طمانچہ

مصنف : زارا مظہر

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : اپریل 2022

میں جس کنبے میں بیاہ کر گئی انکے چھ بیٹے تھے میرے حصے میں جو آیا وہ سب سے چھوٹا اور زبردستی کا لاڈلا تھا ایسے لاڈلے بڑے بھائیوں کی شادی کے بعد  نکھٹو کہلاتے ہیں  یا طفیلی ۔ میری قسمت کی خرابی تھی جو مجھے اسکے  پلے سے باندھ دیا گیا ۔  میری شادی کے وقت وہ پانچوں بڑے بڑے عہدوں تک جانے کی پہلی پہلی سیڑھیوں پہ قدم رکھ چکے تھے اور مختلف شہروں میں رہتے تھے  ساس سسر اپنی تربیت اور بچوں کی کامیابیوں پہ پھولے نہ سماتے تھے ۔ سب کی بیویاں اچھے گھرانوں سے تھیں اور پڑھی لکھی سلیقہ شعار  تھیں میں بھی ایک نجیب الطرفین گھرانے سے تعلق رکھتی تھی خاصی چھانٹ چھلنی کے بعد منتخب کی گئی تھی تعلیم میں حسن صورت و سیرت میں اپنی جیٹھانیوں کے ہم پلہ تھی ۔  
مستقبل کے وہ بڑے سرکاری ملازم مختلف بہانے گھڑ کے باری باری بیویوں کو ساتھ لے گئے کسی کو سرکاری مراعات سے فائدہ اٹھانا تھا کسی کو گھر الاٹ کروانا تھا کسی کو بچوں کی مہنگی اور فری اسکولنگ کروانی تھی اور کسی کو گھر کے کھانے کھانے تھے جو بیوی ہی پکوا سکتی تھی پرانے گھر میں فالتو اور ناکارہ پرزے بچے تھے  جن میں میں  , ساس سسر اور نکھٹو میاں تھے جن کےتھوڑے بہت راتب کا بندوبست کماؤ پوت کر دیا کرتے تھے تاکہ اپنی جڑوں اور  آبائی گھر سے جڑے رہنے کا فخر نقد کی صورت  جیب میں رہے باقی کے اخراجات کا سنبھالا سسر کی پینشن کر لیتی میں اس کاٹھ کباڑ کی خدمت جوگی مخصوص کر دی گئی ۔
 ارد گرد اپنی ہی برادری بستی تھی روز ہی شام کو کوئی نہ کوئی آجاتا اور مہمان داری میری ذمہ داری تھی ۔ مجھے یہ سب کچھ دو وقت کی روٹی کے بدلے میں کرنا پڑتا تھا  نکھٹو صاحب زبان اور مزاج کا تیز ہونے کے ساتھ ساتھ ہتھ چھٹ بھی تھا جسے میں نے اپنی قسمت سمجھ کے چپ چاپ قبول کر لیا تھا کیونکہ  میرے گھر میں میرے بعد چار اور بہنیں تھیں ۔ 
  شوہر نکھٹو ہو تو بیوی کی زندگی رک جاتی ہے یا پھربے نتیجہ کے امتحانوں میں گھری رہتی  ہے ۔ ساتھ رہتی تھی دو دو جوڑے سردی گرمی کے ساس لا دیتی تھیں اس کے بعد شائد میری کوئی ضرورت تھی نہ زندگی  ۔ ساس سسر ہمہ وقت پردیسی بچوں کو یاد کرتے رہتے فون کر کر کے اصرار سے حال احوال پوچھتے کرخت لہجے میں شیرا بھر کے  فلاں متوقع چھٹی پہ گھر کا پھیرا مار جانے کا اصرار کرتے نتیجے میں ہر مہینے پندھرواڑے کوئی تھکا تھکایا آدھمکتا اور مجھے کولہو کا بیل بننا پڑتا کہ ساس سسر کے بچے اور انکے بچے گھر تھکن اتارنے اور چھٹی منانے آئے ہیں کمر کس لو  ابھی میری پچھلی تھکن نہ اترتی کہ پھر کوئی بیٹا اور پوتا پوتی لاڈ اٹھوانے آجاتے ۔ میری تھکن کا کوئی خیال نہیں تھا اگر کبھی بھول چوک سے  میرا میکے جانے کا پروگروام ہوتا بھی تو ان کے آنے کا سن کے  ملتوی کروا دیا جاتا ۔ اس دوران رب نے مجھے کوئی اولاد بھی نہیں دی کہ اسکو اٹھانے اور سنبھالنے کے بہانے مجھے تھوڑا ذہنی و جسمانی آرام کا موقعہ مل جاتا ۔ میں اپنے اندر گھٹ گھٹ کے جینے لگی میری جیٹھانیاں اور ساس  بچہ نہ ہونے کا ذمہ دار مجھے ہی سمجھتی تھیں شائد ہمارے معاشرے میں مرد کو ازل سے ہر لحاظ سے تندرست قرار دیا جا چکا ہے اسی لئے بچہ نہ ہونے کا ذمہ دار عورت کو سمجھا جاتا ہے ۔ مجھے سمجھ ہی نہیں آتی تھی میں خوش نصیب ہوں کہ بد نصیب اکثر ہی روانی میں انکے منہ سے نکل جاتا تمہارے کون سا بچے ہیں تم تو بڑے آرام میں ہو اگرچہ وہ طعنہ نہیں ہوتا تھا پہلے ہی بے روزگار  شوہر سینے میں انی کی طرح گڑا تھا تو یہ معمول کا بے ضرر طعنہ سینے میں برچھی کی طرح اتر جاتا ۔ اکثر ساس کہہ دیتیں فلاں بچہ تم سلا لو سدرا کو تھوڑا آرام کا موقعہ مل جائے گا رات بھر سوئی نہیں تھی انداز ایسا ہی ہوتا کہ نہ بال بچہ ہے نہ شوہر کماتا ہے تم تو بیکار کا بوجھ ہمارے اوپر پڑی ہو سو ہمارا احسان ہے کہ تمہیں رکھا ہوا ہے ۔ 
 بڑے پانچ بیٹے تھے اور اپنی فیملی بنانے کے عمل میں تھے  ہر سال ڈیڑھ میں کسی نہ کسی کے ہاں خوشخبری متوقع ہوتی ڈیلیوری کے وقت مجھے بھیج دیا جاتا کہ زچہ محترمہ اور گھر بار بھی سنبھل جائے گا اور ملازمین بھی ۔۔ واپسی پہ ایک سوٹ دے کے سمجھتیں کہ حق تو ادا کر دیا ہے اب کاہے کا احسان جبکہ میں اس مکمل فیملی میں خود کو بہت ہی اجنبی محسوس کرتی میری محرومیاں سوا ہو جاتیں  دن میں کئی بار جیتی کئی بار مرتی ۔ 
دو گلی چھوڑ کے تایا کے بیٹے رہائش پذیر تھے ان بھائیوں سے بڑے تھے انکم ٹیکس کے محکمہ میں بیسویں گریڈ کے آفیسر تھے خوشی غمی کے علاوہ ساس سسر کو اکثر سلام کرنے آجاتے تھے انکے اپنے اماں ابا ایک  ایکسیڈنٹ میں چل بسے تھے سو چاچا چاچی  کو ہی اپنا بڑا بزرگ سمجھتے تھے  پندرہ , بارہ اور نو سال کے انکے تین بچے تھے جو میرے ساس سسر کو دادا دادی بلاتے تھے ۔  بھابھی بیگم کینسر سروائیور تھیں لیکن خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی آگے کوئی گارنٹی نہیں تھی کبھی انکی طبعیت اونچ نیچ پہ مائل ہوتی تو ساس امی مجھے دوڑاتیں کی جاؤ ذرا بھاگ کے  پرہیزی کھانا بنا کے دے آؤ کوئی مدد چاہئے ہو تو کر دینا  ہم بڑے ہیں پاس رہتے ہیں ہم نہیں دیکھیں گے تو کون دیکھے گا ارے نگین کی ساس اللہ جنت نصیب کرے مجھے بڑی بہن ہی سمجھتی تھیں ہم ہر خوشی غمی میں ایک ساتھ جایا کرتی تھیں لو جی  ساس کی محبت کا یہ مول بھی مجھے ہی کارکن بن کے چکانا پڑتا  ماں کی بیماری سے سہمے سہمے بچے مجھ اوتری نکھتری کو  بڑے اچھے لگتے تھے میں جاتی تو انکے بھی کئی کام نمٹا آتی میری پیاسی مامتا کو  تھوڑا سا قرار مل جاتا ۔ دوسرے نمبر کے جیٹھ کی تینوں بیٹیاں تھیں دل میں بیٹے کی خواہش چٹکیاں لیتی رہتی تھی اللہ کرم کرتا توان کو سنبھالنے کا قرعہ فال بھی میرے نام ہی نکلنا تھا سو ایک دن چپکے سے نکل آیا ۔۔ مجھے  پھر آیا بنا کے بھیج دیا گیا سیزیرین ہونا تھا ڈاکٹرز کے ساتھ میٹننگز , الٹرا ساؤنڈز اور ڈیٹ کی کنفرمیشن احتیاط و آرام سب کچھ بڑی تیاری سے چل رہے تھے میرے لئے کچھ بھی نیا نہیں تھا ملازمین سے کام لینا کک کو ہدایات دینا بچیوں کو دیکھنا اور سنبھالنا سب  مل کے مجھے اچھا خاصا تھکا دیتے  پھر گاہے بگاہے بھابھی کو بھی دیکھنا پڑ جاتا تھا آخری الٹرا ساؤنڈ نے بیٹے کی  خوشخبری دے دی تھی بس اب تو بھابھی سے اپنا آپ سنبھل ہی نہیں رہا تھا پاؤں زمین پہ نہ پڑتا بالکل ہی چھالا سا بن گئیں  ۔ بھائی جان انہیں ہتھیلی پہ رکھ کے  سہلاتے رہتے کہ کس طرح دورانیے کی تمام تکالیف خود پہ لے لیں اس بے خودی میں بھابھی کا آدھا بوجھ مجھ پہ لاد دیتے ۔۔ بھابھی کو اٹھانا , بٹھانا اور ٹانگیں سیدھی کروانا , کروٹ دلوانا سب کچھ خاصا تھکا دینے والا تھا اور میں کوئی پروفیشنل نرس نہیں تھی لیکن اس بار بھابھی بیٹا جمنے جا رہی تھیں تو یہ نخرے بنتے تھے ۔۔ بعض دفعہ جیٹھ حد کر دیتے جیسے بھابھی بچہ پیدا کر کے میرے اوپر بھی احسان کر رہی ہوں مجھ بانجھ پہ تو ان کا بیٹیوں کی ماں ہونا بھی سبقت رکھتا تھا ۔ 
 شکر شکر کر کےمقررہ تاریخ پہ بیٹا ہوگیا بھائی جان کا بس نہ چلتا کہ بھابھی کا مرہم بن جائیں یا پھر انکی جگہ خود لیٹ جائیں اتنے لاڈ اٹھاتے کہ اپنے شوہر کی بے مہری یاد کر کے میری آنکھیں بھیگ جاتیں اور میں بانجھ عورت نظر لگ جانے کے ڈر سے کمرہ چھوڑ دیتی ۔ چھلہ پورا ہوا تو بے تاب دادا دادی کو پوتے کی زیارت کروانے کے لئے ہری پور سے لیہ لایا گیا ۔۔ تھکی ہوئی بھابھی کو سنبھالے میں  بھی پیچھے پیچھے تھی بھابھی ناز سے قدم اٹھاتیں داخل ہوئیں اور تھک کے  بیڈ بھی ڈھیر ہوگئیں ۔ خیر بتانے کا یہ مقصد تھا کہ میں بیچ میں پڑا راستے کا پتھر تھی جسے ضرورت ہوتی ٹھوکر سے ادھر ادھر لڑکھا کے اپنی راہ سیدھی کر لیتا  میری رضامندی کی ضرورت تھی نہ اہمیت مجھے سرجھکا کے بس اوپر نیچے سر ہلانا تھا کیونکہ میرا شوہر کما کے نہیں لاتا تھا دو روٹی اور دو جوڑوں کے لئے  مجھے سب کی چاکری بھی کرنی تھی اور طعنے بھی سہنے تھے ۔ وقت بہت آہستگی سے گزر رہا تھا پل پل مجھے کچل کے میرے ناکارہ ہونے کا احساس دیکر  
دو چار بار میرے دل میں بھی اپنے بچے کی چاہت جاگی میں نے بے تاب ہو کے کسی ٹیسٹ یا ڈاکٹر کے پاس چلنے کو کہا لیکن اس نے مجھے ڈانٹ کے بٹھا دیا کہ میرے پاس ان مہنگے ٹیسٹوں پہ برباد کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں تم ہو ہی بانجھ اگر  بچہ ہونا ہوتا تو ہو اب تک ہو جاتا ۔۔ میں دل مسوس کے رہ گئی ۔۔۔ اقرار بھائی کی  بیمار  بیوی ایک دن اچانک یہ جہان چھوڑ کے چلی گئیں چولہے پہ پلاؤ دم دیا ہوا تھا وہ دم پہ ہی رہ گیا  مجھے بچوں کی مسکینی پہ بہت ترس آتا  ۔۔۔بہت خوبصورت اور پیارے لیکن سہمے ہوئے بچے تھے ۔ پہلے بھی کبھی کبھار انہیں نہلا دھلا دیتی تھی بھابھی کی طبعیت زیادہ خراب ہوتی ساس مجھے بھیج دیتیں کہ ذرا کچن دیکھ لینا کچھ ہلکا پھلکا بنا دینا ملازمین کو بھی متنبہ کر دینا وغیرہ وغیرہ ۔
اب تو کسی میکانکی عمل کے تحت میری ڈیوٹی ادھر بھی رہتی ۔ پہلے دس دن تک تو پھوڑی آباد رکھنے کے لئے مجھے روز ہی صبح سویرے جانا پڑتا قل کے بعد بچوں کا سکول جانا شروع ہوچکا تھا ۔ انہیں تیار کرنے میں مدد دینا میری ذمہ داری بنتی جا رہی تھی کیونکہ میں گھر میں موجود ہوتی تھی دسویں کے بعد اقرار بھائی بھی اپنے آفس جانے لگے ۔ اس بھاگ دوڑ میں میرے اپنے گھر کے کئی کام تاخیر کا شکار ہو جاتے کبھی ذہن سے نکل جاتے جس پہ اچھی خاصی لے دے ہونے لگی لیکن میری ساس بردباری اور نزاکت سے سنبھال لیتیں ۔ اس روز جمعہ تھا احد اور اشنا کے سکول میں کوئی فینسی ڈریس شو تھا بچوں کو صبح جلدی جانا تھا اقرار بھائی نے کہا چھوٹی بھابھی صبح ذرا بچوں کی تیاری دیکھ لیجیے گا بن ماں کے رہ گئے ہیں ہمیں تو کچھ سوجھتا ہی نہیں اور روپڑے ۔۔ ساس نے کہا بیٹا فکر نہیں کرو صبح مدیحہ کو جلدی بھیج دوں گی ۔ انکی تسلی دلاسے میں اور بھابھی کو یاد کرنے میں رات زیادہ بیت گئی میں جمعہ کے لئے کپڑے پریس کرنا ہی بھول گئی ۔ صبح بچوں کو بھیج کے انکے  ایک دو کام  نمٹائے ماسی کو واشنگ  مشین لگانے کی ہدایت دی ۔ چھوٹے چھوٹے کئی کام اور بد نظمیاں سمیٹتے ایک بج گیا بھاگم بھاگ گھر پہنچی تو لاڈ صاحب بگڑے بیٹھے تھے کہ کپڑے کیوں نہیں تیار کئے جوش میں  منہ چلاتے چلاتے میرے گال پہ کس کے ایک چانٹا بھی چلا دیا  میں نے بے ساختہ سنسناتا گال ہتھیلی کے نیچے دبا لیا حضرت کا جنون ٹھنڈا نہیں ہوا تو اس جلتے بھانبھڑ میں تین حرف بھی جھونک دئیے ۔۔ میں وہیں چکرا کے گر پڑی خدایا کدھر جاؤں گی اتنا ہی سوچا پھر ہوش نہیں رہا  ۔۔ ہوش میں آئی تو ساس بیٹے کو کوس رہی تھیں اور میرے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھیں کہ ہمیں معاف کردو ۔ اتنے بڑے مسٔلے میں معافی کی  گنجائش تھی نہ پردا ۔۔ یہ شوہر کی بے روزگاری نہیں تھی جس پہ میں خاموشی اختیار کرتی میں سن ہوتے دماغ کے ساتھ  والدین کے گھر آگئی انہیں کچھ نہیں بتایا بتانے کی ہمت ہی نہیں تھی  بس ماں سے کہا کہ طبعیت ماندی ہے کچھ دن آرام کرنا چاہتی ہوں ۔ 
بڑھتے بڑھتے آرام کو مہینہ گزر گیا میں منہ سر ڈھانپے کمرہ بند کئے پڑی رہتی ۔ اپنی فالتو ذات پیچھے رہ گئی ایک بہن کی بات چل رہی تھی ڈوبتے دل سے سوچتی ان کا کیا بنے گا  امی حیران تھیں کہ تم بیمار ہوکے آئی ہوکسی نے فون تک نہیں کیا ۔۔ مہینے بعد اچانک اقرار بھائی آگئے کہنے لگے نگین کے جانے کا دکھ اب تکلیف میں بدل گیا ہے  چھوٹی بھابھی آپ نے بچوں کو سنبھال لیا تھا تو دکھ صرف دکھ تھا تکلیف اب شروع ہوئی ہے  اور نادانستگی میں امی ابا کو طلاق کی حقیقت بھی بتا دی ۔  گھر میں ہاہا کار مچ گئی میرے والدین نے سر پیٹ لیا ۔ باقی چاروں بہنوں کے مستقبل بھی تاریک ہوگئے  امی کے پیروں میں جلے پاؤں کی بلی جیسی بے قراری در آئی شرمندہ سے اقرار بھائی سر جھکا کے چلے گئے وہ رات ہمارے گھرانے پہ بے حد بھاری گزری وہ کالی رات ہمارے گھرانے پہ یونہی ٹھہر جاتی اگر اقرار بھائی اگلے دن آفس سے واپسی پہ اپنے ہمدمِ دیرینہ اور بیچ میٹ کے ساتھ ہمارے گھر نہ آتے وہ آئے اور ایک قابل عمل تجویز ساتھ لائے تھے دو اور چار چار کرتے عمر گزری تھی اس لئے تمہیدیں باندھنے کی بچائے دو ٹوک بولے کہ انکل اقرار کے سر پہ ہاتھ رکھ دیجیے اس میں آپ سب کی بھلائی ہے آپکی بیٹی اسی خاندان کی بہو رہے گی آپ کو بدنامی کا داغ سہنا نہیں پڑے گا  اقرار صاحب کا گھر اور بچے سنبھل جائیں گے اور مدیحہ کو سایہ دار سائبان مل جائے گا ۔ عدت پوری ہوجائے تو چپ چپاتے نکاح کر لیں گے ۔۔ ابا نے تھوڑے سے وقت سوچا امی سے اور مجھ سے علیحدگی میں مشورہ کیا پیچھے چار بیٹیوں کی قطار نے ان سے  اثبات کا  جواب دلوا دیا میری ہچکچاہٹ کی کوئی اوقات ہی نہیں تھی ۔اقرار صاحب اگلے دن اور  پھر کئی بار بچوں کو ملوانے لائے جو مجھے اپنی متوقع امی کے طور پہ سوچ کے بے حد خوش تھے ۔۔ 
اللہ جو کرتا ہے ہمارے لئے بہترین ہوتاہے ۔  بہنیں مجھے اقرار صاحب کا نام لے لے کے چھیڑتیں کہ دیکھو تم کیسے کھوٹے سے کھرا سّکہ بن گئی ہو عدت والا عرصہ یوں سمجھو جیسے تمہاری نحوست کی دھلائی کا وقت ہے  بیگم ساب بننے جا رہی ہو اب ان ناقدروں کو پتہ چلے گا ۔ قدرت  نکھٹو بندہ لے کے کیسے ہیرے سے نوازنے جا رہی  ہے ۔ اتنا بڑا گھر بار گاڑی ملازم اور افسر میاں بھی تمہارے اور بیٹھے بٹھائے بچے بھی مل گئے اور دکھی ہیروئن خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگی بہن نے مجھے گدگدایا ۔  کوئی افسانہ ہوتا تو یہاں کہانی ختم ہوجاتی لیکن  میری کہانی ختم نہیں ہوئی ۔۔کسی اور جگہ شادی ہوتی تو کہانی کا خاتمہ ہو جاتا یہاں پہ جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ گذشتہ پہ پیوستہ تھا ۔ 
عدت کے بعد خاموشی سے بیاہ کے اقرار کے گھر جا اتری ۔ گھر کے افراد کام اور ماحول میرے لئے نیا نہیں تھا بس میری حیثیت بدل گئی تھی مجھے مالکانہ حقوق عطا کر دئیے گئے تھے ۔ بچوں نے میرا شایان شان استقبال کیا اور مجھ سے والہانہ لپٹ گئے ۔ اسی شام  ساس سسر پیار دینے آئے تھے میری جھجھک پہ اقرار نے بتایا کہ چچا چچی کی بھی یہی خواہش تھی ۔۔ چار پانچ مہینوں میں انکے کس بل نکل گئے تھے پیار دیتے روپڑیں کہ نکھٹو کو سنبھالنا بھی پڑ رہا تھا اور اتنے مہینوں سے باقی بیٹے ملنے بھی نہیں آئے تھے ۔۔
رفتہ رفتہ دو سال گزر گئے بچے مجھ سے یوں گھل مل گئے جیسے میری جنموں سے جلی کوکھ ہی سے جنم لیا ہو ۔ قریبی رشتہ داری ہے اور پھر محلے داری بھی ہے تو کئی بار خوشی غمی میں میرے سابقہ جیٹھ اور جیٹھانیاں بھی آجاتے ہیں ۔ میرے پیروں کے نیچے اب پھول کھلتے ہیں میرا لباس اور ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کے مرعوب ہوتے ہیں مجھے انکی خاطر داری کے لئے تکلیف نہیں کرنا پڑتی خانساماں کو پتہ ہے کس مہمان کی کیسے خاطر داری کرنی ہے- اب میں ان سب کی بڑی بھابھی ہوں جس کا شوہر معاشرے کا انتہائی ذمہ دار فرد ہے سو مجھ سے بات کرتے انکی نظروں میں ایک مرعوبانہ احترام ہوتا ہے ۔ کبھی کبھار اپنے سابقہ شوہر سے بھی سامنا ہوا ہے پہلی بار اچانک سامنا ہونے پہ میرا اور اس کا ہاتھ بے ساختہ اپنے گال پہ گیا تھا پھر اسکی نظریں بے اختیار جھک گئیں قدرت نے اس کے گال پہ کیسا طمانچہ رکھا تھا جو اسے کبھی نہیں بھول سکتا قدرت میرے لئے یہ راستہ نہ نکالتی تو میں کیا کر سکتی تھی ۔  اقرار اب بائیسویں گریڈ  یعنی اپنے کیرئر کی پیک پہ ہیں آفس میں انکی ایکسٹینشن آنے کی خبریں ہیں ۔ میرے ان دیوروں کو یہاں تک پہنچنے میں ابھی کئی برس لگیں گے ۔۔   میں اس طرح نوازے جانے پہ ہر دم اپنے رب کی شکر گزار ہوں ۔  
  
                   ٢٢ اپریل ٢٠٢٢ء