پنڈت ہری چند اختر داد، بیداد، دونوں میں طاق تھے۔ ایک دفعہ عبدالمجید سالک نے اپنے اخباری کالم افکار و حوادث میں کہیں لکھ دیا کہ پنڈت جی کا نام کیا ہے مسلم لیگ کا جھنڈا ہے ۔ ہری یعنی سبز’ چند یعنی چاند’ اور اختر کا مطلب ستارہ ہوتا ہے ۔پنڈت جی نے کالم پڑھا تو اخبار کے دفتر جا دھمکے اور سالک صاحب سے کہنے لگے :‘‘اٹھو اور مسلم لیگ کے جھنڈے کو سلامی دو۔’’
٭……٭……٭
دادا: (اپنے پوتے سے) بیٹا صبح جلدی اٹھا کرو۔ چڑیوں کو جلدی اٹھنے کی وجہ سے ان کی غذا کیڑے مکوڑے ملتے ہیں۔
پوتا: (معصومیت سے) مگر دادا جان کیڑے مکوڑوں کو صبح جلدی اٹھنے کی سزا بھی تو ملتی ہے۔
٭……٭……٭
کسی مشاعرے میں نوح ناروی غزل پڑھ رہے تھے جس کی زمین تھی : ‘‘حالات کیا کیا ’ آفات کیا کیا’’ جب وہ اپنے مخصوص انداز میں ایک شعر کا پہلا مصرعہ فرما رہے تھے۔
یہ دل ہے ’ یہ جگر ہے ’ یہ کلیجہ
تو ہری چند اختر جھٹ بول اٹھے
قصائی لایا ہے سوغات کیا کیا
٭……٭……٭
ایک دفعہ جوش ملیح آبادی ’کنور مہندر سنگھ بیدی کو ان کی ایک غزل پر داد دیتے ہوئے کہنے لگے کہ دیکھیں کم بخت سکھ ہوتے ہوئے کیسے عمدہ شعر کہہ رہا ہے ۔بیدی نے پلٹ کر فوراً جواب دیا :‘‘اور یہ ظالم پٹھان ہوتے ہوئے کیسی عمدہ داد دے رہا ہے۔’’
٭……٭……٭
لاہور میں ایک مشاعرے میں غزل پڑھی جارہی تھی ۔ردیف تھی :‘‘کوئی یہ جانے کوئی وہ مانے۔’’اختر شیرانی کو شرارت سوجھی ۔ایک شاعر کے پیچھے چھپ کر انہوں نے بلند آواز سے کہا
ہر چیز ملے گی دو آنے
کوئی یہ جانے کوئی وہ مانے
٭……٭……٭