وہ سائیکل پر کپڑا رکھ کر گلی گلی بیچا کرتاتھا۔پانچ بچوں اوربوڑھے ماں باپ کابوجھ تنہا اسی کے کندھوں پر تھا۔ماں باپ کی خدمت اوربچوں کی پرورش میں وہ حسب استطاعت کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتا مگر پھر بھی حالات انتہائی کٹھن تھے ۔اس سب کے باوجود وہ ہر سال کچھ رقم لے کر تبلیغی جماعت کے مرکز رائے ونڈ پہنچ جاتا اور چالیس دن ان کے ساتھ سفر میں رہتا۔ایک سال کی بات ہے کہ رائے ونڈ میں مقیم ایک بزرگ نے اس سے پوچھا کہ تم ہر سال اتنی رقم کس طرح پس انداز کر لیتے ہو۔اس نے جواب دیاکہ حضرت میںبیوی بچوں اورماں باپ کے حصے میںتوکوئی کمی نہیںکرتاالبتہ اپنا حصہ ضرور بچاتا ہوں۔بزرگ کہنے لگے آخر تم بھی انسان ہو تمہاری بھی ضروریات ہیں ان کا کیا ہوتاہے کیسے بچا لیتے ہو آخر تمہاری آمدن ہے ہی کتنی!۔اس نے کہا آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں ۔میرا بھی دل ہے ! لیکن اس دل کو میں سارا سال سمجھاتا ہوں تب جا کر یہ منزل حاصل ہوتی ہے۔اس نے کہاکہ مثلاً ایک دن میں دیکھتا ہوں کہ آج میرے پاس دس روپے فالتوہیں اور اُدھر دل ہے کہ انگو ر کھانے کا تقاضا کر رہاہوتاہے میں انگوروں والے کے پاس پہنچتا ہوں اس سے پوچھتاہوں انگور کیا بھائو ہیں ، وہ بتاتا ہے کہ دس روپے پائو ہیں۔ میں اپنے دل سے کہتا ہوں، کہ تو نے اگر انگورنہ کھائے تو کیا مر جائے گا ؟ یہی انگور تو جنت میں جا کے کھا لینا۔ اور یوں، میں وہ دس روپے الگ رکھ دیتاہوں۔پھر سال کے کسی حصے میں دیکھا کہ بیس روپے بچے ہیں اور سیزن آم کا ہے ۔ دل آم مانگتاہے ، میں آموں والے کے پاس جاکر ریٹ پوچھتا ہوں۔ وہ کہتاہے کہ چالیس روپے کلو۔میں دل سے کہتاہوں کہ تو نے اگر،آج ،آم نہ کھائے تو کیا مرجائے گا؟ یہ آم تجھے انشا ء اللہ جنت میں مل جائیں گے ،یہ بیس روپے تو اللہ کے راستے میں صرف کر د ے ۔دل کو اس طرح سمجھا کر میں بیس روپے الگ سے رکھ دیتاہوں۔عید آتی ہے ،دل کہتا ہے نئے کپڑے ہونے چاہییں۔مجھے پتاہوتا ہے کہ تین سو کا سوٹ بنے گا۔تین سو بھی پاس ہوتے ہیں۔ میں دل سے کہتاہوں کہ اگر تو نے نئے کپڑے نہ پہنے تو کیا عید نہ ہو گی؟ نئے کپڑے تو جنت میں جا کے پہن لینا اوریوں یہ تین سو بھی بچاکر الگ رکھ دیتا ہوں۔ پورا سال میں یوں ہی قدم قدم پر اپنے جذبات قربان کر کے بچت کرتا ہوں او ر سال بعد جتنے بچتے ہیں وہ لے کر اللہ کے راستے میں آجاتا ہوں۔یہ سنا تو اس بزرگ کی آنکھوںمیں آنسو بھر آئے اور یوں گویا ہوئے کہ تم جیسے لوگوں کی قربانی ہی کے صدقے ہدایت کے فیصلے ہوتے ہیں۔
قارئین! میرے لیے یہ سب کچھ لکھنا بھی آسان اور شاید آپ کے لیے پڑھنا بھی اتنا ہی آسان ہو اور اس داعی کی حکمت عملی سے ،بعض علمی موشگافیاں پیداکرکے، اختلاف کر نا شاید اس سے بھی آسان ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرناانتہائی مشکل اور کٹھن امرہے ۔
یہاںیہ کہانی دہرانے سے ہمار امقصوداس لگن اور کمٹمنٹ کی طرف متوجہ کرنا ہے جو اس شخص کو اپنے مقصدکے ساتھ حاصل تھی ۔کچھ ایسی ہی کمٹمنٹ اصل میںپورے دین کے ساتھ مطلوب ہے اورجب ایک مسلمان ایسی وابستگی کا عز م کر لیتا ہے تو پھر اس کا ہر قدم ہی اصل میں قربانی کا قدم ہوتاہے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام تواصل میں قربانی کا مذہب ہے جس نے قربانی نہیں سیکھی اس نے گویا اسلام کاذائقہ ہی نہیں چکھا ۔قربانی کی بہت سی قسمیں ہیں۔جان ، مال ، وقت کی قربانی وغیرہ ۔ اپنے اپنے وقت پر کبھی کوئی مطلوب ہوتی ہے کبھی کوئی لیکن اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کے لیے مال اوروقت کی قربانی توپھر بھی آسان ہوتی ہے مگر جذبات کی قربانی وہ قربانی ہے جو انتہائی گراں گزرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جس نے یہ قربانی سیکھ لی اس نے یقینا جنت کی راہ آسان کی لی ۔جنت مزکیٰ روحوں کاٹھکانہ ہے اورمزکی روحیں فاسد جذبات مثلاً نفرت ، حسد ، کینہ ، بغض ، تکبر ، غرور ، ریا کاری ، جھوٹ ، غیبت ، غصہ ، حرص ، ہوس قربان کر کے ہی بنتی ہیں۔کیا ان جذبات کی قربانی آسان ہے ؟ یہ ہر مسلمان کے لیے غور کرنے کامقام ہے۔
عیدالاضحی میں بکروں کے گلے پر چھر ی پھیرتے عمریں بیت گئیں مگر کیا کبھی ان جذبات کے گلے پر چھر ی پھیرنے کا خیال بھی آیا؟ اور اگر کبھی آیا،تو کیا روبہ عمل ہوا؟ اور اگر ہوا تو پھر یہ سمجھنا اور سمجھانا شاید آسان ہوکہ یہ عمل مال اور وقت کی قربانی سے واقعتا مشکل ہے ۔
اللہ تعالی کی اطاعت ، رسول اللہ ﷺکی محبت ، مخلوق کی خدمت اور آخرت کی سچی طلب گھر میں اورگھر سے باہر ، انفرادی اوراجتماعی بلکہ ہر قدم پر اور ہر وقت جذبات کی قربانی کا تقاضا کر تی ہے کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں ؟ اگر نہیں توابھی وقت ہے کہ ہم رخ درست کر لیں ورنہ آنکھیں بند ہوتے کون سا دیر لگاکرتی ہے لیکن حقیقت میں تو اس وقت آنکھیں بند نہیں کھلا کرتی ہیںمگر تب کھلیں تو کیاکھلیں؟