علمی لطیفے

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : لطائف و ظرائف

شمارہ : جولائی 2022

ایک شخص کسی فقیہ کے پاس گیا اور کہا: اگر کوئی انسان مسجد سے واپس آ کر دیکھے کہ اس کے کپڑوں میں مسجد کا ایک کنکر بھی پھنس کر آ گیا ہے تو کیا کرے؟عالم دین نے کہا: کہیں بھی پھینک دے۔ سائل نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں کنکر رونا نہ شروع کر دے کہ مجھے واپس مسجد چھوڑ آؤ۔ عالم دین نے کہا: کنکر کو تب تک رونے دے جب تک اس کا گلا بیٹھ نہ جائے۔ سائل نے کہا: کنکر کا گلا بھی ہوتا ہے کیا؟عالم دین نے کہا: گلا نہیں ہے تو رو ئے گا کہاں سے؟
*****
عیسیٰ بن موسیٰ ھاشمی کا ابی غصن کے پاس سے گزر ہوا۔ اسے پریشان حال دیکھا تو سبب پوچھا: ابی غصن نے کہا، میں نے اس صحرا میں کچھ درھم دفن کیئے تھے۔ اب ضرورت پڑی ہےتو جگہ یاد نہیں آ رہی؟ عیسیٰ نے کہا: جہاں دفن کیئے تھے وہاں کوئی نشانی نہیں لگائی تھی؟ ابو غصن نے کہا؛ لگائی تھی، بالکل اوپر بادل کا ایک ٹکڑا چھاؤں کیئے کھڑا تھا۔ اب وہ بادل نہیں مل رہا۔
امام شعبی سے ایک سائل نے پوچھا: حدیث کے مطابق، کچھ نہ کچھ سحری میں ضرور کھاؤ بھلے کیوں نہ اپنی انگلی کو مٹی میں ڈال کر منہ میں ڈالنا پڑے"۔ اس حدیث میں کونسی والی انگلی کا ذکر ہے؟امام شعبی نے اپنے پاؤں کے انگوٹھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ اس انگلی کا ذکر ہے۔ (جھوٹی حدیث کا جواب اس طرح دیا)۔
*****
ایک مفت خورے نے کچھ لوگوں کو بن ٹھن کر جاتے دیکھا، یہ سوچ کر کہ ہو نہ ہو یہ کسی ولیمے پر جا رہے ہیں ساتھ ہو لیا۔ یہ لوگ سلطان کے دربان میں داخل ہو گئے۔ مفت خورہ بھی ساتھ ہی داخل ہو گیا۔ یہ لوگ شاعر تھے، انہوں نے سلطان کی مدح سرائی کی۔ سلطان نے انہیں تحفے تحائف دیئے۔ سلطان نے مفت خورے کو خاموش بیٹھا دیکھ کر پوچھا: تو اپنا قصیدہ کیوں نہیں سنا رہا۔ مفت خورے نے کہا: کیونکہ میں شاعر نہیں ہوں۔ سلطان نے کہا: تو پھر تو کون ہے؟مفت خورے نے کہا: میں وہی بہکا اور بھٹکا ہوا انسان ہوں جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے قران مجید میں فرمایا ہے کہ: (اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں - وَالشُّعَرَاءُ  يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ - سورة الشعراء- 224)سلطان نے مفت خورے کو بھی انعام و اکرام دیکر رخصت کیا
*****
ایک مفت خورے کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جو بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ مفت خورے نے پوچھا: کیا کھا رہے ہیں آپ لوگ؟لوگوں نے جو اس کی مفت خوری سے تنگ تھے، تنک کر کہا: ہم زہر کھا رہے ہیں۔ مفت خورے نے جھٹ سے کھانے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا: آپ لوگوں کے بعد میرے لیئے زندہ رہنا ویسے ہی حرام ہوگا۔ یہ زہر میں بھی آپ کے ساتھ ہی کھاتا ہوں۔
******
ایک عالم دین کے پاس شخص آیا اور مسئلہ پوچھا: رمضان میں مجھ سے ایک روزہ چھوٹ گیا ہے۔ عالم نے کہا: اس کے بدلے ایک دن کا روزہ رکھ لو۔ سائل نے کہا: رکھا تھا، گھر گیا تو دیکھا کہ سارے بیٹھے زردہ کھا رہے ہیں۔ میں نے بھی زردے میں ہاتھ ڈال دیئے۔ عالم نے کہا: دوبارہ رکھ لو۔سائل نے کہا: دوبارہ بھی رکھا تھا، گھر گیا تو دیکھا کہ سارے بیٹھے ھریسہ کھا رہے ہیں۔ میں نے بھی ھریسے میں ہاتھ ڈال دیئے۔ عالم نے کہا: مجھے لگتا ہے تم تب تک روزہ نہ رکھ پاؤ گے جب تک تیرا (ہاتھ تیری اپنی گردن سے باندھا ہوا - يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ - سورة الإسراء – 29)نہیں ہوگا۔
******
ایک سائل کسی عالم دین سے مسئلہ پوچھنے گیا: جب میں نہر میں نہانے کیلیئے جاؤں تو اپنا منہ کس طرف رکھوں؟عالم دین نے کہا: اُسی طرف جس طرف تیرے کپڑے رکھے ہیں۔
******
ابو غصن نے آٹا خریدا، اجرتی ملازم کے سر پر رکھوا کر گھر لا رہا تھا کہ ملازم آٹا لیکر بھاگ گیا۔ کچھ دنوں کے بعد بازار سے گزرتے ہوئے ابو غصن نے اس ملازم کو دیکھا تو خود بھاگ نکلے اور دور جا کر چھپ گئے۔ لوگوں نے پوچھا: ابو غصن، تو نے چور کو پکڑنے کی بجائے خود کیوں بھاگ جانا پسند کیا؟ابو غصن نے کہا: ایک تو یہ میرا آٹا چرا کر  بھاگ گیا تھا، اب مجھے ڈر تھا کہیں اجرت نہ مانگ لے، کیونکہ اس دن اس کی اجرت بھی تو رہ گئی تھی۔ 
اعمش ایک بار اپنے گھر سے ہنستے ہوئے نکلے۔ اعمش نے  دوستوں سے کہا جانتے ہو میں کس بات پر ہنس رہا ہوں؟دوستوں نے کہا نہیں معلوم۔کہنے لگا؛ میں گھر میں بیٹھا تھا کہ میری بیٹی نے میری شکل کو بغور دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے پوچھا بیٹی کیا دیکھ رہی ہو؟بیٹی کہنے لگی: میں سوچ رہی کہ میری امی کو آخر کس نے آپ کے ساتھ شادی کر لینے پر راضی کیا ہوگا؟(اعمش انتہائی  قبیح صورت تھے)
*******
ایک بدو نے صراحی چرائی جس میں درھم بھرے ہوئے تھے۔ چوری کے بعد نماز پڑھنے کیلیئے مسجد میں چلا گیا۔ اس چور کا نام موسیٰ تھا۔ امام نے نماز میں آیت پڑھی (اور یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ - وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ – سورۃ طہ – 17)بدو نے کہا؛ بخدا یہ  امام مسجد تو جادوگر ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ صراحی ادھر پھینک کر اور نماز چھوڑ کر بھاگ گیا۔
******
کسی شخص کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جو ایک آدمی کو بیدردی سے مار رہے تھے۔ اس راہگیر نے ایک مارنے والے سے پوچھا: کیا قصور کیا ہے اس آدمی نے، جسے تم مار رہے ہو؟اس آدمی نے جواب دیا: بخدا مجھے کوئی پتہ نہیں۔ یہ لوگ  اسے مار رہے تھے تو میں بھی اللہ پاک کی ذات سے اجر و ثواب پانے کی نیت کے ساتھ اسے مارنے میں شامل ہو گیا ہوں۔ 
******
عبدالرحمن بن عبداللہ زہری کہتے ہیں کہ: اشعب نے ایک بار مروان بن ابان بن عثمان کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ مروان ایک بہت ہی نیک دل، خوبصورت اخلاق اور اچھی شہرت والا انسان تھا۔ نماز میں مروان کی ریح اونچی آواز کے ساتھ خارج ہو گئی۔ اشعب اپنی نماز توڑ کر باہر
 چلا گیا۔ لوگوں نے یہی گمان کیا کہ ریح کی آواز اشعب سے ہی خارج ہوئی تھی۔ شام کو اشعب مروان کے گھر گیا اور اسے کہا؛ مجھے تم سے دیت چاہیئے؟ مروان نے حیرت سے پوچھا کس بات کی دیت؟اشعب نے کہا: تیری ریح کی دیت جسے میں نے اپنے اوپر ڈال کر تیری شہرت خراب ہونے سے بچائی ہے۔ اشعب تب تک مروان سے نہیں ٹلا جب تک کچھ پا نہ لیا۔