انسان جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی آنکھیں بند ہو گئیں جب کہ سیانے کہتے ہیں کہ جانے والے کی آنکھیں بند نہیں ہوتیں بلکہ کھل جاتی ہیں-
(آخر ت کے اعتبار سے)- اسی طرح جانے والےکے اوصاف اوراسکی خوبیوں کے حوالے سے اُس کی زندگی میں ہماری آنکھیں عموماًبندہی رہتی ہیں لیکن اس کے جاتے ہی کھل جاتی ہیں-واللہ یہ بھی غنیمت ہے اگر جانے کے بعد بھی نہ کھلیں تو بھی ہم کیا کر سکتے ہیں-
مشتاق صاحب بھی28 مارچ کو چپکے سے دنیا سے رخصت ہو گئے اور ان کے جاتے ہی ہماری آنکھیں بھی کھل گئیں - ان کی کتنی ہی خوبیاں ایسی تھیں جن کو ان کی زندگی کے پردے نے چھپا ر کھاتھا-اب وہ پردہ ہماری آنکھوں سےہٹا ہے تو ان کی وہ ساری خوبیاں ایک ایک کر کے نظر بھی آ رہی ہیں اور یاد بھی آ رہی ہیں- کاش انسان اپنی اس کمزوری پہ قابو پا لیں اور لوگوں کی خوبیوں کو ان کی زندگی ہی میں appreciate کرنے لگ جائیں تو یہ زندگی کتنی خوبصورت ہو جائے-لیکن بلا شبہ انسان خسارے میںہےتاہم بعض خوش نصیب ایسے بھی ہیں جو قرآنی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اس خسارے سے بچ بھی جاتے ہیں - مشتاق صاحب بھی انہیں میںسے ایک تھے-ایمان خالص کی فراوانی کے ساتھ ساتھ عمل صالح ‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بھی ان کی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آتے تھے-وہ بر ملا اعتراف کرتے تھے کہ انہوں نے اپنی بہت سی آرا سے سوئے حرم کے اداریے اور مضامین پڑھ کر رجوع کر لیا- اور وہ اس رجوع کو اپنے تک ہی محدود نہ ر کھتے تھے‘ دوسروں کو نہ صرف بتاتے بلکہ انہیں قائل کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے اور اگرمخاطَب کی طرف سے ناگوار رد عمل آئے تو اس پر صبر بھی کرتے تھے -ان کی زندگی میں صبر کا یہ پہلو ان کے صحیح فہم دین کاپر تو تھا- ان کے ہاں دینی خیالات کی تنقیح و تصیحح کا عمل ہمیشہ جاری رہتا تھا -وہ کسی بھی نئے خیال کو قبول کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے بشرطیکہ ان کے نزدیک وہ قرآن وسنت کی کسوٹی پر پورا اترتا ہو- قرآن مجید سے ان کی محبت ہی انہیں مجبور کرتی تھی کہ وہ راقم کی مرتب کردہ تفسیر نورالقرآن ( سات تراجم-سات تفاسیر) کو حرف بحرف پڑھیں اور پھر آ کر راقم کو آگاہ بھی کریں کہ اس میں پروف ریڈنگ کی یہ یہ اغلاط ہیں اور آئندہ ایڈیشن میں اس کو کس کس پہلو سے بہتر کیا جا سکتا ہے - یہ الگ بات ہے کہ میری تساہل پسندی ہمیشہ آڑے آئی اور میں ان کی ہدایات پر عمل نہ کر سکا-
چھوٹوں کو عزت کس طرح دی جاتی ہے - اس پہلو سے بھی مشتاق صاحب کی زندگی بہترین نمونہ تھی- میںان سے عمر میں بھی چھوٹا تھا او ر فکر وعمل کے حوالے سے بھی مگر وہ مجھے جس طرح عزت سے نوازتے تھے
اس سے بعض اوقات نہ صرف شرمندگی بلکہ
اپنے اعمال کے حوالے سے افسوس بھی ہوتا تھا اور میں اللہ کریم سے دعا کرتا تھا کہ وہ مجھے مشتاق صاحب کے گمان جیسا بنا دے
ان کا یہ رویہ مجھ جیسے چھوٹے لوگوں کے لیے ہی خاص نہ تھا بلکہ وہ اپنی اولاد کوبھی ایسی ہی عزت سے نوازتے تھے -
معاملہ فہمی اور صلح جوئی بھی ان کا خاص وصف تھا- میں ا کثر کہا کرتاہوں کہ لڑنا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن لڑائی سے بچ جانا اور ایسے موقع کو avoid کرنا اصل بہادری ہوتی ہے - میرا کہنا تو بس نظریاتی تھا لیکن مشتاق صاحب عملاً اس میدان کے مرد تھے -جس طرح وہ چپقلش کے ماحول کو محبت کی فضا میں بدلنے میں ماہر تھے اسی طرح روٹھے افراد کو منانے اور ان کی صلح کروانے میں بھی ان کو ایک خاص ملکہ حاصل تھا-وہ انسانی تعلقات کو آخر ی حد تک نبھانے کے قائل تھے-لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ حق کا دامن بھی ہمیشہ تھامے ر کھتے تھے-
انکے چاہنے والے انہیں ایک بہاد ر انسان کے طور بھی ہمیشہ یاد ر کھیں گے-وہ اپنی بیٹی کی شادی فضول معاشرتی رسم ورواج سے ہٹ کر سادگی سے کرنا چاہتے تھے اس کے لیے انہوں نے جس طرح اپنے بڑے خاندان اور سوسائٹی کا سامنا کیا یہ انہی کا خاصا تھا- ایسے مواقع پر بڑے بڑ ے جبہ و دستار والے ‘ لمبی داڑھیوں اور اونچی شلوار والے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن مشتاق صاحب اس موقع پر بھی آگے بڑھ گئے- یقیناً ا س کاصلہ انہوں نے اللہ کے حضور پا لیا ہو گا - کریم رب سے امید ہے کہ اُس نے انہیں کہا ہو گا کہ جس طرح تو دنیا میں میری رضا کی خاطر آگے سے آگے بڑھتا جاتا تھا ‘ جا‘آج میری جنتوں میں بھی آگے سے آگے بڑھتا جا-
سوچتا ہوں کہ مشتاق صاحب تو چلے گئے اب کون مجھے بخاری صاحب کہہ کے بلایا کرے گا- کون سوئے حرم کی بہتری کے لیے فکر مند رہاکرے گا-کون مجھے نور القرآن کے لیے مشورے دیا کرے گا- کون میری تحریر اور تقریر کی ہر جگہ تعریف کیا کرے گا اور کون صرف اور صرف مجھے ملنے کے لیے اتنی دور سے چل کے آیا کرے گا-
میرا خیا ل تھاکہ مشتاق صاحب کے جانے کے بعد ہم جلد ہی انہیں بھول جائیں گے لیکن یہ کیا‘ یہاں تومعاملہ الٹ ہو گیا- اب تو یہ حال ہے کہ جب بھی کہیں مروت اور وضع داری کی کمی دیکھتا ہوں تو مشتاق صاحب یاد آتے ہیں- جہاںبھی حق گوئی اوربہادری کی ضرورت ہوتی ہے تو مشتاق صاحب یاد آتے ہیں- جب بھی فضول رسم و رواج کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہونے کی مشقت سامنے آتی ہے تو مشتاق صاحب یاد آتے ہیں- جب بھی راضی برضائے رب رہنے کی ادا یاد آتی ہے تو مشتاق صاحب یاد آتے ہیں حتی کہ کہیں ویسپا سکوٹر کی تصویر بھی دیکھ لیتا ہوں تو مشتاق صاحب یاد آتے ہیں-
مشتاق صاحب ہمیں اپنی نا کامی کا اعترا ف ہے - ہم آپ کو بھولنے میں یقیناً نا کا م ہو گئے - اللہ کریم آپ پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے -ہر آنے والا دن جنت میں آپ کے درجات میں اضافے کی نوید اور ہر آنے والی ساعت اللہ کے قرب میں اضافے کی خوشخبری لے کر آئے - آمین یا رب العالمین-