امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ کو پانچ لاکھ احادیث یاد تھی ، ایک دن انہوں نے اپنے بیٹے حماد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹے میں آپکو پانچ لاکھ احادیث کا نچوڑ صرف پانچ احادیث میں بیان کررہا ہوں
1۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہو۔
2۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ لا یعنی فضول چیزوں کو ترک کر دے۔
3۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہ چیز پسند نہ کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔
4. نبی کریم ﷺ نے فرمایا حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی اور دونوں کے درمیان شبہ کی چیز ہے جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ سو جو شخص شبہات سے بچا اس نے دین محفوظ کر لیا اور جو شخص شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ جائے گا جیسا کہ چرواہا اپنا ریوڑ کسی کھیت کی باڑ کے پاس لے جائےگا تو عنقریب ایسا ہو گا کہ اس کا ریوڑ کھیت میں بھی چرنے لگے گا۔ بلاشبہ ہر بادشاہ نے باڑلگا دی ہے اور اللہ کی باڑ حرام کردہ اشیا ہیں
5۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے-یہ پانچ احادیث سنانے کے بعد فرماتے ہیں بیٹا ان پانچ احادیث کو آئینے کی طرح رکھنا اور اپنے اعمال کا ان پانچ احادیث پر محاسبہ کرتے رہنا۔ یہ پانچ احادیث ان پانچ لاکھ احادیث کا نچوڑ ہیں جو مجھے یاد ہیں ۔
از مجموعہ امام وصایا امام اعظم رحمۃ اللہ ص: ۶۴
چار باتوں كی اصلاح نہیں ہو سكتی
اس خاتون سے ہوائی اڈے پر جہاز کے انتظار میں وقت ہی نہیں کٹ پا رہا تھا۔ کچھ سوچ کر دکان سے جا کر وقت گزاری کیلئے ایک کتاب اور کھانے کیلئے بسکٹ کا ڈبہ خریدا۔ واپس انتظار گاہ میں جا کر کتاب پڑھنا شروع کی۔ اس عورت کے ساتھ ہی دوسری کرسی پر ایک اور مسافر بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ ان دونوں کے درمیان میں لگی میز پر رکھے بسکٹ کے ڈبے سے جب خاتون نے بسکٹ اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو اسے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اس ساتھ بیٹھے مسافر نے بھی اس ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھا لیا تھا۔ خاتون کا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا، اس کا بس نہیں چل رہا تھا، ورنہ تو وہ اُس کے منہ پر اس بے ذوقی اور بے ادبی کیلئے تھپڑ تک مارنے کا سوچ رہی تھی۔ اس کی حیرت اس وقت دو چند ہوگئی جب اس نے دیکھا کہ جیسے ہی وہ ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھاتی وہ مسافر بھی ایک بسکٹ اٹھا لیتا۔ غصے سے بے حال وہ اپنی جھنجھلاہٹ پر بمشکل قابو رکھ پا رہی تھی۔ جب ڈبے میں آخری بسکٹ آن بچا تو اب اس کے دل میں یہ بات جاننے کی شدید حسرت تھی کہ اب یہ بد تمیز اور بد اخلاق شخص کیا کرے گا، کیا وہ اب بھی اس آخری بسکٹ کی طرف ہاتھ بڑھائے گا یا یہ آخری بسکٹ اس کیلئے رکھ چھوڑے گا؟ تاہم اس کی حیرت اپنے عروج پر جا پہنچی جب مسافر نے اس آخری بسکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھا خود اٹھا لیا اور آدھا اس کیلئے چھوڑ دیا تھا۔ خاتون کیلئے اس سے بڑھ کر اہانت کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ آدھے بسکٹ کو وہیں ڈبے میں چھوڑ کر، کتاب کو بند کرتے ہوئے، اٹھ کر غصے سے پاؤں پٹختی امیگریشن سے ہوتی ہوئی جہاز کی طرف چل پڑی۔ جہاز میں کرسی پر بیٹھ کر اپنے دستی تھیلے کو اس میں سے عینک نکالنے کیلئے کھولا تو یہ دیکھ کر حیرت سے اس کی جان ہی نکل گئی کہ اس کا خریدا ہوا بسکٹ کا ڈبہ تو جوں کا توں تھیلے میں بند رکھا ہوا تھا۔ ندامت اور شرمندگی سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ اسے اب پتہ چل رہا تھا کہ وہ ہوائی اڈے پر بسکٹ اس شخص کے ڈبے سے نکال کر کھاتی رہی تھی۔ اب دیر سے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ شخص کس قدر ایک مہذب اور رحمدل انسان تھا، جس نے کسی شکوے اور ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے ڈبے سے اسے بسکٹ کھانے کو دیئے تھے۔ وہ جس قدر اس موضوع پر سوچتی اسی قدر شرمندگی اور خجالت بڑھتی جا رہی تھی۔ اس شرمندگی اور خجالت کا اب مداوا کیا ہو سکتا تھا، اس کے پاس نا تو اتنا وقت تھا کہ جا کر اس آدمی کو ڈھونڈھے، اس سے معذرت کرے، اپنی بے ذوقی اور بے ادبی کی معافی مانگے، یا اس کی اعلٰی قدری کا شکریہ ادا کرے۔ بے چینی سے نا تو اسے مناسب الفاظ مل پارہے تھے جن سے اس شخص کو تعبیر کرتی اور سفر کی مجبوری اسے کہیں جانے نہیں دے رہی تھی۔ جی ہاں، چار باتیں ایسی ہیں جن کے بگاڑ کی اصلاح بعد میں نہیں ہو سکتی؛ 1: کمان سے نکلا تیر 2: زبان سے نکلے ہوئے الفاظ 3: موقع ہاتھ سے نکل جانے کے بعد 4: وقت گزر جانے کے بعد