مشاہیر عالم
دیال سنگھ مجیٹھیا۔ محسنِ لاہور
محمد عبدہ
دیال سنگھ مجیٹھیا کا تعلق شیرگِل برادری سے تھا جو امرتسر کے شمال مشرق میں واقع چھوٹے سے گاؤں مجیٹھا میں قیام پذیر تھی۔ ان کے خاندان کے خون میں فن حرب شامل تھا اور اس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج کے لیے تین نسلوں تک جرنیل فراہم کیے تھے۔ ان کے والد لہنا سنگھ سکھ سلطنت میں توپ خانے کے سربراہ تھے۔ وہ منڈی اور سکیت کی پہاڑی ریاستوں کے گورنر رہے۔ وہ ہرمندر صاحب (گولڈن ٹمپل) کے منتظم اعلیٰ بھی رہے۔ انہیں سائنس سے گہری دلچسپی تھی اور انہوں نے تجربات کے لیے اپنی تجربہ گاہ قائم کررکھی تھی۔ وہ پرعزم انجینئر تھے، ان کی محنت سے پنجاب میں دھات کے کارخانوں میں بہتری آئی اور انہوں نے ایسی گھڑی ایجاد کی جو وقت کے ساتھ دن، مہینہ اور چاند میں آنے والی تبدیلیاں بتاتی تھی۔ تاہم فلکیات میں گہری دلچسپی ہونے کے باوجود انہوں نے کوپرنیکس کے نظام کو تسلیم نہیں کیا اور اس ایقان پر قائم رہے کہ زمین جامد ہے۔
1839ء میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد پنجاب میں بدانتظامی اور سیاسی افرتفری کے بعد وہ بنارس (واراناسی) ہجرت کر گئے اس سال پنجاب کو برطانوی راج میں شامل کرلیا گیا۔ برطانوی کنٹرول میں آنے کے بعد پنجاب میں امن و انتظام لوٹ آیا اور مجیٹھا خاندان اپنے آبائی علاقے لوٹ آیا۔
لہنا سنگھ کرشماتی شخصیت اور سفارتی مہارت رکھتے تھے جس کی مدد سے انہوں نے برطانوی حاکموں کی خوشنودی حاصل کرلی وی این دتا کہتے ہیں کہ برطانوی ریزیڈنٹ ہنری لارنس، جس کی پنجاب کے سرداروں سے خاصی ہمدردیاں تھیں، نے لہنا سگھ کو پنجاب آنے پر قائل کیا اور انہیں کونسل آف ریجنسی کا رکن مقرر کیا۔ ہنری لارنس انہیں ''پنجاب کا سب سے سمجھ دار سردار'' شمار کرتے تھے۔بالآخر وہ پنجاب میں آباد ہوگئے لیکن 1854ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت دیال سنگھ کی عمر صرف پانچ سال تھی۔انہیں امرتسر میں ایک برطانوی معلمہ نے کرسچیئن مشن سکول میں تعلیم دی۔ وہ ذہین تھے اور انہوں نے کم عمری میں گیتا اور قرآن کو پڑھ اور خاصا سمجھ لیا تھا جس سے بطور جدید انسان ان کی تشکیل ہوئی۔
نوجوان دیال سنگھ کو سردار تیجا سنگھ کی سرپرستی میں دے دیا گیا۔ دیال سنگھ کو اپنے والد سے ترکے میں بہت کچھ ملا تھا۔ دیال سنگھ کا خاندان اس قدر نمایاں تھا کہ لاہور میں 1864ء میں وائسرائے کا دربار سجا تو 603 افراد کو مدعو کیا گیا جن میں 16 سالہ دیال سنگھ بھی شامل تھے۔ انہیں 55 ویں نشست اور ان کے چچا رنجودھ سنگھ کو 103 ویں نشست دی گئی۔
جب دیال سنگھ جوان ہورہے تھے پنجاب جدت کے اہم مرحلے سے گزر رہا تھا۔ اس عمل میں اربنائزیشن کے بعض پہلوؤں کی نمایاں حیثیت تھی۔ اس تبدیلی کو ممکن بنانے والوں میں معلم، پریس، ٹرانسپورٹ اور ابلاغ، بیوروکریس کا نظام اور زمینوں کی آباد کاری شامل تھی۔میرے خیال میں جدیدیت کا اثر انہیں براہمو سماج کی جانب لایا جو بنگال میں سماجی اور تعلیمی اصلاحات کی ابتدا کرنے والے راجا رام موہن رائے کے ذہن کی پیداوار تھا۔ براہمو کے ایک رہنما سریندرا ناتھ بینر جی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دیال سنگھ کو ایک آزاد اخبار شروع کرنے کی صلاح دی جو دی ٹریبون کے نام سے فروری 1881ء میں جاری ہوا۔ اس کا آغاز بطور ہفت روزہ ہوا لیکن اس نے ایک وطن پرست روزنامے کی شکل اختیار کرلی جسے بہت پذیرائی ملی۔ اس دور میں کسی ہندوستانی کی ملکیت میں دوسرا واحد اہم اخبار دی ہندو آف مدراس تھا۔ان کا قیمتی جواہرات کی خریدوفروخت کا کاروبار بھی تھا۔ سکھ سلطنت کی تاریخ کے بارے میں وہ خوب جانتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ کون سے امیر اور اہم خاندان اب ضرورت مند ہیں۔ دیال سنگھ قیمتی پتھروں کے ماہر تھے اور رئیل اسٹیٹ اور قیمتی پتھروں کے کاروبار سے انہوں نے بہت دولت کمائی تھی۔ 1895ء میں لکھی گئی وصیت میں ان کی دولت 30 لاکھ روپے بتلائی گئی تھی جو 1893ء میں مرنے والے ٹاٹا خاندان کے سر دراب جی ٹاٹا سے سات لاکھ زیادہ تھی۔دیال سنگھ مغربی تعلیم کے بہت بڑے حامی تھے اور پنجاب یونیورسٹی کے قیام میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے انجمن اسلامیہ کو بڑی رقوم عطیہ کیں۔ اسی طرح انہوں نے انڈین ایسوسی ایشن لاہور کے صدر کے طور پر سرسید احمد خان کو خوش آمدید کہا۔ بی کے نہرو کا یہ کہنا شاید درست ہے کہ دیال سنگھ نے شمالی ہندوستان کے لیے وہی کچھ کیا جو راجا رام موہن رائے نے بنگال کے لیے تین چوتھائی صدی قبل کیا تھا۔انہوں نے 1880ء سے کافی پہلے یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ ہندوستانی عوام کی نجات مغربی تعلیم میں ہے۔ اس لحاظ سے ان کا تقابل سرسید احمد خان سے کیا جاسکتا ہے جن سے ان کے خیالات خاصے ملتے جلتے تھے۔
لاہور میں دیال سنگھ کالج، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری تعلیم کے لیے ان کی ترجیح کا اظہار ہے۔ دیال سنگھ کی وصیت کی تکمیل کے لیے سنگھ ٹرسٹ لائبریری کا آغاز 1908ء میں مطالعہ کے ایک کمرے کی صورت میں ہوا تھا۔ 1928ء میں اسے باقاعدہ لائبریری کی شکل دی گئی۔ تین مئی 1910ء کو دیال سنگھ حویلی لاہور میں دیال سنگھ کالج کی بنیاد رکھی گئی اور گنگا رام ٹرسٹ سے تبادلے کے ذریعے لائبریری کی عمارت نسبت روڈ پر تعمیر ہوئی۔دیال سنگھ نے شہزادوں کی سی زندگی گزاری ان کے شوق ان کے طبقے سے مطابقت رکھتے تھے۔ ان کا دوپہر کا کھانا طویل ہوتا جو بعض اوقات گھنٹوں جاری رہتا۔ جب وہ اور ان کے مہمان کھانا کھا رہے ہوتے تو موسیقی ہوتی یا مداری کا تماشا ہوتا۔ وہ کُشتی کی سرپرستی کرتے اور پتنگ بازی کے دلدادہ تھے۔ انہیں شطرنج بہت پسند تھی۔ انہیں کلاسیکی موسیقی سے دلچسپی تھی۔ وہ اچھے شاعر تھے اور مشرق کے نام سے اردو میں لکھتے تھے۔1898ء میں جب دیال سنگھ کا انتقال ہوا تو ان کے پاس 26 قیمتی جائیدادیں تھیں۔ ان میں مال رورڈ پر 54 رہائشی یونٹس والا دیال سنگھ مینشن، فین روڈ پر وکلا کے متعدد چیمبر، بعدازاں گنکارام ہسپتال کو فروخت کی جانے والے عمارت، اور کراچی میں جائیداد تھی جسے ان کی موت کے بعد فروخت کرکے میاں میر کو جانے والی سڑک پر زمین کو خریدا گیا۔ان کی اپنی اولاد تو کوئی نہیں تھی پر بے شمار پنجابی بچوں کو اپنی اولاد کی طرف پسند فرماتے تھے، انہی کی خاطر انہوں نے دیال سنگھ کالج و دیال سنگھ ٹرسٹ جیسے ادارے تعمیر کرواے ۔دیال سنگھ نے ولایت قیام کے دوران کے انگریز خاتون سے شادی بھی کی پر اولاد کی نعمت سے محروم رہے ۔ ولایت قیام کے دوران وہ مارکس ازم سے بھی متاثر ہوئے انہوں نے داڑھی اور سر کے بال تک منڈوا دیے تھے اور سگریٹ پینا شروع کر دی تھی (جو سکھ مزیب کے سراسر منافی عمل ہے)تاہم بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے توبہ کر لی۔ ان کا نام پنجاب کے تاریخی لوگوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔***