اس کی بیٹی نے ایف ایس سی کر لی تھی اب وہ اس تلاش میں تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے کس شعبے کا انتخاب کیا جائے -اس کے کولیگ کی بیٹی یو کرین میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی تھی - اس نے مشورہ دیا کہ تم بھی اپنی بیٹی کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے یو کرین بھیج دو-بہت کچھ سوچنے اور بہت سا حساب کتاب لگانے کے بعد یہ مشورہ اسے صائب لگا- اس کے کولیگ نے اپنی بیٹی سے اس کی بات کروائی اور میڈیکل کالج کے ایک پروفیسر سے بھی بات کروائی - وہاں مسلمانوں کے لیے کیسا ماحول ہے اس پر بھی اس نے تسلی کر لی-اس نے بیٹی کی اسناد متعلقہ کالج کو بھیجیں انہوں نے بھی کنفرم کیا کہ داخلہ ہو جائے گا-وہاں مسلمانوں کی ایک تنظیم سے بھی اس کی بات ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ آپ پریشان نہ ہوں ہم یہاں تمام مسلمانوں خصوصاً بچیوں کا خاص خیال ر کھتے ہیں -رہایش کا بھی بندوبست ہو گیا- چند عرب مسلمان لڑ کیوں کے پاس جگہ موجود تھی - انہوں نے کہا کہ فی الحال وہ ہمارے پاس رہے گی پھر ہم پا کستانی لڑ کیوں کے پاس اسے سیٹ کروا دیں گی-یہ سارا کچھ ہو رہا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ کریم سے یہ دعا بھی بار بار کر رہا تھا کہ مالک ہم تو اپنےسامنے والی دیوار کے پار بھی نہیں جانتے‘ تو ہمیں مستقبل کا بھلا کیا علم ہو سکتا ہے - تو کرم فرما اگر میرا یہ فیصلہ بہتر ہے تو بیٹی کے جانے کے سارےاسبا ب فراہم کردے اور اگر یہ ہمارے مستقبل کے لیے بہتر نہیں تو اس خیال کو ہمارے د ل سے نکال دے -سارے اسباب و وسائل میسر ہونے اور داخلے کی نوید کے باوجود اس کے دل کو اطمینان نہ ہورہاتھا- آخر اس نے فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا کہ اگر دل کو اطمینان نہ ہوا تو سمجھوں گا کہ بیٹی کو نہ بھیجنے ہی میں خیر ہے اور اگر اطمینان ہو گیا تو بھیج دوں گا- مگر جب کافی روز گزر گئے اور دل کا اطمینان حاصل نہ ہوا تو اس نے بیٹی کو وہاں بھیجنے کا فیصلہ کینسل کر دیا- اور آج اس بات کے دو سال بعد وہ سوچتا ہے کہ اس وقت ہمیں کیا خبر تھی کہ یو کرین میں جنگ چھڑ جائے گی اوروہاں سب کچھ تہ وبالا ہو کر رہ جائے گا- اگر اس کی بیٹی وہاں ہوتی تو آج نہ جانے کس حال میں ہوتی - اس کے کولیگ کی بیٹی کی طرح وہ بھی شاید پہلے ٹرین میں سینکڑوں میل کا سفر کرتی پھر بسوں میں دھکے کھاتی پھر جنگلوں میں پید ل چلتی اور تب جا کر پولینڈ کی سرحد تک پہنچتی اور پھر وہاں سے پا کستان آتی اور نہ جانے آ بھی سکتی کہ نہ آ سکتی-ادھر بیٹی نے جان ہتھیلی پہ ر کھے ہوتی اور ادھر ہماری جان سولی پہ لٹکی ہوتی اور بچی کے دوسال اور ہمارے لا کھوں روپے خواہ مخواہ میں ضائع ہو گئے ہوتے-ہاں سچ ہے اللہ جو کرتا ہے وہی ہمارے لیے بہتر ہوتاہے -
وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ با صلاحیت نوجوان ہے اگرچہ اس کی شریک حیات ایک گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے اور اچھا گزارہ ہو رہا ہے مگر باوجود کوشش کے یہ نوجوان معاشی طور پر سیٹ نہ ہو سکا- پا کستان میں بہت سے دھکے کھانے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ تر کی جایا جائے - اس نےاور اس کی فیملی نے ایک سال لگا کے تر کی زبان سیکھی اور اس میں کافی مہارت حاصل کر لی بلکہ اس کی شریک حیات تو ترکی زبان پڑھانے بھی لگی- بچے بھی کافی حد تک بولنے لگے- تر کی کےبہت سے شہروں کے بار ے میں بہت سی معلومات ا کٹھی کیں- وہاں کئی دوست بنائے اور وہاں کیا کیا کام کئے جا سکتے ہیں ان کا علم حاصل کیا-اور پھر ایک بہت ہی تجربہ کار ایجنٹ کے ذریعے پوری فیملی نے وزٹ ویزے اپلائی کر دیے- ان کا خیال تھا کہ وزٹ پر جانے کے بعد وہاں جا کر ریزیڈنسی پرمٹ حاصل کر لیں گے -ویزے اپلائی کرنے کے بعد انہوں نے گھر سمیٹنا شروع کیا -اور یہ مشورہ کرنے لگے کہ کون ساسامان بیچنا ہے اور کون سا ر کھناہے - جس ایجنٹ کے ذریعے انہوں نے ویزے اپلائی کئے تھے اس کے ویزے کبھی ریجیکٹ نہ ہوئے تھے مگر دو تین ماہ گزرنے کے بعد جب ان کے پاسپورٹ واپس آئے تو ریجیکشن ان کا منہ چڑا رہی تھی- پوری فیملی ڈیپریشن کا شکار ہو گئی - یہ جوان تو بہت ہی مایوس ہوا- ایک دو ماہ بعد اس مایوسی سے نکلا تو معلوم ہو ا کہ تر کی کی معیشت تو بہت ہی ابتر حالت میں جا چکی ہے اور وہاں سروائیول بہت ہی مشکل ہو گئی ہے - افراط زر بہت بڑھ چکا ہے قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور غیر ملکیوں کے لیے رہنا تو بطور خاص بہت مشکل ہو گیا ہے اورمستقبل قریب میں بھی اس حالت کے سنبھلنے کے ا مکانا ت نظر نہیں آ رہے -یہ ساری صورت حال دیکھ کے وہ نوجوان جو پہلے بہت مایوس تھا ‘ اب کہہ رہا تھا کہ یہ تو اچھا ہی ہوا کہ ان کے ویزے ریجیکٹ ہو گئے ورنہ تو سر منڈاتے ہی اولے پڑ جانے تھے - وہ پا کستان سے سب کچھ بیچ باچ کے وہاں جاتے اور وہاں سب کچھ افراط زر کی نظر کر کے خالی ہاتھ واپس آ جاتے - نہ یہاں کچھ رہتا اور نہ ہی وہاں سے کچھ ملتا- اب جب بھی اس سے ملیں تووہ نوجوان بار بار اللہ کا شکر ادا کرتےہوئے یہی کہتا نظر آتا ہے کہ بلا شبہ اللہ جو کرتا ہے وہی بہتر ہوتا ہے -
اللہ تعالیٰ چونکہ کریم ذات ہے اس لیے وہ ‘ وہ نہیں کرتا جو ہم چاہتے ہیں بلکہ وہ کرتا ہے جو ہمارے لیے بہتر ہوتا ہے -اس بہتری کا علم لازم نہیں کہ ہمیں فوراً ہوجائے لیکن جب بھی انسان کو اس کا علم ہو تا ہے توو ہ بے اختیار پکا ر اٹھتا ہے کہ مالک بے شک وہی بہتر ہوتا ہے جو تو کرتا ہے نہ کہ وہ جوہم سوچتے ہیں یا ہم پلان کرتے ہیں-