صدقہ

مصنف : ڈاکٹر اظہر وحید

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : اگست 2022

کلیہ یہ ہے کہ جو دینے والا بن جاتا ہے ٗاُس سے لیا نہیں جاتا، جو بالرضا دے دے ٗ اُس پر قضا نافذ نہیں ہوتی- قضا وہ چیز نہیں چھینتی جو رضا مندی سے دینے کی نیت کر لی جائے۔ فرمانِ رسولِ رحمتﷺ ہے’’ دینے والا ہاتھ لینے والا ہاتھ سے بلند ہوتا ہے‘‘  یعنی دینے والے بن جاؤ تو بلندی ملے گی۔ دینے والا ہر حال میں معزز ہوتا ہے۔ فرمایا گیا کہ سخی اللہ کا دوست ہے۔ سبحان اللہ ! اللہ کے قریب ہونے کا کتنا آسان نسخہ ہے- یعنی ماسوا قربان کردو‘ ماوراکے قریب ہو جاؤ۔ قرب قربانی سے ہے۔ کلیہ سادہ ہے ، گو عمل میں دشوارسہی، سمجھنے کی حد تک بھی سمجھ میں آجائے تو کافی حد تک کام بن جاتا ہے- پہلے خیال راسخ ہوتا ہے، پھرعمل عازمِ سفر ہوتا ہے- اور عمل میں تواتر پہلے عادت اور پھر کردار بن کر مقدر بدل دیتا ہے۔ کلیہ یہی ہے کہ شئے سے دور ہو جاؤ ٗ لاشئے کے قریب ہو جاؤ گے-یعنی لامکاں کی جستجو ہو تو مکان اور مکانات میں دلچسپی کم کر دو۔ آسمانی کلیہ زمینی کلیے کے برعکس ہوتا ہے- زمینی حساب کتاب میں دینے سے ڈیبٹ بڑھتا ہے، آسمانی حساب میں ٗ یعنی ازلی کتاب میں ‘ دینے سے کریڈٹ بڑھتا ہے۔ یہاں سکھایا جاتا ہے کہ جمع کرنے سے مال بڑھتا ہے، وہاں دکھائی دیتا ہے کہ تقسیم کرنے سے بڑھتا ہے۔ مال، عزت ، علم ، ہنر ، محبت ، توجہ … غرض جو چیز بھی فراخدلی سے دی جائے گی ٗوہ کہیں نہ کہیں جمع ضرور ہوگی۔ اِن جملہ اثاثوں میں چہرہ اور وقت بھی شامل ہے۔ اگر اپنا وقت فی سبیل اللہ نکالا جائے تو وقت میں برکت ہو جاتی ہے، ہو سکتا ہے ایسے شخص کا دن چوبیس گھنٹوں کی بجائے پچیس گھنٹوں کا مقرر کر دیا جائے۔  ظاہر میں کیلنڈرکے صفحے پر اسی ترتیب سے تاریخیں موجود رہتی ہیں، لیکن باطن میں اس کی تاریخ بدل چکی ہوتی ہے۔
   فطرت دینے والے شخص کی مقروض ہوتی ہے- وہ فطرت کا حصہ جاتا ہے۔ اللہ خود قرض طلب کرتا ہے، وہ اسے بہترین قرضہ کہتا ہے۔ برادرم ریاض احمد کہا کرتے ہیں‘ یار! وہ کسی  سے چہرہ بھی تو قرض کے طور پر مانگ سکتا ہے- بہرطور یہ وجہہ اللہ کا راز ہے، جو بیان ہونے کے بعد بھی صیغۂ راز میں رہتا ہے-  یہ ’’من و تو‘‘  دو صیغے ہی تو ہیں ‘جن کے درمیان  راز  پرورش  پاتا ہے  !! 
 کلیۂ شریعت میں صدقہ اللہ کی رضا کے حصول کیلیے اپنا مال و متاع خرچ کرنے کا نام ہے۔ اللہ کی رضا اللہ کے رسولﷺ سے معلوم اور موصول ہوتی ہے۔ صدقات کے متعلق احادیث اس قدر وافر تعداد اور تواتر میں ہیں کہ صرف عبارات نقل کرنے کیلئے کئی دفتر درکار ہیں۔ علما نے صدقات کی تین اقسام گنوائی ہیں- فرض صدقات ، واجب صدقات اور نفل صدقات… فرض صدقات میں زکوٰۃ ہے، اس کے اپنے احکام اور مصارف ہیں، صدقاتِ واجبہ میں فطرانہ، کفارہ ، نذر اور قربانی شامل ہیں، اور صدقاتِ نافلہ میں کسی جگہ ، مقام اور مقدار کا تعین نہیں کیا گیا۔ حکم ربانی ہے کہ جو بھی زائد ہو ،نفاق کیا جائے، فی سبیل اللہ خرچ کیا جائے۔ زائد کیا ہے -یہ خرچ کرنے سے معلوم ہوگا، جمع کرنے سے نہیں۔ ضرورت اور خواہش میں فرق کرنے کیلئے تزکیہ درکار ہوتا ہے۔ دین کی خوبصورتی یہ ہے کہ خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے، چھیننے پر انگیخت نہیں کرتا، گویا دین کا بنیادی وظیفہ اصلاح ہے‘ فساد نہیں۔ دین فلاحِ انسانیت کے نام پر کسی کو رابن ہڈ بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ 
 عقدہ یہ کھلا کہ نوافل صرف وہی نہیں ہوتے جو جائے نماز پر ادا ہوتے ہیں، بلکہ نوافل وہ صدقات بھی ہیں جو جائے خدمت پر ادا کیے جاتے ہیں۔  یہ بھی وہ نوافل ہیں جن کی مدد سے اَز روئے حدیث بندہ اپنے رب کا اس طرح قرب حاصل کر لیتا ہے کہ رب اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں ٗ جس سے وہ کام کرتاہے ، اس کا پاؤں بن جاتا ہے ٗجس سے وہ چلتا ہے ، وہی اس کے کان اور آنکھ بن جاتا ہے- گویا صاحبانِ ِ قرب پر اُس کا سمیع  و بصیر ہونا کھل جاتا ہے… "ید اللہ فوق ایدیھم " کا راز بھی انہی پر کھلتا ہے …اور خوب کھلتا ہے۔ دینے والا ہاتھ بلند ہاتھ ہے… بلند  ہاتھ ٗ اللہ ہی کا ہاتھ ہو سکتا ہے، اقبالؒ صاحبِ حال کا خیال ہے کہ  
ع    ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ 
  نوافل سے مراد ہر وہ خدمت ہے جو فرض ہو نہ واجب، لیکن انسان اسے اپنے اوپر فرض جان لے، جو نفل کو فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں ان کے فرائض کبھی قضا نہیں ہوتے۔ ایک درویش سے کسی نے پوچھا کہ فرض اور سنتوں میں کیا فرق ہے، وہ کہنے لگا‘ میاں! ہم تو فرض بھی سنت سمجھ کر ادا کرتے ہیں اور سنتیں فرض سمجھ کر… سو‘ نوافل پر پہرہ دینے والے صاحبانِ اولوالعزم کسی اور ہی شعور میں مدام محوِ خرام ہوتے ہیں۔ 
 صدقے کی اتنی اقسام ہیں کہ صبح سے شام تک ہم صدقہ دیتے رہیں تو فہرست مکمل نہ ہو سکے۔ اَز روئے حدیث ٗ انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہے۔ صدقہ صرف مال ہی کا نہیں ہوتا، ہمارے وقت اور وسائل سے لے کر تعلقات تک ہر شعبۂ حیات پر واجب ہے، بس آپ جس چیز کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں اس کا صدقہ اُتار دیں- اگر وقت کی کمی کا رونا ہے ہیں تو اپنا وقت انہیں دے کر دیکھیں جنہیں کوئی وقت نہیں دیتا، اگر مال میں کمی کا اندیشہ ہے تو مال فراخدلی سے خرچ کریں۔ احادیث میں مروی ہے کہ بہترین خرچ وہ ہے جو انسان اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے۔ بچوں پر خرچ کر کے احسان نہ جتلائیں ورنہ وہ خرچ صدقے کی فہرست سے خارج ہو جائے گا … اور ہاں! بچوں کی ماں پر بھی خرچ کیا کریں ، وہ بغیر تنخواہ کے آپ کے بچے پال رہی ہے، بغیر کسی اضافی معاوضے کے آپ کے گھر میں خانساماں سے لے ذاتی خادمہ تک سب  فرائض بلا تکان اَدا کر رہی ہے  اس مد میں خرچ کرتے ہوئے معلوم نہیں ہم لوگ مدھم کیوں ہو جاتے ہیں۔ دراصل اخلاق کی طرح سخاوت کا  اصل امتحان بھی گھر سے شروع ہوتا ہے۔ بیرونِ خانہ تو ہمارا سوشل قد کاٹھ بسا اوقات ہمیں اپنی بساط سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ 
  جب کھانا کھلانا اور مسکرا کر ملنا صدقہ ہے تو گھر آئے مہمان کا مسکرا کر استقبال کرنا اور اس کی ضیافت کرنا کس قدر عظیم صدقہ ہوگا۔  یاد رہے‘  مہمان کی ضیافت میں خرچ کیا گیا اسراف کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسراف کھانے میں ہوتا ہے ٗ کھلانے میں نہیں ہوتا۔
 کھانے کی طرح لباس کا بھی صدقہ ہے۔ گھر میں اپنے ملازم کو کپڑے دیتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں‘ یار! اس رنگ کے میرے پاس دو سوٹ ہو گئے ہیں، ایک تم لے لو۔  اسی طرح جوتے دیتے ہوئے بھی سرسری یہ کہہ دیا جائے، لگتا ہے ٗیہ مجھے لگ رہے ہیں‘ تم پہن کر دیکھو ذرا ٗ تمہیں فٹ آئیں گے۔ بعض اوقات چند الفاظ کی باڑ کسی غریب کی عزتِ نفس کو محفوظ کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ خدمت عزت کے ساتھ کی جائے تو پوشیدہ صدقے کی طرح کام کرتی ہے ٗ بصورت دیگر ریاکاری ہے۔ جس خدمت میں عزتِ نفس مجروح کر دی جائے وہ جتلائے ہوئے احسان کی طرح ضائع ہو جاتی ہے۔ احسان جتلانا ایک اذیت دینے کی طرح ہے، اور اذیت دینے والا صدقہ  قرآن کی رُو سے باطل ہو جاتا ہے۔ لباس کا صدقہ دینےکے حوالے مرشدی واصف علی واصفؒ کی "گفتگو "سے ایک تحریر نظر سے گذری‘  آپ فرماتے ہیں: "اگر آپ کسی غریب کو دیکھو تو اسے لباس کا صدقہ عطا فرما دو، یعنی وہ لباس جو آپ نے زیبِ تن کیا ہوا ہو… تو اس سے آپ کا تن آسان ہو جائے گا، وجود صحت مند ہو جائے گا … تو لباس دینا بھی صدقے کی ایک شکل ہے"       
 فرمان ِ رسولِ رحمتﷺ ہے کہ اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔ اِسی طرح فرمایا گیا کہ معاف کرنا بھی صدقہ ہے، راستے سے کانٹے دار جھاڑی کا دُور کردینا بھی صدقہ ہے۔ گویا کسی کی مشکل آسان کرنا، کسی کیلئے منفعت بخش ہونا جملہ صدقات ہیں۔ اَز روئے حدیث ِ جبریل اسلام کے بعد ایمان کا درجہ ہے اور ایمان کے بعد احسان کا … فقر درجۂ احسان ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں " فقیری شروع ہوتی ہے‘  بے ضرر ہو جانے سے اور مکمل ہوتی ہے منفعت بخش ہو جانے پر"۔ یہاں راز یہ کھلا کہ بے ضرر ہوئے بغیر منفعت بخش ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ اسے منفعت بخش نہیں کہہ سکتے جو ایک طرف غریبوں کا خون نچوڑ رہا ہو اور دوسری طرف شفا خانوں کے فیتے کاٹ رہا ہو۔ منافع خور ، ذخیرہ اندوز اور استحصالی نظام کا معاون و مددگار اپنے عوام اور ضمیر کو مطمئن کرنے کیلیے کیسی ہی پرکشش این جی اوز بنالے‘ کتابِ حقیقت میں منفعت بخش نہیں لکھا جائے گا۔ فقیروں کے لنگر میں اور کسی سیٹھ کے ڈیرے پر دیگیں اترنے کے منظر میں فرق ہوتا ہے، ذایقے کے علاوہ تاثیر کا فرق بھی صاف ظاہر ہوتا ہے۔ فقیر بے ضرر ہوجانے کے بعد نفع بخش ہوتا ہے ، اسلیے اس کا لنگر صدقہ جاریہ کی صورت ہوجاتا ہے۔ 
 اگر ہم مسکرانے اور معاف کرنے والا صدقہ کثرت سے دینا شروع کرنا دیں تو معاشرے میں اَمن اور سکون کی فراوانی ہو جائے۔ مسکرانے اور معاف کرنے سے نہ جانے کیوں ہم بخل سے کام لیتے ہیں۔ مسکرانا آپ کے چہرے کی خوبصورتی کا صدقہ ہے۔ کسی زیر دست کو معاف کرنا اپنے بالادست ہونے کا صدقہ ہے۔ 
  پیسہ دینا آسان ہے، توجہ دینا مشکل ہے، اور وقت دینا انتہائی مشکل … لیکن مشکل سے گزر کر ہی آسانی ملتی ہے۔ اگر دِل کشادہ نہ کیا جائے تو آسائش کشائش نہیں رہتی‘ آلائش بن جاتی ہے۔دسترخوان کشادہ کرنے سے پہلے پیشانی کشادہ کرنا لازم ہے۔
  باب العلمؑ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان ہے کہ اپنے دن کا آغاز صدقے سے کرو۔ صبح سویرے  حسبِ استطاعت کچھ نہ کچھ جیب سے نکال کر گھر سے نکلنا چاہیے ۔ اس کی ایک عملی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ گھر میں کام کاج کرنے والی خادماؤں اور ان کے ساتھ آنے والے بچوں کو کچھ  نذر  پیش کرنے کے بعد گھر سے نکلا جائے ( لیکن برادرانِ عزیز!  یہ احتیاط ملحوظ  رہے کہ گھر کی خادمہ کو صدقہ ہمیشہ بیگم کے توسط سے دیا جائے ٗوگرنہ صدقے سے بلا ٹلنے سے رہی)۔  پٹرول پمپ سے پٹرول ڈلوانے کے بعد سروس بوائے کے ہاتھ پر چپکے سے کچھ  پیسے رکھ دیے جائیں-یہ بچے معلوم نہیں کسی مجبوری کے تحت نوکریاں کر تے ہیں۔ ریسٹورینٹ میں کھانے کے بعد ویٹر کو معقول ٹپ دینی چاہیے، واپسی پر کچھ کھانا پیک کر وا لیں اور گلی کے چوکیدار کو پیکٹ تھما دیں- یہ آپ کے پُر تعیش کھانے کا صدقہ ہے۔ بلیو کالر کی خدمت آپ کے وائیٹ کالر کا صدقہ ہے۔ اگر آپ گاڑی پر ہیں تو پیدل اور سائیکل والوں کیلئے راستہ چھوڑ دیں -یہ آپ کی سُبک سواری کا صدقہ ہے۔ ہماری تعلیم و ہنر ( ٹیلینٹ) کا صدقہ یہ ہے کہ اپنے شعبے میں ہم کسی طالبعلم کو فری کوچنگ دے دیا کریں۔ علم کی بھی ایک مخصوص زکوٰۃ ہوتی ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ لکریم نے فرمایا کہ علم کی زکوٰۃ یہ ہے کہ جاہلوںکو برداشت
 کرو۔سبحان اللہ! …کسی ایک شعبۂ حیات کے متعلق کچھ علم حاصل کرنے کے بعد ہم اس شعبے کے متعلق نہ جاننے والے ٗیا کم جاننے والوں کی تضحیک شروع کر دیتے ہیں ، نہ جاننے والوں کے ساتھ ترش روئی سے پیش آتے ہیں، انہیں تنک کر جواب دیتے ہیں… واللہ ! ایسا علم پاک نہیں ہو تا۔ 
   اگر آپ ماشاءاللہ صحت مند ہیں اور بغیر ادویات کی بیساکھیوںکے چل پھر رہے ہیں تو اپنی صحت کا صدقہ دیجیے ، کسی بیمار کی تیمارداری کیجیے اور کسی بیمار کیلئے ادویات کا بندوسبت کیجیے۔  ہمارے اعلیٰ تعلقات کا صدقہ یہ ہے کہ یہ تعلقات ان لوگوں کے بھی کام آئیں جن کے کام کوئی نہیں آتا۔ چھوٹے چھوٹے صدقات بڑی بڑی مصیبتوں کو ٹال دیتے ہیں۔ روایت ہے کہ صدقہ موت کو بھی ٹال سکتا ہے، یعنی صدقہ درازیٔ عمر کا باعث ہوتا ہے۔ 
 رسول کریمﷺ سے دریافت کیا گیا کہ بہترین صدقہ کون سا ہے، آپؐ نے فرمایا پیاسے کو پانی پلانا"۔ اصحابِ ذی مقام نے دریافت کیا‘  بہترین اسلام کون سا ہے ،  فرمایا گیا "سلام کرنا اور کھانا کھلانا"۔ سلام صرف قول ہی نہیں، عمل بھی ہے۔ سلام کرنے والا سلامتی کی تمنا پیش کرتا ہےوہ اپنے  قول، عمل ، افکار اور کردار سے بے ضرر ہوتا ہے اور منفعت بخش ہونے کا متمنی ہو تاہے !!  خیر الناس من ینفع الناس بہترین انسان وہ ہے جو  اِنسانوں کیلئے منفعت بخش ہے۔ رسول ِ کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے  ’’سارا دین خیر خواہی ہے‘‘
 صدقہ دین کا ایک مضبوط روحانی پہلو بھی ہے اور معاشی پہلو بھی… اس سے پہلو تہی کرکے ہم فلاحی معاشرہ قائم نہیں کر سکتے۔  قرآن میں مسکین کو کھانا کھلانے پر رغبت نہ دلانے والا ،عملی طور پر روزِ جزا کو جھٹلانے والا شمار کیا گیا ہے۔ مسکین کو کھانا کھلانا اتنا اہم ہے کہ صرف اس کی رغبت دلانے میں کوتاہی بھی قابلِ گرفت ہے۔ کسی دستر خوان سے کھانا کھانے والے مسکینوں کو مفت خور کہنے والا اپنی نمازوں کی خبر لے،  قرآن میں ایسے نمازیوں کیلئے  ویل"  کا اعلان ہے…تباہی کی وعید ہے۔ 
 فرمایا گیا کہ پوشیدہ صدقہ رب کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ رحمت اللعالمینؐ کے اس فرمانِ عالیشان سے رب العالمین کا مزاج سمجھ میں آجانا چاہیے۔ مخلوقِ خدا کی ہر
 خدمت من جملہ صدقات میں سے ہے … اور مخلوقِ خدا کی بے لوث خدمت سے خالق راضی ہوتا ہے۔ جس سے خدا راضی ہو جاتا ہے ٗوہ مخلوق سے لاپرواہ نہیں ‘ بے پرواہ ہو جاتا ہےکیونکہ اسے مخلوق میں محبوب کر دیا جاتا ہے اور کلیۂِ حسن و جمال میں محبوب بے پرواہ ہوتا ہے!! … فقر کا استغنا یوں سمجھ میں آتا ہے!!

 

بشکریہ : (روزنامہ " نئی بات" میں ہفتہ وار کالم "عکسِ خیال" بروز بدھ 3 جولائی 2019ء)