گزشتہ چند ماہ کے دوران کچھ معاملات نے دنیا اور زندگی کے بارے میں اب تک قائم کیے گئے میرے بیشتر تصورات گویا بکھیر سے دیے ہیں۔
سب سے پہلا ایسا معاملہ تو ابّا جی جیسے بارعب، متحرک اور مُفید آدمی کا دیکھتے ہی دیکھتے بیمار ہو کر لاغر اور دوسروں پر اتنا ڈیپینڈینٹ ہو جانا تھا کہ نہ تو خود اپنے کپڑے بدل سکیں نہ اُن سبھی مصروفیات سے جُڑے رہ سکیں جو ہمیشہ اُنکے لیے بےحد اہم رہی ہیں-
قُرآن میں اللہ کا بتایا یہ اصول تو بہت بار پڑھا تھا کہ وہ ہمیں ایک بار پھر بچپن کی طرف لوٹائے گا، بہت سے لوگوں کا بُڑھاپا بھی دیکھا تھا لیکن ابّا جی کے بھرپور عملی زندگی سے یکلخت کٹ جانے اور اُن پر اچانک آئے بُڑھاپے نے گویا پہلی بار عملاً سمجھایا کہ وہ معاملات اور مقامات جو ہمیں ہر لمحہ ہماری اہمیت کا یقین دلائے رکھتے ہیں، سے ہمارے نکل جانے سے نہ تو اُن معاملات پر رتی برابر فرق پڑتا ہے نہ مقامات پر۔ گویا ہمارا ہونا نہ ہونا کم و بیش برابر ہے پھر خواہ بظاہر ہم دنیا کے لیے جتنے بھی لازم و ملزوم نظر آئیں۔
اب میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ اگر ہماری عمومی مصروفیات ہمارے مقصدِ تخلیق سے ہم آہنگ ہیں تو ہمارے اُن سے لمحہ بھر کے لیے بھی الگ ہونے سے وہاں اتنا فرق ضرور پڑنا چاہیے جتنا کسی جھیل میں پتھر گرنے سے پر لمحے بھر کے لیے پڑتا ہے۔
ویسے تو یہی ایک معاملہ بھی زندگی کا ایک نیا مطلب سمجھانے کے لیے کافی تھا لیکن گزشتہ دنوں قومی فرعونِ وقت کے بارے میں ایک مضمون لکھنے کے بعد ایک خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے پاکستان میں میرے گھر پر چند چھاپے مارے، اُسکے فوراً بعد میرے قریبی رشتوں کا مجھ سے تعلق کو لے کر خوف بھی میرے لیے ایک ایسا شاک تھا جس کے تناظر میں زندگی کا مقصد نئے سرے سے سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ میرے آج تک کے بیشتر مقاصدکا کچھ نہ کچھ تعلق اپنے قریبی رشتوں سے ضرور رہا تھا۔ مجھے انسے اس لیے محبت ہے کہ زندگی کے مقصد سے متعلق میرا نظریہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ میری زندگی کا مقصد جو بھی ہو، اسکا بڑا حصہ میرے اُن فطری رشتوں سے متعلق ہونا چاہیے، دنیا کے آٹھ ارب انسانوں کو چھوڑ کر، جنکے بیچ مجھے پیدا کیا گیا ہے۔
پاکستان کے گزشتہ وزٹ کے دوران میں نے اپنے آبائی گھر کے سامنے ایک بڑا سا بِل بورڈ لگوا آیا تھا جِس پر میں نے اس گھر کے مستقل رہائشی اُن تمام افراد کے نام لکھوائے تھے جنکا میرے نظریے کے مطابق میرے مقصدِ حیات سے گہرا تعلق ہونا چاہیے۔ خُفیہ ایجنسی کے پہلے ہی چھاپے کے بعد میں نے سی سی ٹی وی کیمروں میں ان میں سے بعض افراد کو اپنے اپنے نام اُس بِل بورڈ سے کھرچتے دیکھا۔ ایسا انہوں نے شاید اس لیے کیا کہ کہیں یہ نام دیکھ کر ایجنسیز تعلق ہی کی بنیاد پر اُنہیں گُمشدہ نہ کر دیں-بعض عزیزین نے تو اپنی جان بچانے کے لیے میرے قول و فعل سے لاتعلقی کے اشتہارات تک دے دیے۔ اس معاملے سے مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ فطری رشتوں کا مقصدِ حیات سے تعلق درحقیقت اُس سے مختلف نوعیت کا ہونا چاہیے جو میں سوچتا تھا۔ اب مجھے لگتا ہے کہ رشتوں کی فطری محبت بھی آپکے مقصدِ حیات کے سامنے گڑی خوشنما رکاوٹ اور آزمائش ہے۔ غور و فکر پر میں نے جانا کہ ان پر احسان اور حُسنِ سلوک سمیت اپنے فطری مدار میں صلہ رحمی اور اپنی رعیت کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا ہمارے روزمرہ فرائض میں شامل تو ہے لیکن میرے مقصدِ حیات کی روح سے ان رشتوں کا تعلق اتنا گہرا نہیں ہو سکتا جتنا میں نے ہمیشہ سوچا تھا۔ ہاں ان رشتوں کی محبت یا بعض صورتوں میں ان سے مسابقت کی دوڑ پاؤں میں پڑی وہ زنجیر ضرور بن سکتی ہے جو مقصدِ حیات کی طرف بڑھنے سے روک دے۔ میرا حساب چونکہ انفرادی ہے تو میرا انفرادی مقصدِ حیات بھی انتہائی ذاتی ہی ہونا چاہیے۔
ابھی ان سوچوں میں غرق ہی تھا کہ ناسا کی جانب سے کائنات کے ایک اتنے سے حصے کی یہ تصویر سامنے آ گئی جیسے کسی ریگستان سے کوئی ریت کا ذرّہ اُٹھا کر ہتھیلی پر رکھ لے۔ اسی ذرّے میں ہزاروں گیلیکسیز نظر آتی ہیں، اس ذرّے میں میری زمین کی حیثیت ریگستان کے ریت کے ایک ذرّے جیسی بھی نہیں، پھر میری زمین پر میری حیثیت ریگستان کے ایک ذرے جیسی بھی نہیں، اور ابھی تو اللہ کی پیدا کردہ کائنات کی وسعت کا تصور ہی ممکن نہیں۔ اس تصویر کو دیکھ کر پہلے دن تو دل پر اللہ کی ہیبت بھی طاری رہی اور اپنی بے پناہ بے وقعتی کا احساس بھی تنگ کرتا رہا۔ ان سوچوں کے دوران سانسیں ملنے کے بعد سے اپنی اگلی پچھلی ساری بھاگ دوڑ بے قیمت اور فضول محسوس ہونا عین فطری تھا۔پھر دورانِ نماز اللہ کے سامنے جھکتے اُسے پکارتے جب یہ لمحاتی احساس ملا کہ اس ساری کائنات کا خالق و مالک نہ صرف میری طرف متوجہ ہے بلکہ بقول قرآن میری پکار کا جواب بھی دے رہا ہے تو بطور انسان اپنے فرض اور کردار کے سامنے کائناتوں کی وسعت ماند پڑ گئی۔اس سوال کا جواب جاننے کی تڑپ البتہ اور بڑھ گئی ہے کہ انسانوں کے مجموعی مقصدِ تخلیق کے حصول میں میرا منفرد ذاتی کردار کیا ہو سکتا ہے۔ میں حقیر سہی لیکن صحیح سے وہ کردار ادا کر پاؤں جس کے لیے مجھے پیدا کیا گیا ہے تو میں آدم سے قیامت تک پیدا ہونے والے کامیاب انسانوں کی کوششوں سے بنی ایک ایسی طویل ترین سیڑھی کا ایک زینہ بن سکتا ہوں جسے بالآخر تخلیق سے مقصدِ تخلیق کے حصول کی اونچائی تک کے سفر کا مظہر بننا ہے۔
گویا میں بے پناہ حقیر ہوں اگر اپنے اردگرد بچھائے گئے سرابوں میں سے کسی ایک کی دلکشی کے باعث اُن سفر روکنے والوں میں سے ہوا جو دنیا کو اِلُوئیثن نہیں سمجھتے۔
میں بے پناہ اہم ہوں اگر میرا کردار کائناتوں کے خالِق کے مقصدِ تخلیق سے ہم آہنگ ہے۔آج کے دور میں میرا وہ انفرادی کردار کیا ہے جسے اپنا کر میں ان بے جان گیلیکسیز سے زیادہ اہم بن سکتا ہوں جو میری طرح زندگی نامی کمرہ امتحان میں جگہ نہ بنا پائیں، اس سوال پر غور و فکر ابھی باقی ہے۔