اللہ اپنے قوانین کے پیچھے موجود امر کی صُورت ہمارے اردگرد اور ہماری رگ رگ میں موجود ہے۔ جیسے جیسے ہم خود کے جِسم اور اپنے اردگرد کے انتظام کے پیچھے موجود قوانین سے واقف ہوتے جائیں گے اللہ سے واقف ہوتے جائیں گے۔ ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہونے سے مُراد بھی ہر چیز کا اللہ کے قانون کے تحت ہونا ہے۔ اللہ سورہ بقرہ کی آیت ایک سو چھیاسی میں کہتے ہیں، ُجب کوئی تم سے میرے بارے میں سوال کرے تو (اُسے کہو) میں قریب ہی تو ہوں۔ میں ہر پُکارنے والے کی پُکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مُجھے پُکارے تب انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری پُکار کا جواب دیں اور مُجھ پر ایمان لائیں تاکہ صحیح راستہ پائیں۔‘‘
اللہ کے قوانین کی سمجھ اور اُن قوانین کے تحت کوشش کرنا اللہ کو پکارنے کی بہترین شکل ہے-سورہ رعد کی چودھویں آیت کا مفہوم ہے کہ ’’ یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ اسے پُکارا جائے۔ جو اُسکے علاوہ کسی کو پُکارتے ہیں اُن کو جواب نہیں پُہنچے گا۔ یہ ایسے ہی ہیں جیسے کوئی ایک دریا کے قریب ہاتھ پھیلائے ہوئے دعائیں کر رہا ہوکہ پانی اُس کے منہ کے قریب آ جائے لیکن ایسا کبھی نہ ہوگا اللہ انکار کرنے والوں کی پُکار کو ایسے ہی رائگاں کرتا ہے۔‘‘اس آیت سے ایسے لوگ جو اللہ کے علاوہ کسی اور کوپُکاریں اُن کو قانون کے خلاف مانگنے والوں جیسا بتایا گیا ہے۔ دونوں کی دُعا کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ اللہ سے کُچھ حاصل کرنے کا محکم قانُون غوروفکر، تدبُر اور کوشش ہے۔
سورہ نجم کی آیت اُنتالیس میں اللہ کہتا ہے انسان کو اُس کے سوا کُچھ نہیں مل سکتا جس کے لیے وہ کوشش کرے۔ آیات چالیس اور اکتالیس میں کہتا ہے کہ پُوری پُوری محنت دیکھی جائے گی اورپھر پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔یعنی قُرآن کا قانون یہ کہتا ہے اللہ کی وکالت کی طرح دُعا کی بھی شرط محنت ، اللہ کے قانون کا علم اور اپنی طرف سے ہر مُمکن اسباب اختیار کرنا ہے ہے۔ قانون کے خلاف اللہ کو ہزار یا لاکھ بار بھی پُکارلیں آپکو کُچھ نہیں ملے گا۔ چاند ستاروں کا اپنے اپنے مداروں میں گردش کرنا دن کے بعد رات کا آنا یہ سب اسکی نشانیاں اور قانون ہیں- جب تک چاند اپنا مدار چھوڑ کر اپنی مرضی سے کام نہیں کرے گا‘جب تک سورج اپنی مرضی سے مغرب سے نکلنا شروع نہ کر دے‘یقین رکھیے کہ تب تک اللہ کا قانون باقی ہے-
جب تک اللہ کا قانون باقی ہے، اللہ اُس دُعا کے جواب میںکُچھ نہیں دے گا جس کے لیے آپ نے محنت نہ کی ہو۔ چاہے لاکھ وظیفے کیجیے یا آدھی زندگی رورو کر دُعا کریں اور باقی زندگی انتظار کریں۔ اگر آپ یہ بُنیادی قانون سمجھ چُکے تو اب ایک ثانوی قانون سمجھ لیجیےجسے عام الفاظ میں خوش قسمتی کہا جاتا ہے۔ خُوش قسمتی کے حقیقی مفہُوم کو سمجھنے کے لیے اجر اور صِلہ، شُکر اور توکُّل کے مفاہیم کی سمجھ ضروری ہے-
اللہ یقیناََ محنت اور نیّت کے مُرکّب کے قانُون کے تحت ہی نوازتا ہے- بیشتر اوقات تو ہماری محنت کا صلہ ہمارے مقاصد کے ہمارے ہی طے کردہ وقت پر حصُول سے ہمیں مل جاتا ہے البتّہ بعض اوقات ہم محسُوس کرتے ہیں کہ باوجُود محنت ہم اپنے مقصد کے مُکمّل یا فوری حصُول میں ناکام رہے-اکثر لوگ اسے اپنے نصیب کا لکھا جان کر مایُوسی اور شکوے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں- جیسے میں نے پہلے عرض کی کہ قُرآن کئی مقامات پر یہ واضح کرتا ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرے- ایک آیت تو یہ بھی کہتی ہے کہ پُوری پُوری محنت دیکھی جائے گی اور پُورا پُورا صِلہ دیا جائے گا-ان آیات کے قانُون کے باوجُود بعض اوقات محنت کا فوری صلہ نہ ملنے یا بغیر محنت صلہ ملنے کے پیچھے موجود اللہ کا دُوسرا مُتوازی قانُون سمجھنے کی ضرورت ہے-یاد رکھیے، اللہ مُعاملات کو چُونکہ وقت کے بڑے اور وسیع پیمانے میں اپنی حکمت اور تدبیر کے قوانین کے تحت دیکھتا ہےلہٰذا بعض اوقات ہم محنت تو کرتے ہیں لیکن اُس کا فوری صلہ یا تو ہمارے وسیع تر مفاد میں نہیں ہوتا یا محنت کافی نہیں ہوتی،یا اللہ اپنی حکمت سے جان لیتا ہے کہ کسی شخص کو ملنے والا فوری صِلہ مفادِ عامہ یا خُود اس کے مُستقبل کے کسی بڑے مُعاملے سے ٹکرا سکتا ہے- ایسے میں ہماری محنت اور نیّت کا مُرکّب اللہ کے ہاں موجُود ہمارے مخصُوص صِلہ اکاوٴنٹ میں جمع ہو جاتا ہے-اگر کسی مخصُوص وقت میں محنت کے باوجُود صلہ نہ ملنے پر بھی ہم اللہ کی حکمت پر بھروسہ اور ایمان رکھتے ہُوئے شُکر گُزار رہیں تو اللہ کے ہاں موجُود ہمارے صلے کے اکاونٹ میں موجُود ہمارا کریڈٹ بڑھا دیتا ہے-کیونکہ شُکر اپنی ذات میں ایک عمل ہے- یہ چُونکہ کوئی آسان عمل بھی نہیں تبھی یہ پہلے سے غیر ادا شُدہ صلے کو کئی گنا بڑھا دینے کی طاقت رکھنے والا بھاری عمل ہے-اللہ سے بڑا امین کون ہو سکتا ہے-اللہ کو ہماری گُزشتہ محنت اور نیّت کے غیر ادا شُدہ صلے کے اکاوٴنٹ کا کریڈٹ اپنی حکمت کے قانُون کے تحت مُتعیّن کردہ کسی وقت پر لازماََ ہمیں لوٹانا ہی ہوتا ہے.پھر کسی لمحے ہم کسی مقصد کے لیے باقی لوگوں سے کم محنت کرتے ہیں لیکن مقصد پالیتے ہیں-اور بعض اوقات بغیر محنت ہی کوئی مقصد یا کوئی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے- اسے کوئی خوش قسمتی کہنا چاہے تو کہہ لے لیکن یہ درحقیقت ہماری کسی گُزشتہ محنت اور شُکر کا غیر ادا شُدہ صلہ یعنی نصیب تھا جس کی ادائگی کے لیے اللہ کی حکمت نے یہ وقت چُنا-جس مقصد کے لیے بھی محنت کریں تو مقصد پُورا نہ ہونے پر اسے اپنی بدقسمتی مت سمجھیے-
یہ یقین رکھیں کہ صلہ اللہ کے ہاں محفُوظ ہے اور ناکامی کی صُورت میں بھی شُکر اُس صلے کو بڑھاتا رہے گا-اور وہ صلہ اللہ کی حکمت کے تحت آج سے بہتر وقت اور آج سے بہتر کسی مقصد کے حُصول کی صُورت میں ظاہر ہو کر رہے گا-کیونکہ اللہ سب امانت داروں سے بہترین امین ہے- میرے لیے کیا بہتر ہے اور وہ مُجھے کب اور کس صُورت میں ملنا چاہیے اس کا فیصلہ بھی اللہ مُجھ سے بہتر کر سکتا ہےکیونکہ میں صرف ماضی اور حال کا بھی صرف مخصُوص پہلُو جانتا ہوں.جبکہ اللہ ماضی اور حال کے ہر پہلُو سمیت اگلی نسلوں کا بھی پُورا مُستقبل جانتا ہے- عین ممکن ہے کہ مُجھے ملنے والے صلے کے وقت اور صُورت کا تعلُق میری یا کسی اور کی اگلی نسلوں کے مُستقبل سے جُڑا ہو-یعنی محنت، نیک نیّتی اور شُکر آپکے صلے کے اکاوٴنٹ کو بھرنے کے لیے ضروری ہے یہ سب تو آپکو کرنا ہی ہے بس یہ صلے کے وقت کے تعیُّن کی وکالت اللہ پر چھوڑنی ہوگی-یعنی اللہ پر توکُل کرنا ہوگا.وکیل کا کام اپنے مُوٴکّل کے مفاد کا بہترین دفاع ہے. اس یقین کے ساتھ محنت کرتے جائیے کہ اللہ سے بہتر آپکا کوئی وکیل نہیں- اللہ کو وکیل بنا لیں تو خوش قسمتی آپ کا پیچھا کرے گی-