ہر ایک کی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ مگر مجھ سے لڑکیاں جتنی مرتبہ اور جیسے بھی حالات میں پوچھیں گی تو میرا مشورہ یہی ہوگا کہ اگر آپ کی نئی شادی ہوئی ہے، اگر آپ کے بچے چھوٹے ہیں تو آپ کو اپنی تعلیم اور کیرئریر کو جاری نہ رکھ سکنے کی فکر میں ہلکان نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کے شوہر، گھر والے سب آپ کے قدموں میں سرخ قالین بھی بچھا دیں ، تب بھی آپ سارا دن کی مشقت، نائٹ اور ویک اینڈ شفٹس، پے درپے اسائنمنٹس، پریزینٹیشنز اور امتحانات کے بوجھ کے ساتھ اپنے بچے، اپنے تعلق اور اپنے گھر کو کتنا وقت دیں پائیں گی؟
ہم انسان پہلے ہیں۔ ہمارے جسمانی، جذباتی اور روحانی وجود کے تقاضے بہت اہم ہیں۔ مگر نئے زمانے میں ہمیں محض سماجی حیوان اور اجتماعی معاشرے کا ایک پرزہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس دور کے انفرادی آزادی اور انفرادیت کے تحفظ کے نعرے سے فریب نہ کھائیں۔ اپنے مزدور کو بہلائے رکھنے اور اپنے نظام کے لیے مسلسل کام کو تیار رکھنے کو یہ اسے نفس پرستی کے معاملے میں کچھ سہولیات دیتا ہے۔ ورنہ اس کی انفرادیت میں اپنی خواہشات کی تسکین کے سوا اور کس چیز کی آزادی ہے؟ آپ اس نظام سے الگ چل کردکھائیں پھر یہ آپ کو بتائے گا کہ آپ درحقیقت کتنے آزاد ہیں۔ آپ اس سے الگ راستہ لیں یہ آپ کو یقین دلائے گا کہ آپ بے کار اور ناکام ہیں۔
You're a loser!
آپ کی صلاحیتوں اور خوبیوں کی کوئی اہمیت نہیں اگر وہ اس سسٹم کے لیے مفید ثابت نہیں ہورہی۔
ضرورتاً ملازمت ایک الگ موضوع ہے۔ اسی طرح اگر آپ کو ایسی ملازمت یا تعلیم کا موقع ملتا ہے جو جزوقتی ہو، اس میں گھر اور بچوں سے غیر حاضری کے طویل وقفے نہ آتے ہوں، اور گھر کا سکون برباد نہ ہوتا ہو بلکہ گھر میں تنظیم اور اسٹرکچر بنتا ہے تو آپ ضرور کیجیے۔ مگر آپ کی قدر و قیمت کا تعین کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا واحد یہی معیار نہیں ہے کہ آپ کتنی اعلی تعلیم اور کیسی ہائی پروفائل جاب کرتی ہیں۔خصوصاً گھر، ازدواجی تعلق اور بچوں کی پرورش کے زمانے میں تعلیم یا ملازمت نہ جاری رکھنے پر یہ سوچنا کہ میں ضائع ہورہی ہوں ، میری صلاحیت ضائع ہورہی ہے، میرا کوئی مقام و حیثیت نہیں۔ فلاں فلاں وہاں اور وہاں پہنچا ہوا ہے۔ یہ اور وہ کر رہا ہے غلط ہے۔
ڈاکٹر لڑکیوں کو خصوصاً یہ کہا کرتی ہوں کہ
It's never too late...
اگرچہ اب اکثریت ایک فلو میں بغیر رکے ایم بی بی ایس، ہاؤس جاب، ریزیڈنسی اور اسپیشلیسٹ ٹریننگ کے مراحل سے گذر کر تیس بتیس برس تک تخصص مکمل کر لیتی ہے۔ ایسے میں ہم جیسی خواتین جو گھر اور بچوں کی خاطر وقفہ لیتی ہیں خود کو احمق اور بے کار تصور کرتی ہیں۔ مگر منفرد مثالوں کی بھی کمی نہیں۔ میرے کئی کولیگز اپنا کیرئر تبدیل کرکے آئے ہیں۔ ایک صاحب پہلے فزیو تھراپسٹ تھے، بعد کو میڈکل سائنسز پڑھ کر اب سائکائٹری کی اسپیشلسٹ ٹریننگ کررہے ہیں جبکہ ان کے دو بچے ہیں۔ ایک خاتون گریجویشن کے بعد ڈئزائینر بنیں، اور اب سرجری میں آگے جانا چاہتی ہیں لہذا انٹرن شپ کے مراحل میں ہیں۔ کئی لوگ جن میں مرد حضرات شامل ہیں برسوں اسپیشلسٹ ٹریننگ چھوڑ چھاڑ سی ایم او بنے پیسے کماتے اور گھر سنبھالتے رہے۔ اب ٹریننگ جوائن کررہے ہیں۔ یوٹیوب پر امریکا کے ایک بڑے مشہور صاحب ہیں جنہوں نے پہلے انجینئرنگ کی ڈگری لی اور بعد کو کیرئیر تبدیل کرکے میڈیسن لے لی۔ اب کیرئیر کاونسلنگ اور انٹرویوز وغیرہ کی وڈیو بناتے ہیں۔یہ مثالیں اگرچہ کم ہیں مگر موجود ہیں ۔تو ایسے میں، میں اور آپ کیوں نہ سوچیں کہ میرا گھر اور میرے بچے اور میرے نئے رشتے میری زندگی کے اہم مراحل تھے جو کیرئیر سے کسی طور کمتر نہ تھے ۔ میں شدید محنت، توجہ اور وقت مانگتی دو کشتیوں میں سوار نہیں ہوسکتی تھی۔آپ اپنی زندگی کے اس مرحلے کو انجوائے کریں۔ سب کچھ قربان کر کے اسٹیٹس، پیسہ، پریکٹس، گھر گاڑی مل بھی جائے تو کیا ایکسائٹمنٹ باقی رہے گی۔ آپ سوچیں گی کہ میری desperation کی یہ قیمت کافی ہے؟
میں جس دنیا میں رہتی ہوں وہاں میرے کولیگز کے پاس عالیشان گھر، گاڑی ہے پریکٹس سب ہے ، بچے نہیں ہیں کیونکہ ملتوی کرتے گئے، پارٹنرز کے ساتھ رہتے ہیں کیونکہ شادی کی صورت میں زیادہ میچور اور ذمہ دار تعلق سنبھالنے کو جو وقت، قربانی اور توجہ درکار تھی وہ کیرئیر لے لیتا ہے ۔ تین یا چار پارٹنر بدلنا غیر معمولی بات نہیں۔ رشتوں کی جگہ سوشل گیدرنگز ہیں، گھومنا پھرنا ہے ۔ لوگ سوشلی کولڈ اور خود غرض ہیں۔
ہم مسلمانوں کے معاشرے بھی چونکہ بالآخر انہی راستوں پر چلتے ہیں اور انہی منازل سے گذرتے ہیں، اس لیے یہ سوال اپنے آپ سے پوچھنا ضروری ہے کہ کیا ہمارے سماجی ڈھانچے میں میرے لیے یہ آئیڈیل زندگی ہے؟ یہ سوال آپ کو اپنے آپ سے خود کرنا ہے ۔ مقاصد، ترجیح اور منزل آپ کا اپنا انتخاب ہے۔