فجر کی اذان ہورہی تھی، کمرے میں ملگجا اندھیرا تھا۔ میں نے کروٹ بدلی۔ عید میں ابھی کئی گھنٹے تھے۔ اچانک موبائل جاگ اٹھا۔ دوسری طرف چترا پریتم تھے۔ ایک نوجوان مصور جن سے برسوں پہلے تعارف ہوا تھا۔ ان سے ایسی بے تکلفی نہیں تھی کہ وہ منہ اندھیرے مجھے فون کریں۔ ’’ خیریت ؟ ‘‘ میری زبان سے بے اختیار نکلا۔’’جی ایک بری خبر دے رہا ہوں۔ سید انیس شاہ جیلانی اب ہم میں نہیں رہے۔‘‘ چترا کی آواز آئی۔ میرا دل بیٹھ گیا۔ ان کا جانا کوئی ناگہانی خبر تو نہ تھی لیکن دوست 100 برس کی عمر میں بھی جدا ہوں تو اذیت ہوتی ہے۔ وہ اکتوبر 1937 کو پیدا ہوئے اور اب 80 برس کے تھے۔ بیمار وہ برسوں سے تھے جس کی وجہ سے ان جیسا سیلانی آدمی گھر بیٹھ گیا تھا لیکن اب لگ بھگ چار پانچ برس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے گھس گئے تھے جس کی وجہ سے وہ انتہائی اذیت میں مبتلا رہتے۔ مجھے کچھ کہنے کا یارا نہ تھا۔ میں یہ جانتی تھی کہ چترا کا ان سے کتنا گہرا تعلق تھا۔ چترا سے انیس شاہ کا پُرسہ کیا کرتی۔ چترا کا بنایا ہوا مہاتما بدھ کا عکس اور انھوں نے قرآن کی جو خطاطی کی تھی، وہ سب آنکھوں میں پھر گئیں۔ میں نے زیادہ کچھ کہے سنے بغیر موبائل بند کردیا۔ خاموشی سے زیادہ بامعنی پُرسہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ تکیے پر سر رکھا تو چڑیوں کی چہکار کانوں میں آرہی تھی۔ نواب مرزا شوق یاد آئے۔
صبح دم طائران خوش الحان
پڑھتے ہیں کُل من علیہا فان
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج ہم کل تمہاری باری ہے
انیس شاہ کی باری آگئی تھی اور رات کے اندھیرے میں وہ رخصت ہوگئے تھے۔ مجھے اپنی کہانی ’’صرصر بے اماں کے ساتھ ‘‘ یاد آئی جس کا آغاز انیس شاہ کے ذکر سے ہوا تھا۔ وہ اپنی نئی ٹویوٹا کرولا میں اچھو میاں، محمد شاہ کو اور مجھے ساتھ لے کر بحری جہاز Two Rivers کی زیارت کے لیے آئے ہیں جو کئی مہینوں سے کراچی کے ساحل پر ریت میں دھنسا کھڑا ہے۔لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آتے ہیں۔ بہاولپور کے ایک چھوٹے سے شہر محمد آباد سے کراچی آنے والے انیس شاہ اس جہاز کے دیدار کے بغیر کیسے گھر جاسکتے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی ریت میں دھنسے ہوئے جہاز کے ساتھ ایک دوسرے کی تصویریں اتار رہے ہیں۔ کار کی نشست پر کوئی چیز چبھتی ہے۔ میں اسے ہٹانا چاہتی ہوں تو میرے ہاتھ کسی کتاب سے الجھتے ہیں، میں اسے اٹھاتی ہوں۔ یہ گہری سبز جلد کی وہ ضخیم بیاض ہے جس کے پہلے صفحے پر انیس شاہ کی موتیوں جیسی سجل اور دلکش تحریر میں ان کا پورا نام لکھا ہے اور اس کے نیچے ’’حیرت شملوی اکادمی‘‘ اور ’’محمد آباد۔ رحیم یا رخاں ‘‘ تحریر ہے۔ میں صفحے پلٹتی ہوں نامور لوگوں کے لکھے ہوئے حروف، یہ مولانا غلام رسول مہر کی اور یہ رئیس احمد جعفری کی تحریر ہے، اس صفحے پر جوش ملیح آبادی نے لکھا ہے۔ یہ احسان دانش کی نگارش ہے۔ ورق پر ورق الٹتے چلے جاتے ہیں اور ناموں پر نام گزر رہے ہیں۔ ان سب لوگوں کی تحریریں جن سے اس شخص نے دوستی اور محبت کی بھاری قیمت دی ہے۔
انیس شاہ کی ذات میں مجھے ہر لمحہ ایک پشتینی جاگیردار اور ادیب کے وجود کی کشمکش نظر آئی ہے۔ ان کی ادب دوستی اور علم نوازی نے ان کی جاگیر کو ٹھپ کیا اور ان کی جاگیر داری نے ان کے اندر کے ادیب کو بے دعویٰ رکھا۔ ہر لمحہ ادب کے مسائل میں گم اور ہر ساعت اچھی کتابوں اور نادر مخطوطوں کی تلاش میں سر گرداں۔ ان کی زندگی کے تضاد، ان کی زخمی روح اور بے چین ذہن نے مجھے ہمیشہ ملول کیا ہے۔ان کے والد کو اردو اور بعض اردو ادیبوں سے عشق تھا۔ وہ بیٹے کو ’اردو داں‘ نہیں ’اردو والا‘ بنانا چاہتے تھے۔اسی لیے انھیں رئیس احمد جعفری کے سپرد کیا۔ وہ اس گھرانے میں رہے۔ بہت کچھ سیکھا لیکن بہت کچھ کھودیا۔ کم عمری سے والد کے حکم پر گھر اور گھر والوں سے جدائی نے ان کے مزاج میں تلخی ، تندی اور تیکھا پن پیدا کردیا تھا۔ وہ جنھیں چاہتے انھیں آم کے موسم میں اپنے باغات کے آم بھیجتے۔ ایک دو نہیں، درجن سے زیادہ پیٹیاں ہر شخص کے گھر پہنچتیں۔ لیکن اسی شخص کے بارے میں لکھنے کے لیے دوات میں قلم ڈبوتے تو مزاج کی تمام تلخی اس روشنائی میں حل ہوجاتی۔ والد سید مبارک شاہ سے شاید انھیں بہت سی شکایتیں ہوں۔ یہ وہی تو تھے جنہوں نے ان سے ان کا بچپن چھین لیا تھا۔ لیکن ان کے بارے میں لکھتے ہوئے انیس شاہ کا قلم سر فگندہ ہوجاتا ہے اور وہ لکھتے ہیں:’’اونچی آواز میں بہت کم بولتے تھے۔ غصہ پینے میں بلا نوش تھے۔ تقسیم ملک کے خلاف تھے مگر جب پاکستان بن گیا تو فلاح وبہبود کا بڑا خیال تھا۔ جوانی بڑھاپے میں وزن قریب دو من دو سیر سے نہ گھٹا نہ بڑھا۔ بتیسی ہم نے ان کی دیکھی ہی نہیں۔ اتنا ضرور تھا کہ ایک ہی داڑھ رہ گئی تھی، جس پر وہ پیسٹ اور برش گھسا کرتے تھے۔ سندھی اور سرائیکی مادری پدری زبانیں تھیں مگر وہ مرحوم اول و آخر اردو تھا۔ وہ چاہتے تھے ضلعی صدر مقام رحیم یار خاں میں سرکاری سرپرستی میں دارالمصنفین اعظم گڑھ کی وضع کا ادارہ اگر قائم کردیا جائے تو پورا کتب خانہ نذر کردیں گے۔ ایک ڈپٹی کمشنر جناب غلام فرید خاں نے حاتم کی قبر پر بارہ مربع فٹ زمین دکھا کر دولتی جھاڑ تو دی تھی۔ غالباً لائبریری کے نام سے وہ بجھکڑ سمجھے یہ کوئی اکنی دونی کمانے کا چکر ہے۔ ایک عظیم علمی ادارے کے تصور کا متحمل ایک سرکاری دماغ کیونکر ہوسکتا تھا۔‘‘
سید شاہ مبارک جیلانی اور سید انیس شاہ جیلانی ایسے لوگ وہ دُر بے بہا تھے جنھیں اردو والے سر آنکھوں پر رکھتے لیکن بیشتر نے ان کی وضع داری اور وارفتگی کو ان کا حمق خیال کیا۔ آپ ہی سوچیں کہ اس رویے نے انیس شاہ کے دل پر کیسی چھریاں چلائی ہوں گی۔رفتہ رفتہ زخم پر انگور بندھے لیکن درد کی تپک مزاج کا حصہ بن گئی۔ وہ اپنے علاقے کے اچھے بھلے زمیندار تھے لیکن شوق اس کا تھا کہ ادیب کی حیثیت سے پہچانے جائیں۔ ان کے والد سید مبارک شاہ نے 1926 میں جو لائبریری قائم کی تھی اسے انیس شاہ نے چار چاند لگائے۔ سنا ہے کہ اب اس میں 26 ہزار سے زیادہ کتابیں اور نادر مخطوطات ہیں۔ غالب کے عاشق تھے، عاشقِ صادق تھے۔ دور جدید کے ادیبوں میں وہ نیاز فتح پوری، رئیس احمد جعفری اور رئیس امروہوی کو مرشد جانتے تھے۔اپنے محترم والد سید مبارک شاہ جیلانی کی قائم کردہ لائبریری کو اتنا بڑھایا اور پھیلایا کہ اب اس میں 26000 سے زیادہ کتابیں اور مخطوطے
ہیں۔ وہ علاقہ کہ جہاں اردو بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والے ڈھونڈے سے نہیں ملتے تھے، وہاں سید مبارک شاہ نے 1926 میں ایک اردو لائبریری قائم کی جس میں موجود کتابوں کی خوشبو نافۂ مشک کی طرح پھیلی۔ سید مبارک شاہ کے بیٹے سید انیس شاہ نے اپنے کھیتوں کی سوندھی مٹی سے ذرا کم ہی رشتہ جوڑا، وہ ساتویں جماعت میں ناکام ہوئے اور پھر اردو اور سرائیکی ادب کے عشق میں یوں ڈوبے کہ آج بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں ایم اے سرائیکی کے نصاب میں ان کی کتابیں شامل ہیں۔
انھوں نے متعدد خاکے لکھے اور سب ہی ان کی سفاکی اور بے رحمی کا شاہ کار ہیں۔ اس بات کی شکایت ان سے جوان مرگ شاعرہ ثمینہ راجہ نے بار بار اپنے خطوں میں کی۔ ثمینہ راجہ سے ان کی خط و کتابت برسوں پر محیط رہی۔ وہ دل کے زخموں کو چھپاتی ہوئی چلی گئیں تو انیس شاہ نے ان کے تمام خطوط اکٹھا کیے اور انھیں ’’ثمینہ راجہ کے خط‘‘ کا نام دیا۔ ’’فکشن ہاؤس‘‘ لاہور نے اسے شایع کیا۔ ثمینہ راجہ سے میری کئی ملاقاتیں تھیں۔ ہم نے بہت سی باتیں کیں۔ ثمینہ کے ان خطوط میں میرا بار بار ذکر آیا ہے جس پر مجھے حیرت ہوئی۔انیس شاہ کی خواہش تھی کہ میں خطوط کے اس مجموعے پر کچھ لکھوں۔ لیکن میں ان خطوط پر قلم نہ اٹھا سکی۔ ثمینہ پہلے ہی جا چکی تھیں اور اب انیس شاہ بھی فنا کے دریا میں اتر گئے۔ اس دریا میں تیرتے ہوئے دونوں کی شاید ملاقات ہوئی ہو۔ میری ابوالکلام سے بات ہوئی، ان کے یار جانی اچھو میاں کو میں نے پرسہ دیا۔ جانے ابوالبشر، ابوالحسن اور ابوالفضل پر باپ کی رخصت نے کس طرح اثر کیا۔ ابوالفضل کے لیے وہ بہت پریشان رہتے تھے۔ ان کے جگر کا ٹکڑا تمکنت ہے، اس سے بات نہ ہوسکی۔ وہ عمرے پر گئی ہوئی تھی۔ انیس شاہ نے جانے کے لیے عید کے دن کا انتخاب کیا، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ میرے حصے میں جتنی بھی عیدیں رہ گئی ہیں، ان میں وہ منہ اندھیرے یاد نہ آئیں۔