب قرار دینے میں فقراء کا نفع ہے )کہیں بھی دلیل شرعی نہیں ہے َ،دینی ادارے انفع للمدارس کے اصول پر فتوی دینا زیادہ مفید سمجھتے ہیں یعنی ایسا نصاب دیا جائے جس کی وجہ سےمدارس کو زکوۃ اور قربانی کی کھالیں زیادہ ملیں. .
قرآن نے زکوٰۃ کے مصارف بیان کئے لیکن نصاب اور شرح بیان نہیں کی . کچھ علما کی یہ رائے رہی کہ شرح قطعی نہیں ہے بلکہ تغیر پذیر ہے. ممکن ہے ایسا ہی ہو اور اہل علم نے ظالم اور جابر حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کو روکنے کے لیے روایات میں مذکور نصاب اور شرح کو قطعی شکل دے دی ہو.
مقاصد شریعت کی رو سے زکوٰۃ کے نصاب اور شرح کا تعلق مصارف زکوٰۃ کے بجٹ سے ہونا چاہیے یعنی ان مصارف پر جس قدر خرچ آنا ہے اسی حساب سے زکوٰۃ کی شرح مقرر کر دی جائے لیکن علما نے نصاب اور شرح دونوں پر بے لچک موقف اختیار کیا ، ساتھ میں یہ بھی کہ حکومت زکوٰۃ کے سوا کوئی ٹیکس عائد نہیں کر سکتی. سلجوقی عہد میں جب اسلامی ریاست کے دفاعی اخراجات کی کفالت نہ ہو سکنے کی وجہ سے امام جوینی نے علما کی شدیدمزاحمت کے باوجود یہ فتویٰ دیا کہ حکومت زکوٰۃ کے علاوہ بھی ٹیکس عائد کر سکتی ہے. تب سے حکومتوں کو یہ سہولت حاصل ہو گئی کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق ٹیکس عائد کرنے لگیں اور اس آمدنی کے مصارف بھی اپنی پسند سے طے کرنے لگیں.
زکوٰۃ کی شرح بالعموم مال تجارت یا جمع اثاثوں پر اڑھائی فیصد طے ہے اور اس پر عمومی اتفاق رائے ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی دولت مند ہو جب اڑھائی فیصد ادا کر دے تو وہ والذین یکنزون….. کی وعید سے نکل جاتا ہے-لیکن یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ زکوٰۃ دراصل withholding tax ہے جو جمع شدہ اثاثوں پر لگتی ہے
دوسری طرف قرآن کی قطعی الثبوت قطعی الدلالت نص انفقوا من طیبات ما کسبتم
جمع اثاثے پر نہیں بلکہ آمدنی پر انفاق واجب کرتی ہے، جسے انکم ٹیکس کہنا چاہئے . اگرچہ غلام احمد پرویز نے انفاق کا لغوی معنی مراد لے کر زکوٰۃ سے بھی گلو خلاصی کر لی ہے لیکن قرآن کی مذکورہ آیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی آمدنی سے خواہ وہ تنخواہ ہو، منافع ہوں یا دیگر کسی بھی قسم کی آمدنی اس کا کچھ حصہ راہ خدا میں خرچ کرنا چاہیے. رہی یہ بات کہ آمدنی میں سے کتنا؟ توقل العفو
میں العفو کا ترجمہ “زائد از ضرورت” درست معلوم نہیں ہوتابلکہ اس کا ترجمہ ہوگا “جو بآسانی ہو”شیعہ فقہ میں اس کی مقدار مقرر ہے جسے خمس کہتے ہیں جو ہر نوع کی آمدنی سے وابستہ ہےالبتہ اس کے بارے میں مزید کچھ اشکالات پیدا ہوتے ہیں-ایک تو یہ کہ اس کی مقدار اس قدر زیادہ ہے کہ ہر کسی کے لیے اسے باقاعدگی سے ادا کرنا بہت مشکل ہے جبکہ شرعی اصول” یسر” کا تقاضا مختلف ہے.دوسرے یہ کہ اس کا ایک حصہ اہل بیت اور سادات کا حق ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ بے شمار لوگ جن کے چہرے مہرے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی شودر نسل سے تعلق رکھتے ہیں مادی مفادات اور مفت خوری کے لیے سید ہو جاتے ہیں.
تیسرے یہ کہ اس کا ایک بڑا حصہ امام مجتہد کی صواب دید پر ہوتا ہے جو سماج میں اسلامی پادری اور پروہت پیدا کرنے کا باعث ہی نہیں بنتا بلکہ ریاست کے متوازی سسٹم تشکیل دینے کی راہ بھی ہموار کرتا ہے.دوسری طرف زکوٰۃ کی شرح اس قدر کم ہے کہ دفاعی بجٹ کی تیاری کے لیے امام جوینی نے مقاصد شریعت کا سہارا لے کر زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس لگانے کو مشروع قرار دیا جس کی وجہ سے برسر اقتدار طبقے کے اللے تللے تمام حدود پھاند جاتے ہیں.
کیا سادات کو زکوۃ دینا جائز نہیں؟؟؟
قرآن نے ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی. ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنوہاشم کے لیے زکوۃ لینے کی ممانعت فرما دی تھی. اس کی دو وجوہ بیان کی جاتی -ہیںایک یہ کہ انہیں غنیمت کے خمس میں سے حصہ ملتا تھا دوسرے یہ کہ زکوۃ کا مال لوگوں کامیل کچیل ہے جو آل رسول کے مناسب نہیں ہے. . جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو قرآن کی آیت فان للہ خمسہ وللرسول کی تفسیر کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا اس میں رسول سے مراد ذات نبوی ہے یا سربراہ ریاست. غالبا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس سے سربراہ ریاست مراد لیتے تھے اس لیے انہوں نے خمس میں سے مروان اور دوسرے عزیزوں کو حصہ دیا تھا. تاہم اللہ اور رسول سے قرآن میں کہیں ذات نبوی اور کہیں ریاست کی شخصیت معنویہ مراد ہوتی ہے. تفسیر میں دونوں کی گنجائش ہے. تفصیلات تفسیر طبری میں دیکھئے. اگر اس سے ریاست یا سربراہ ریاست مراد ہے تو حدیث کا مطلب ہوگا کہ سربراہ ریاست کے اقربا زکوۃ کے مستحق نہیں ہونگے اور یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ ہمارے دور میں زکوۃ اور زکوٰۃ کے منافع کا بڑا حصہ ارکان پارلیمنٹ اور بیوروکریٹس اپنے اور اپنے خاندان کے بیرون ملک علاج کے لیے استعمال کر لیتے ہیں. اس تفسیر کی رو سے بنوہاشم کا استثنا وقتی تھا اور اب یہ پابندی نہیں ہے.دوسری بات کہ” یہ لوگوں کا میل کچیل ہے “اس جملے پر محدثین کو مزید تحقیق کر لینی چاہیے کہیں یہ کسی راوی کا ادراج نہ ہو کیونکہ یہ قرآن کی آیت لا تزکوا انفسکم اور ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم سے ہم آہنگ نہیں ہے. پھر سوال یہ بھی ہے کہ رسول مطھر جسے اپنے خاندان کے لیے ناصاف لقمہ سمجھتے تھے وہ دوسروں کو کیوں دیتے تھے جبکہ انفقوا من طیبات کا حکم بھی تھا.
جہاں تک مقاصد شریعت کے حوالے سے بات ہے تو زکوۃ شہریوں کی ضروریات کی کفالت کا ذریعہ ہے. ہر ضرورت مند شہری کا بلا تفریق مذہب، ملت اور نسب اس میں حق ہے. کیا بنوہاشم کا بھیک مانگنا زکوۃ لینے کی بہ نسبت کم برا ہے.
نیز زکوٰۃ کو لوگوں کامیل کچیل کہہ کر اپنے خاندان کے لیے حرام اور دوسروں کے لیے حلال قرار دینے سے کیا یہ تاثر نہیں پیدا ہوتا کہ ہم بلند و بالا ہیں اوریہ ناصاف مال کمی کمین لوگوں کے لیے ہے.میرے خیال میں ایسا نہیں-ایک تو خود کو اور اپنے خاندان کو مستثنیٰ کر کے کسی کے لیے یہ کہنے کا موقع نہیں رہنے دیا کہ یہ ٹیکس اپنے خاندان کو پالنے کے لیے لگایا گیا ہے.لیکن
آج کے دور میں جب میں مدارس کے مدرسین کو کس مپرسی. فقر و فاقہ اور ضروریات زندگی کی عدم فراہمی کی حالت میں دیکھتا ہوں تویہ راز منکشف ہوتا ہے کہ جن افراد کو اللہ نے رزق حلال کمانے کے تمام اسباب، وسائل اور ذرائع دے کر دنیا میں بھیجا ہے وہ جب اپنے ہاتھ پاؤں توڑ کر اس انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ مہتمم کے پاس جب بہت سا میل کچیل جمع ہو جائے گا تو وہ اس میں سے کچھ ہمیں بھی دے گا تورسول اکرم نے اہل علم میں اس میل کچیل سے کراہت اور نفرت پیدا کرنے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے کہاگر تم واقعتاً علوم نبوت کے وارث ہونے کے حوالے سے. آل رسول. ہو تو اٹھو صاف ستھرا مال کماؤ اورلوگوں کے میل کچیل سے بچو.