میں اُن کی جماعت میں شامل ہونے کے فیصلے کے کافی قریب تھا۔ کیوں نہ ہوتا وہ توحید میں نہایت پکے ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کم و بیش تمام عقائد کے دلائل قُرآن کی واضح آیات سے دیتے تھے۔ ایک دن اُنکے امام کے پیچھے نماز پڑھی تو اُنکی پُرسوز تلاوت نے دل کی حالت ایسی کر دی کہ ایسی نمازیں کم ہی نصیب ہوتی ہیں۔ امام صاحب نے بھی اپنی جماعت میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دی تو اس سے پہلے کہ میں حامی بھرتا، مشرکین سے سماجی تعلق اور منافقین کے جنازوں میں شرکت کے عقیدے پر بات چل نکلی۔ علم ہوا کہ انکے نزدیک منافقین کے جنازے پڑھنے کی ممانعت کے دائرے میں دیو بندی بریلوی اور اہلِ حدیث سمیت ہر وہ مسلک آتا ہے جسکے نام مجھے یاد تھے۔ وہ انکے جنازے پڑھنے اور انکے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو فاسِق کہتے تھے۔
میں نے تخلیقِ انسان اور دین کے مقصد پر بات کر کے اپنے اعتراضات واضح کرتے ہُوئے سوچنے کا وقت مانگا البتہ اُنہیں یہ کہہ دیا کہ توحید اور ختمِ نبوّت سے متعلق میں آپکے نظریات سے بالکل متفق ہوں البتہ اس بات پر شک میں مبتلا ہوں کہ مشرکین اور منافقین سے متعلقہ آیات مذکورہ مسالک پر لاگو کرنی چاہییں یا نہیں۔
گھر پہنچ کر میں نے کئی دن استخارے کی نیت کی، کوئی اشارہ نہ ملا، اس دوران اُن سے ملاقاتیں جاری رہیں اور میں نے یہاں تک بھی مان لیا کہ بعض مسالک کے بعض نظریات مشرکانہ ہیں، انہیں مُشرک سمجھنا بھی چاہیے، البتہ انکے مُنہ پر انہیں مُشرک کہنا اور انکے جنازوں سے رُک جانا اینٹی سوشل ایکٹیویٹی ہے۔
پھر اُس رات میں سویا تو خود کو ایک بڑے کانفرنس ہال کے باہر دیکھا۔
نہ جانے کیسے مجھے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی ایک مقدس ترین شخصیت اس ہال میں اپنے ساتھیوں سمیت موجود ہیں، کسی نے میرے ہاتھ میں پیپرز تھما دیے تاکہ میں آنے والوں کے نام اس لسٹ میں دیکھ کر انہیں اندر ہال میں بھیجتا رہوں۔ وہاں ان لسٹوں کے ساتھ کچھ دیگر لوگ بھی موجود تھے۔ اُس گیلری کے دوسری طرف چادر جسم کے گرد لپیٹے ایک بُوڑھی خاتون ایسی ہی ایک لسٹ پکڑے خواتین کے نام اپنی لسٹ میں دیکھ کر اُنہیں ہال کے خواتین والے پورشن میں بھیج رہی تھیں۔ دیگر کاونٹرز کی طرح میرے کاونٹر پر مختلف قومیتوں کے کالے گورے گندمی لوگ آتے رہے میں اُنکے نام ویریفائی کر کے اُنہیں ہال میں بھیجتا رہا یہاں تک کہ میری جان پہچان کا پہلا آدمی وہاں آیا جس سے میری پہلی ملاقات سفُورا گوٹھ کراچی کے ایک دیو بندی مدرسے میں ہوئی تھی، اُنہیں دیکھ کر میرے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ میرے دوستوں کا خیال غلط تھا، کم از کم یہ دیوبندی تو مشرک نہیں ہے۔ وہ صاحب مجھے دیکھ کر خوش تو ہوئے لیکن ہال میں جانے کی جلدی میں تھے، بولے اندر ملتے ہیں۔ پھر میرے کئی جاننے والے اُنکے پیچھے آئے جن میں کم از کم تین افراد اہلِ حدیث تھے، ایک نقوی صاحب تھے جو کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں، ایک پیر صاحب بھی آئے جنہیں میں بچپن سے جانتا ہوں- ہم بچپن میں اُنکے سامنے باتیں کرتے ہوئے شرارتاً بار بار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا کرتے، وہ یہ مبارک نام سُن کر ہر بار خشوع و خضو ع سے آنکھیں بند کر کے اپنی اُنگلیاں چُومتے پھر آنکھوں سے لگایا کرتے۔ ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں اُنکی گمراہی پر ہنسا کرتے تھے۔ اُنہیں دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ کم از کم یہ بریلوی گُمراہ نہیں ہے۔ وہ اپنا نام ویریفائی کروانے کے بعد میرا ماتھا چُوم کر اندر چلے گئے۔ ایک بائیس تیئیس سالہ نوجوان بھی وہاں آیا جو میرا دوست ہے، وہ خود دیوبندی ہے اُسکی بیوی اہلِ حدیث۔ میرا ایک کزن بھی وہاں آیا جس کے حد سے بڑھے ہوئے دینی رحجان کی وجہ سے میں اُس سے ہمیشہ اُلجھتا ہی رہا تھا وہ اپنا نام ویریفائی کروانے کے بعد وہیں کھڑا رہا کہ اکٹھے اندر چلیں گے۔ میں نے زیادہ کام کا کہہ کر اُسے اندر بھیج دیا۔
ایک افریقی دوست بھی وہاں آئے جن کا مسلک تو مجھے معلوم نہیں لیکن وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے اور رفع یدین کرتے ہیں۔ میں اُنہیں ایک دہائی سے جانتا ہوں۔پھر جیسے رش یکایک ختم ہو گیا۔ سبھی کاونٹر خالی نظر آئے، وہاں لسٹیں لے کر کھڑے افراد شاید ہال میں چلے گئے تھے۔ خواتین کے پورشن کے باہر البتہ کچھ خواتین باقی تھیں، میں نے اُن میں سے ایک لبنانی خاتون کو پہچان لیا کیونکہ وہ بُرقعے میں نہیں تھیں۔ کافی عرصے سے میری اُن سے جان پہچان ہے، وہ ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، ایک مسلمان سے شادی کے بعد عیسائی سے مسلمان ہوئی تھیں، اُس سے طلاق کے بعد بھی دین پر قائم رہیں۔ اُنکے ہال میں جانے کے بعد خواتین کی لِسٹ لے کر کھڑی خاتون کو بھی اندر ہال میں جاتے دیکھا تو میں بھی مردوں کے دروازے سے ہال کی طرف لپکا۔ وہاں دروازے پر میرے جاننے والے ایک بزرگ موجود تھے جو تدرریس سے منسلک ہیں۔ اُنہوں نے لسٹ مجھ سے لی اور دروازہ بند کرنے لگے۔ میں نے نے تڑپ کر فریاد کی کہ مجھے تو اندر آنے دیں۔ وہ سنگدلانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولے تمہارا نام کہاں ہے پیپرز میں۔
میرا نام واقعی اُس پیپر میں نہیں تھا اُنہوں نے دروازہ بند کر لیا اور میں دکھی دل کے ساتھ وہیں بیٹھ رہا یہاں تک کہ آنکھ کھُل گئی۔
کسی کا خواب کسی دوسرے کے لیے اتمامِ حُجّت نہیں بن سکتا لیکن میرے لیے تو ہے کہ اسے دیکھا میں نے ہے۔اگلے دن سے میں نے اُن لوگوں سے رابطے بڑھانے شروع کر دیے جنہیںمیں نے اُس خواب میں ہال کے اندر جاتے دیکھا تھا۔ اُسی دن یہ فیصلہ بھی کیا کہ آئندہ نہ صرف کسی ایسے کلمہ گو کو مُشرک کافر فاسِق یا منافق نہیں سمجھونگا جو توحید کا قائل ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے حتمی خاتمے پر ایمان رکھتا ہو بلکہ آخری سانس تک مسلکی فرق میں اُلجھے بغیر مسلمانوں کے اتحاد کی سرتوڑ کوشش کرونگا۔
جب میں نماز پڑھتا ہی اللہ کے لیے ہوں تو مجھے کیا غرض امام مسجد بریلوی ہے یا شافعی یا حنفی۔ اب یہ بھی میرے ایمان کا حصہ ہے کہ فرقہ پرست کے ساتھ تو اللہ جو کرے گا سو کرے گا، اُن لوگوں کی جماعت جن سے اللہ راضی ہو گا تمام مسالک سے آئے ایسے صالح مومنین پر مشتمل ہو گی جو اپنی عقل و فہم اور کپیسٹی کے مطابق تخلیقِ انسان کے مقصد کو پُورا کرنے کی اپنی سی کوشش میں لگے
ہونگے۔ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے اپنے جن جاننے والے افراد کو میں نے اُس ہال میں جاتے دیکھا وہ بالکل ایسے لوگ تھے جو نہ صرف اسلام کا درد رکھتے ہیں بلکہ انسانوں کی فلاح کے کسی نہ کسی علمی کام سے بھی جُڑے ہیں۔