“Lust, Passion, and Commitment”
”محبت دل سے ہوتی ہے، دماغ سے نہیں“، یہ جملہ ہمیں عموماََ سننے کو ملتا ہے، اس کو غلط ثابت کرنے کے لیے اینتھروپولوجسٹ ہیلن فشر نے سالہا سال انسانی دماغ کو ایم - آر-آئی اور مختلف قسم کے برین اسکین سے گزارا۔ ہیلن فشر نے اپنی آدھی زندگی محبت میں گرفتار دماغوں کی نیورولوجی سمجھنے میں لگائی ہے۔ مَحبت اور کشش کا تعلق سراسر دماغ اور اس سے خارج ہونے والے کیمیکل سے ہے۔ اپنی کتاب ”ہم محبت کیوں کرتے ہیں“ (why we love) میں انہوں نے انسانوں کے درمیان ہونے والی مَحبت کو تین اقسام/اسٹیجز میں تقسیم کیا ہے۔ ہیلن کا محبت کا یہ ریلیشن شپ ماڈل (جس کی مَیں سرسری وضاحت کرنے والی ہوں) بہت اہمیت کا حامل ہے، اس کے بارے میں پڑھنا ضروری ہے، کیونکہ ہم سب کو زندگی میں کبھی نہ کبھی مَحبت ہوتی ہے، اور آج تک ہم نے مَحبت کو سمجھنے کے لیے رومانوی شاعری، فلسفہ، بالی وڈ، ہالی وڈ کی فلموں اور گانوں کا سہارا لیا ہے، لیکن سائنس کے پاس بھی ہمیں مَحبت کی بناوٹ اور حقیقت کے متعلق بتانے کو بہت کچھ ہے۔
یقیناً سب انسانوں کے لیے مَحبت اور کشش ایک مختلف تجربہ ہو سکتا ہے، ہر انسان مَحبت کو مختلف الفاظ اور انداز میں بیان کرتا اور محسوس کرتا ہے، کسی کو مَحبت جوشیلی لگتی ہے تو کسی کو مدھم اور حساس، لیکن چونکہ سائنس کافی حد تک غیر جانبدار ہوتی ہے، تبھی اکثر معاملات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے۔
* مَحبت کی پہلی قسم/اسٹیج؛ ہوس (Lust):
ہوس (Lust)، یہ والا احساس ہمارے رپٹیلین برین (reptilian brain) میں ہوتا ہے، رپٹیلین برین دماغ کا وہ حصہ ہے جو بنیادی معاملات ہینڈل کرتا ہے، مثلاً سانس لینا، دل کی دھڑکن، جسم کا درجہ حرارت وغیرہ۔ ہوس (lust) یعنی کسی بھی مخالف جنس کے بظاہر دکھنے والے خدوخال دیکھ کر، اس کی جانب مائل ہو کر محض جنسی سرگرمی انجام دینے کی خواہش، دماغ کے اسی حصے کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ نسل بڑھانے کے لیے جو فطری رسپانس ہوتا ہے وہ دماغ کے اسی حصے میں اجاگر ہوتا ہے۔ یہ رسپانس بہت فوری (instantaneous) ہوتا ہے اور جلدی ختم بھی ہو جاتا ہے۔ اس میں انسان کو اپنے پارٹنر کو جاننے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی، بس اپنی جبلی ضرورت کی تسکین چاہیے ہوتی ہے۔ اس والے دماغ کو ابتدائی دماغ (primitive brain) کہتے ہیں۔
* مَحبت کی دوسری قسم/اسٹیج؛ پُرجوش مَحبت/جنون (Passion):
پُرجوش مَحبت/جنون (Passion) ایک جذباتی تعلق (connection) کا نام ہے، یہ والا کنیکشن ذہن کے اُس حصے میں اجاگر ہوتا ہے جسے ممیلین برین (mammalian brain) کہتے ہیں۔ اس پُرجوش مَحبت/جنون (Passion) میں گرفتار افراد ایک دوسرے کے بارے میں سوچ کر بہت اچھا محسوس کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خیالوں میں کھوئے رہتے ہیں، یہی وہ مَحبت ہے جس پر فلمیں اور گانے بنتے ہیں، جس میں شاعر کہتا ہے کہ ’تجھے سوچتا ہوں میں صبح و شام، اس سے زیادہ تجھے اور کیا چاہوں‘، اس احساس میں کھوئے ہوئے انسان ذہن میں ایک یوٹوپیائی مستقبل بناتے ہیں، سب کچھ بہت نیا اور اچھا لگتا ہے جیسے زندگی میں بہار سی آ گئی ہو۔ یہی وہ مَحبت ہے جس کے اثر تلے انسان کبھی بھی پورے نہ کر سکنے والے وعدے کرتے ہیں۔ پُرجوش محبت/ جنون (Passion) کے زیرِ اثر ممیلین برین میں منطق اور لاجک والے برین (thinking brain) پر غالب آ جانے کی بھرپور طاقت ہوتی ہے۔
پُرجوش مَحبت/ جنون (Passion) بنا ہوس (Lust) کے پروان نہیں چڑھتا، اس میں ہوس (Lust) کا عنصر موجود ہوتا ہے لیکن ہوس (Lust) کے ختم ہونے پر بھی یہ پُرجوش مَحبت/جنون (Passion ) کم نہیں ہوتا۔ پُرجوش مَحبت/جنون (Passion) کو ختم ہونے میں چھ سے بارہ مہینے یا اس سے زیادہ عرصہ بھی لگ سکتا ہے، پھر وہ وقت آتا ہے جب مرد اور عورت اپنے فیصلوں پر پچھتاتے ہیں، بوریت کا اظہار کرتے ہیں، جنہیں وہ غلطیوں سے پاک ’فرشتہ‘ سمجھ بیٹھے تھے، کچھ مہینوں بعد یا کچھ عرصے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو غلطیوں کا پیکر محض ایک عام ’انسان‘ ہے۔ اور یہیں سے ہم آہنگی اور مطابقت (compatibility) کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ اگر افراد اپنے نئے اور غیر روایتی تجربات اور آئیڈیاز ایک دوسرے سے شیئر کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں اور نئی چیزیں exploreکریں تو پھر یہ پُرجوش مَحبت/جنون (Passion) ختم نہیں ہوتا بلکہ ہمیں مَحبت کی تیسری قسم یعنی استقامت (commitment) کی جانب لے کر جاتا ہے، اور اگر ایسا نہ ہو تو پُرجوش مَحبت/جنون (Passion) کے ختم ہو جانے پر اکثر جھگڑے، افسوس اور یکسانیت و بوریت رہ جاتی ہے۔
* محبت کی تیسری قسم/اسٹیج؛ استقامت (commitment):
اس اسٹیج تک کم ہی لوگ پہنچ پاتے ہیں، لیکن یہ والی مَحبت بہت طاقتور اور پریکٹیکل ہوتی ہے۔پُرجوش محبت/جنون (Passion ) میں ایک دوسرے کو پسند کرنے والے افراد اگر زیادہ عرصہ ساتھ رہتے ہیں تو اس کی وجہ سے ان میں مطابقت (compatibility) ہوتی ہے، لیکن اکثر جب زندگی میں کچھ غیر یقینی حالات (uncertain situation) یا کسی ایسے حادثہ کا ہو جانا جس سے آپ پر اور آپ کے پارٹنر کی زندگی پر گہرا اثر پڑے، تو وہ افراد جو استقامت والے اسٹیج میں نہ ہوں، ان میں اکثر تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں، پُرجوش محبت/جنون (Passion) ختم ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اس تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہوتے، جب تک سب اچھا چل رہا ہوتا ہے تو ٹھیک، لیکن جیسے ہی زندگی نے اپنے رنگ دکھانے شروع کئے، اور مصیبتیں آئیں، تو پُرجوش محبت/جنون (Passion) بھی ریلیشن شپ نہیں بچا پاتا۔ یہاں یقیناً مزید گہرائی میں جانے اور حقیقت کو پرکھنے اور قبول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
استقامت (commitment) کیا ہے؟
استقامت تب وجود میں آتی ہے جب دونوں پارٹنر ایک دوسرے کو انسان سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کو بھی قبول کرتے ہیں، کامیابیوں کی خوشی مناتے ہیں تو ناکام ہونے پر ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کو انسان سمجھتے ہوئے اُن کو اُن کی خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں تو ہمارے اندر ان سے ’غیر مشروط محبت‘ (unconditional love) کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
نیورولوجسٹس نے ان جوڑوں کو جن کی شادی کو زیادہ عرصہ ہو گیا تھا (یقیناً جو اپنی شادی سے خوش بھی تھے) کا برین اسکین کیا، اور اُن افراد سے کہا گیا کہ وہ سوچیں کہ ان کے پارٹنر کا کار ایکسیڈنٹ ہوا ہے، اور پھر سوچیں کہ اُن کے پارٹنر کی جگہ اُن کا اپنا کار ایکسیڈنٹ ہوا ہے، پارٹنر کے ایکسیڈنٹ کو ذہن میں لا کر دماغ کا وہی حصہ روشن ہوا، جو اُن افراد کا اپنے ایکسیڈنٹ کا سوچ کر ہوا تھا۔ اور جب کسی تیسرے شخص کے ایکسیڈنٹ کا سوچنے کو کہا گیا تو دماغ کا وہ حصہ جو پارٹنر اور اپنے لیے روشن ہوا تھا، کسی اور کے لیے روشن نہیں ہوا۔
پُرجوش محبت/جنون (Passion) کے لیے ہوس (Lust) ضروری ہے لیکن ہوس (Lust) کے ختم ہو جانے پر مطابقت (compatibility) کی وجہ سے بھی پُرجوش محبت/جنون (Passion) قائم رہتی ہے، استقامت کے لیے ہمیں پُرجوش محبت/جنون (Passion) کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ہم اپنے ہمسفر کو اس کی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ قبول کر کے غیر مشروط محبت کی اسٹیج پر آتے ہیں تو استقامت (Commitment)، ہوس (Lust) اور پُرجوش محبت/جنون (Passion) کے نہ ہونے پر بھی قائم رہ سکتی ہے … مشکل لگ رہی ہے نا محبت کی یہ تیسری قسم؟؟ لیکن یاد رکھیں کہ ہر اعلیٰ اور دیرپا تعلق کے حصول کے لیے ہمت چاہیے ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس اسٹیج تک زیادہ لوگ نہیں پہنچ پاتے۔
وہ افراد جو ایک انفرادی شخص کی مانند خود کی نشوونما کرنا جانتے ہوں، اور ان کے پاس نئی باتیں، نئے تجربے اور نئے آئیڈیاز شیئر
کرنے کو ہوں تو ایسے میں پُرجوش محبت/جنون (Passion) کچھ عرصے میں مطابقت (compatibility) میں بدل جاتی ہے، قدریں (values) ایک جیسی ہوں تو تعلق (connection) مزید مضبوط لگنے لگتا ہے، اور جب انسان اس حقیقت کو جان لے کہ دنیا کا کوئی بھی انسان ہو، وہ خوبیاں اور خامیاں دونوں رکھتا ہے اور وہ اس بات کو قبول کر لیتا ہے تو استقامت (commitment) جنم لیتی ہے۔
استقامت (commitment) تک پہنچنے کے لیے اپنی انفرادی شخصیت پر کام کرنا بہت ضروری ہے، محض ہوس (Lust) اور پُرجوش محبت/جنون (Passion) سے آپ زیادہ عرصہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ دونوں زیادہ عرصہ دماغ کو قابو میں نہیں رکھ سکتے۔ ہمارا دماغ ’نیا پن‘ پسند کرتا ہے، اور یہ نیا پن محض نئے جنسی (sexual) تجربوں یا ہر نئے انسان کے ساتھ پُرجوش محبت (passionate love) سے نہیں آتا (شاید تھوڑا بہت آتا ہو)، یہ نیا پن ہماری شخصیت میں بھی ہوتا ہے، نئے تجربات اور نئے آئیڈیاز کو شیئر کرنا ہمیں مزید پُرکشش اور نیا بناتا ہے۔
* ہمارا معاشرہ:
ہمارے معاشرے میں دوسروں کو اسپیس دینے یا اپنی اسپیس کو حاصل کرنے کا کوئی رواج نہیں- جہاں ہم اپنے ذہن اور شخصیت کی نشوونما کر سکیں۔ اور جن کے پاس اسپیس ہو، وہ خواتین یا مرد اسپیس کو بھی محض انٹرٹینمنٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں، انٹرٹینمنٹ غلط نہیں، لیکن اپنی پرسنل گروتھ پر کام نہ کر کے آپ اپنی شخصیت اور دماغ کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہوتے ہیں۔ میڈیا یہ تو بتاتا ہے کہ کونسی کریم آپ کی جلد کو پرکشش بناتی ہے لیکن یہ تعلیم نہیں دیتا کہ شخصیت کو کیا پُرکشش اور نیا بناتا ہے۔ ظاہری شخصیت کا خیال رکھنا غلط نہیں (آج کل انٹرٹینمنٹ آپ کے گھنٹوں نگل جاتی ہے، ظاہری شخصیت کا خیال رکھنے کا بھی وقت نہیں دیتی) لیکن اپنے باطن یعنی اپنے دماغ کا خیال رکھنا اور اسے مزید نئے اور پُرکشش خیالات سے سنوارنا کوئی نہیں سکھاتا۔ نئے تجربات اور نئی قدروں (values) کی جستجو ہمارے دماغ کی غذا ہے، اور یہی ہمیں زندگی کو گزارنے کا
مقصد دیتی ہے، نئے تصورات (Ideas) کو آزما کر ہمیں اچھا محسوس ہوتا ہے۔
میرے مطابق استقامت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ’رومانوی فلسفہ‘ ہے، میڈیا اور رومانوی ادب اس فلسفے کو پروان چڑھاتا ہے کیونکہ یہ ممیلین برین پر حملہ کرتا ہے اور ممیلین برین میں ہمارے منطق اور سوچنے والے دماغ کو قابو کر سکنے کی طاقت ہوتی ہے، یہ نظریہ بہت خود غرض ہے، اس میں انسانوں سے غیر حقیقی امیدیں لگائی جاتی ہیں۔ اس نظریہ میں آپ پارٹنر سے امید رکھتے ہیں کہ وہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے، اچھا محسوس کروائے، یہ نظریہ انسان کو اس کی پیچیدگیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنا نہیں سکھاتا۔ یہ نظریہ سائنس، انسانی دماغ کی بناوٹ اور اس کے رسپانس اور ارتقاء کی تاریخ کو نظر انداز کرتا ہے۔