’’کچے ایمان کے ساتھ دعا ، وظیفہ اور نیکی ری ایکشن کر جاتےہیں ‘‘
ایک دوست لکھتے ہیں کہ ایک بندہ عجب صورتحال لے کر ان کے پاس آیا- اسکی بہت جائز قسم کی حاجات جیسے قرض کی ادائیگی اور کچھ خاندانی فرائض جیسے والدین کاعلاج معالجہ اور اسکے کاغذات اور کاروبار روزگار کے مسائل -اس نے عرصہ سات سال خدا کا خوف اپنے اوپر لازم رکھا- تہجد نماز روزہ استغفار دعا صدقات غرض ہر وہ کام جو دین میں رائج ہے کیا مگر اسکی کوئی ایک مشکل بھی حل نہ ہوئی- اس نے تنگ آکر شیطان کو اپنا مالک و مولا مان لیا اور منت مانی کہ اگر شیطان اسکی مشکلات حل کر دے تو کبھی خدا کی جانب نہ لوٹے گا- شیطان اس سے بنفس نفیس ملا اور اس سے عہد و پیمان لے لیا اور اسکو یقین دہانی کرا دی کہ فلاں وقت تک فلاں فلاں کام اسکا کر دیا جائے گا-حسب وعدہ اس کے سارے مسائل اس کے نئے مالک نے حل کر دئے- غرض عرصہ سات سال کی ریاضت گریہ اور تقوی اس کے کسی بھی مسئلہ کو حل نہ کر سکا مگر غیر یقینی طور پر سب کچھ تین دنوں میں جو جو وقت شیطان نے اسے بتایا اس سے ایک منٹ کی دیری نہ ہوئی-
اب وہ شخص ہے تو مطمئن اور راضی پر اسکا اب بنے گا کیا -یہ مجھے غیر مطمئن کر رہا ہے
اس نے راتیں بھوک سے گزاریں اور رو رو کر روٹی مانگی رب سے اور سخت دوڑ دھوپ کرتا رہا-تہجد قیام اللیل اور حلال روزی سب کچھ کیا اس نے رب کو پتہ نہیں کیوں ترس نہیں آیا اس پر ؟
گزارش ہے کہ اللہ بے نیاز ہے اس شخص کی مسلمانی سے بھی اور اس شخص کے کفر سے بھی - اس کے مشروط ایمان سے خدا کا فائدہ کوئی نہیں تھا اور اس کے اس کفر سے خدا کا کوئی نقصان نہیں ہے - اب اس شخص کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے دنیا کا انتخاب کر لیا اور شیطان سے لے لیا- چاہے وہ شیطان نظامی تھا یا غلام رسول تھا یا انہی کا کوئی بھائی بند تھا ، اور ایمان بیچ کر اپنے معاشی مسائل حل کر لئے - کچھ لوگ دنیا بیچ کر آخرت خرید لیتےہیں کچھ آخرت بیچ کر دنیا خرید لیتے ہیں -قرآن نے دونوں کا ذکر کیا ہے- اشتروا الحیوۃ الدنیا بالآخرہ،والضلالۃبالھدی،والعذاب بالمغفرہ - دنیا کی زندگی آخرت دے کر خرید لی - ہدایت دے کر گمراہی لے لی اور اللہ کی مغفرت کی بجائے اللہ کے عذاب کو خرید لیا -
میںجب بھی لوگوں کو گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگتے اور لمبے لمبے سجدے کرتے ، وظیفے کرتے دیکھتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کہ یہ نقد والے ہیں اگر اللہ نے ان کے ساتھ ادھار کیا تو یہ کفر کی طرف بھاگ جائیں گے- یہ عبادت و ریاضت ، یہ دعائیں اور وظیفےہضم کرنے کے لئے ہاتھی کا پیٹ چاہئے یا ہمالیہ جتنا ایمان - اس لئے میں لوگوں کو وظیفوں کے چکر میں ڈالتا ہی نہیں - اب اگر اس بھائی کو میں دو چار لاکھ روپیہ بھیج دیتا تو وہ مسلمان ہوتے بلکہ Paid Muslim ہوتے - پہلے انہوں نے مجھ سےہی رابطہ کیا تھا ، مگر نہ میرا خدا بلیک میل ہوتا ہے اور نہ ہی میںہوتا ہوں ،جس کی بھی مدد کرتا ہوں بےلوث کرتا ہوں ، مگر اس دھمکی سے کبھی نہیں کی کہ اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو میں بس کافر ہواہی چاہتا ہوں - اس طرح تو کوئی ایسی بیوی کو بھی خرچہ نہیں دیتا جو کہے کہ اگلے مہینے پیسے نہ آئے تو میں دلدار بھٹی کے ساتھ بھاگ جاؤں گی-
ایمان نام ہی امتحان کا ہے مگرہم پیدائشی مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ہی نہیں کہ ہمارے پاس کتنی بڑی دولت ہے ،لہذا اس کو بیچنے کے لئے ہاتھوں پہ دھرے پھرتے ہیں - ایمان نام ہے اپنی جان اور مال اللہ کے حوالے کر کے خود تہی دست ہو کر بیٹھ جانے کا -اللہ نے خرید لیا مومنوں سے ان کی جان اور مال بدلے اس کے کہ ان کے لئے ہے جنت -
إن الله اشترى من المؤمنين أنفسهم وأموالهم بأن لهم الجنة ،،، اب اس جان اور مال کے ساتھ وہ کیا کرتا ہے وہ خود اس کا فیصلہ کرنے کا مختار ہے ،چاہے تو اس بدن کو گلا گلا کر مار دے ، چاہے تو اس مال کو خساروں سے ختم کر کے رکھ دے صرف یہ چیک کرنے کے لئے کہ اس نے اپنا قبضہ ختم کیا ہے یا نہیں - اگر قبضہ اللہ کو دے دیا ہے تو پھر جو گزرے گی اس کو اعتراض نہیں ہو گا اور اگر قبضہ برقرار تھا توہر خسارے اور ہر تکلیف پر سانپ کی طرح بل کھائے گا -
دل ہو کہ جان ، تجھ سے کیونکر عزیز رکھئے
دل ہے سو چیز تیری ،جاں ہے سو مال تیرا
یہ جان اور مال لینے کے بعد فرمایا کہ اسے ہم اس طریقے سے لیں گے کہ تم تڑپ تڑپ جاؤ گے ، تمہارے ہاتھوں مال بھی جائے گا اور جان بھی جائے گا - ادھر ایمان لاؤ گے ادھر نقصان شروع ہو جائیں گے ،فصلیں پھل دینا بند کر دیں گی ، لگے ہوئے پھل خراب ہو جائیں گے ،، بدن پر بیماریوں کا حملہ ہو گا ،جس جگہ تمہیں گلہ پیدا ہو گا ، ثابت ہو جائے گا کہ تم ابھی تک اس کو اپنا مال اور جان ہی سمجھ رہے ہو ورنہ رنج اور گلہ نہ ہوتا -
ولنبلونكم بشيء من الخوف والجوع ونقص من الأموال والأنفس والثمرات وبشر الصابرين-( البقرہ - 155 )یہ صابرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم پلٹ کر اللہ کی طرف جانے والےہیں اور جو کچھ بھی نقصان ہو رہا ہے اس نے وعدہ کر رکھا ہے کہ آخرت میں منافع سمیت ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی سکون سے گزرے گی - یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر اللہ کی طرف سے شاباش ہے اور رحمتیں متوجہ رہتی ہیں اور ایسا رویہ رکھنے والے لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں -
اللہ کی یہ سنت پہلے ایمان لانے والوں کے ساتھ بھی جاری رکھی گئ ہے اور اب بھی جاری و ساری ہے - سورہ العنکبوت انتہائی نامساعد حالات میں نازل ہوئی ہے ،جس کا اسٹارٹ ہی نہایت دھماکہ خیز ہے -
الف لام میم ،کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ان کو چھوڑ دیا جائے گا صرف اتنا کہہ دینے پر کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ؟ ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں اور اللہ جان کر رہتا ہے ان کو جو کہ سچے ہیں ایمان میں اور ان کو بھی جو کہ جھوٹے ہیں ایمان میں -الم (1) أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (2) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ (العنکبوت- 3)
کیا یہ سارے حالات نبی کریم ﷺ اور صحابہؓ پر نہیں گزرے ؟ شعب بنوہاشم کی تین سالہ قید جس میں بچوں کو جوتے ابال کر ان کا پانی پلایا جاتا تھا اور ان بچوں کے رونے سے اھلِ مکہ کی نیندیں اچٹ جاتی
تھیں یہ ایک دو دن کی بات نہیں تین سال کی بات ہے -اسی قید نے حضرت خدیجہ کی صحت پر ناموافق اثر کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی جان بھی گئ تھی،، پھر ہما شما کے گلہ کرنے کی کیا مجال رہ جاتی ہے -
دعا کر کےہضم کر لینا خالہ جی کا گھر نہیں اس کے لئے یا تو ہمالیہ جیسا ایمان چاہئے یا کے ٹو جتنا -جوانسان کی گردن جھکا کر رکھے - جو اس کو لیدر کلاتھ کی طرح گیلا اور ڈھیلا رکھے ۔گنہگار جب دعا مانگتا ھے تو ڈر ڈر کے مانگتا ہے،اسے اپنے گناہوں کے کلپ بار بار نظر آ رہے ہوتے ہیں-دعا پوری ہو جائے تو فبہا ،، نہ ہو تو وہ اپنے آپ کوہی کوستا ہے کہ تو نے بھی کونسا کوئی اچھا کام کیا ہوا ہے! یہ تو ہونا ہی تھا- وہ مزید مسکینی اور عاجزی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اللہ معاف کرے نیک آدمی جب دعا مانگتا ہے تو دعا نہیں مانگتا وہ تو الٹی میٹم دیتا ہےاپنی نمازوں ،اشراق و اوابین، حج اور عمرے کے کلپ بار بار لگ رہے ہوتے ہیں- جوں جوں قبولیت میں دیر ہوتی ہے موڈ خراب ہوتا جاتا ہے- اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کی انسلٹ کی جارہی ہے، اور آخر بول پڑتا ہے، یار نمازیں بھی پڑھتے ہیں، صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں مگر مصیبت نے ہماراہی گھر دیکھ لیا ہے- یہ گلے شکوے کا انداز دعا کو کیا قبول کرائے گا عبادت کو بھی بے کار کر دیتا ہے- دعا کر کے رب کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہئے- یاد رکھئے دعا میں ٹائم فریم نہیں ہوتا،منگتا کسی کو الٹی میٹم نہیں دیتا، منگتا یہ نہیں کہتا کہ سرکار اتنے دو، ڈالرزہی دو، وہ کشکول آگے کر دیتا ہے جو آپ کے جی میں آئے ڈال دو -
دعا کا ادب سیکھنا ہے تو موسیٰ علیہ السلام سے سیکھیں - درخت کے نیچے کھڑے ہو کر فرمایا ربِ انی لما انزلتَ الی من خیر فقیر ( القصص ) ائے میرے پالنہار میں ہر اس چھوٹی سے چھوٹی خیر کا محتاج اور قدردان ہوں جو تو میری جھولی میں ڈال دے، اس ادا پر رب کی رحمت کا ٹوٹ پڑنا دیکھو، گھر بھی دے دیا، نوکری بھی دے دی، بیوی بھی اسی دن دے دی- یہ ہے ہمارے رب کا مزاج ،بلیک میلنگ اسے بالکل پسند نہیں - نہ وہ نسب سے بلیک میل ہوتا ہے نہ عبادت سے، سر جھکا دو، آنکھیں نیچی کر لو، رو لو، نہیں تو رونے کی صورت بنا لو، پھر دیکھو وہ خود تمہاری ضرورتوں کوڈھونڈ ڈھونڈ کے پورا کرے گا ! اللہ آپ کو سلامت اور اپنے در کا محتاج رکھے ! آمین