پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص شو بزنس یعنی ماڈلنگ، ٹی وی اور فلموں نے ہم جنس پرستی کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پچھلی تحریر میں بیان کیا تھا کہ میڈیا کی بے لگام آزادی اور انٹرنیٹ کے غیر منضبط استعمال نے ہم جنس پرستی کی طرف مائل لوگوں کو اس دلدل میں مزید دھنسنے کے سارے مواقع نہایت آسان طریق پر بہم پہنچادئیے۔ بعینہٖ اسی طور سے شوبزنس نے ایسے لوگوں کو بھی ہم جنس پرستی کی لعنت میں دھکیل دیا جو کہ اس طرف کوئی ذہنی و فطری میلان نہ رکھتے تھے اور عام الفاظ میں نارمل انسان ہوتے ہیں۔ شو بزنس کی چکا چوند زندگی سے متاثر ہوکر چھوٹے بڑے شہروں سے خوش شکل لڑکے اس دنیا کا رخ کرتے ہیں اور وہاں اس قبیح فعل کا شکار ہوتے ہیں جس کو شو بزنس کی زبان میں کاسٹنگ کاؤچ"(Casting Couch) کہا جاتا ہے۔ کاسٹنگ کاؤچ کا مطلب ہے کہ میڈیاکی دنیا میں بااختیار حیثیت رکھنے والے لوگ جو کہ عموماً پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور ماڈل کو آرڈینیٹر وغیرہ ہوتے ہیں، ماڈلنگ اور ایکٹنگ کے شوقین نئے آنے والے لڑکوں کو ڈرامے، فلمیں اور کمرشلز وغیرہ دلوانے کی لالچ دے کر ان کو خود کے ساتھ جسمانی تعلقات استوار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کاسٹنگ کاؤچ کی اصطلاح ہی یہاں سے آئی ہے یعنی کاسٹنگ ڈائریکٹر کے ساتھ کاسٹنگ روم کے کاؤچ یعنی صوفے پر جنسی تعلقات استوار کرنا۔
شو بزنس کی دنیا میں یہ صورتحال اس قدر عام ہے کہ تقریباً ہر انسان اس بات سے واقف ہے اور اب تو یہ حال ہوچلا ہے کہ اس فیلڈ میں آنے والا ہرشخص پہلے سے ہی اپنے آپ کو اس چیز کے لئے تیار کرنا شروع کردیتا ہے۔ میڈیا کی دنیا جو کہ اپنی ظاہری چکا چوند کی وجہ سے نئی نسل کے لئے ایک انتہائی پُر کشش جگہ بن چکی ہے، اس دنیا کا حصہ بننے کے لئے شوقین لڑکے لڑکیاں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ اس وحشی دنیا میں کس طور سے ان غیر تجربہ کار اور زندگی کی اونچ نیچ سے ناواقف بچے بچیوں کی عصمت دری کی جاتی ہے، ایسے واقعات سن کر اپنے معاشرے میں موجود اس لعنت کے وجود سے ہی گھن آنے لگتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اول یہ کام کیا جاتا ہے کہ شو بزنس کی دنیا جو کہ اندر سے نہایت قبیح، مکروہ اور یاس و پژمردگی سے بھری پڑی ہے، اس کو نہایت خوشنما کرکے دکھایا جاتا ہے۔ حسین چہرے کے لڑکے لڑکیاں، جن پر نوجوان نسل فریفتہ ہورہی ہوتی ہے، ہر بچے کا رول ماڈل بن جاتے ہیں۔ بچے بچیاں ان جیسے کپڑے پہننا چاہتے ہیں، ان جیسے اسٹائل اپنانا چاہتے، الغرض اپنی زندگی کا مقصد اس طرزِ حیات کو پانا قرار دے لیتے ہیں جو کہ ظاہری طور پر ان حضرات کی نظر آرہی ہوتی ہے۔ طرزِ زندگی، رہن سہن، رسم و رواج، نشست و برخاست، انداز گفتگو وغیرہ جس طرح میڈیا کی دنیا دکھاتی ہے، عام لوگ اسی انداز کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ٹیلیویژن اور فلموں کی چھ دہائیوں پر پھیلی ہوئی تاثیر نے ثابت کیا ہے کہ نوجوان نسل میں بے راہ روی، بے مقصدیت، فیشن پرستی، جنسی آوارگی، تخریب کاری اور اسلامی اقدار سے دوری پیدا کرنے میں شوبزنس کی دنیا نے کس قدر اہم کردار ادا کیا ہے۔ مغرب چونکہ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے، اس کے لئے اس کے ٹیلیویژن پروگرامز میں اخلاقی قدروں اور جنسی رویوں میں احتیاط کا فقدان نمایاں ہوتا ہے۔ سٹیلائٹ اور کیبل ٹی وی کی وجہ سے پاکستان میں بھی اب یہ پروگرام ٹی وی پر عام دستیاب ہیں جن کو دیکھ کر ہماری نوجوان نسل اسی طرزِ حیات کو ایک نارمل طرزِ حیات کے طور پر لینے لگی ہے اور اس طرزِ زندگی میں کاملیت حاصل کرنا ان کے لئے زندگی کی معراج و مقصد بن چکا ہے۔
شوبزنس کے ذریعے جو پروگرامز دکھائے جاتے ہیں، ان میں نہایت خوبصورت لڑکے اور لڑکیوں کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ یہ سارے لڑکے لڑکیاں پوری تیاری اور لوازمات کے ساتھ ٹی وی پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ لڑکے لڑکیاں کیا قیمت دے کر یہ مقام حاصل کرتے ہیں، اس کا بیان ہی سخت ناگفتہ بہ ہے۔ نئے لڑکوں کو ڈراموں اور فلموں میں کام حاصل کرنے کے لئے اپنے لئے پہلے کمرشلز کا حصول ممکن بنانا ہوتا ہے۔ کمرشل میں کام حاصل کرنے کے سلسلے میں ان کو ماڈل کو آرڈینٹیرز (Model Co ordinator) کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہنا پڑتا ہے اور ان کی جائز و ناجائز ہر خواہش ماننی پڑتی ہے۔ شو بزنس کی دنیا کا یہ حال ہے کہ یہاں ۵۰ فیصدی پروڈیوسر اور ڈائیریکٹر جبکہ تقریباً ۸۰ فیصد ماڈل کو آرڈینٹر ہم جنس پرست ہیں۔ ماڈل و ایکٹر بننے کے شوق میں ایسے لڑکے لڑکیاں جو کہ ہم جنس پرستی کی طرف کوئی رجحان نہیں رکھتے، ان کو بھی ان ماڈل کوآرڈینیٹرز کی ناجائز خواہشات کا احترام" کرتے ہوئے ان کے ساتھ سونا" پڑتا ہے اور یوں اپنی فطری جبلت کے خلاف یہ لڑکے لڑکیاں اپنے ہم جنسوں کے ساتھ شہوانی تعلقات استوار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ صرف ایک دفعہ پر ختم نہیں ہوتا بلکہ کبھی وفا ہوجانے والے اور زیادہ تر وفا نہ ہونے والے وعدوں کے انتظار میں ان بچوں کو بار بار اس جسمانی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ خود بھی اس کے عادی بن جاتے ہیں اور اس غیر فطری فعل میں لذت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ سو جو لڑکا یا لڑکی اپنی زندگی کے ۲۰، ۲۲ سال ایک نارمل انسان کی حیثیت سے گزارتا ہے، شو بزنس کی دنیا میں قدم رکھتے ہی ڈائیریکٹر، پروڈیوسر اور ماڈل کوآرڈینیٹر ز کےروپ میں جنسی بھیڑیوں کی ہوس کا شکار ہوکر ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ ہم جنس پرستی سے شروع ہوتا یہ سلسلہ پینے پلانے اور منشیات کے استعمال تک چلا جاتا ہے۔ کچھ بچے جن میں غیرت تھوڑی زیادہ ہوتی ہے، وہ اس طرح کے کمپرومائز سے انکار کرکے اپنے ا س خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے بجائے اس سے توبہ کو ترجیح دے کر واپسی کے سفر پر گامزن ہوجاتے ہیں جبکہ اکثریت اسی ویشس سرکل" کا حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اور پھر کل کو جب یہ بچے خود بڑے ایکٹر اورپروڈیوسر و ڈائیریکٹر بن جاتے ہیں تو دوسرے کے ہاتھوں اپنی مسخ کردئیے جانے والی فطرت کے زیرِ اثر وہی کہانی اور سلوک نئے آنے والوں کے ساتھ دہراتے ہیں اور یوں یہ ایک سلسلہ جو چل نکلا ہے کبھی ختم نہیں ہوتا۔
یاد رکھئے، آج پاکستان میں جتنے بڑے بڑے ماڈلز اور ایکٹرز ہیں، ان میں سے کی اکثریت ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہے۔ ان حضرات کے ہاں غیر فطری یا ناجائز جسمانی تعلقات استوار کرنا اب سرے سے کوئی گناہ کی بات رہ ہی نہیں گیا ہے۔ شہوانی جذبات کی غیر فطری تسکین، شراب
نوشی ، منشیات ان لوگوں کی زندگی میں اتنی عام ہوچکی ہے کہ ان کو ایک لمحہ کو بھی ان چیزوں کی شناعت کا احساس نہیں ہوتا اور شیطان کا یہ شکنجہ آہستہ آہستہ ان کے ارد گرد اس قدر تنگ ہوتا جاتا ہے کہ یہ مسلمان سے سیکولر مسلمان اور پھر لا دین مسلمان تک کا سفر چند سالوں میں ہی طے کرلیتے ہیں۔